جمعه 15/نوامبر/2024

امریکا کی اسرائیل کو نایاب معلومات کی رسائی کیونکر ممکن ہوئی

پیر 6-جولائی-2009

امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو دی جانے والی معاشی امداد تو اہم ہے مگر اس سے بھی کہیں زیادہ حیران کن اسرائیل کو مشرق وسطی پر تسلط برقرار رکھنے کیلئے دی جانے والی فوجی امداد ہے- آج اسرائیل کے پاس نہ صرف ایف سولہ، ایف پندرہ جیسے جدید امریکی طیارے، بلیک ہاک ہیلی کاپٹر، کلسٹر میزائل اور تباہ کن بم ہیں بلکہ اسے امریکی دفاعی نظام اور انٹیلی جنس نیٹ ورک تک بھی رسائی حاصل ہو چکی ہے-

امریکی کانگرس کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق امریکی امداد کی بدولت اسرائیلی افواج دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس سپاہ میں شامل ہیں- امریکہ کا ایک دفاعی ادارہ فوجی امداد لینے والے تمام ممالک کی مانیٹرنگ کرتا ہے کہ کون سا ملک کتنی رقم کہاں خرچ کررہا ہے مگر اسرائیل کی نگرانی نہیں کی جاتی- اس خصوصی رعایت کے نقصان کا اندازہ اس وقت ہوا جب 1990ء میں اسرائیلی فضائیہ کے اعلی افسر بریگیڈئیر جنرل رمی ڈوئن نے امریکی امداد میں سے لاکھوں ڈالروں کا غبن کیا- بعد ازاں اس نے نہ صرف اس کرپشن کا اعتراف کرلیا بلکہ اسے طویل عرصہ قید کی سزا بھی سنائی گئی-

پہلے سے بیان کردہ معاشی و فوجی امداد کے علاوہ بھی امریکہ اسرائیل کو لیوی ائیرکرافٹ، میر کواٹینک، ایرو میزائل اور اس طرح کا دیگر فوجی سازو سامان تیار کرنے کیلئے 3 بلین ڈالر دیتا ہے-

امریکی دفاعی پروگرام کے تحت جاری ہونے والے ان فنڈز کو مشترکہ تحقیق کے لیے ظاہر کیا جاتا ہے حالانکہ امریکہ کا ان ہتھیاروں سے کوئی تعلق نہیں، نہ تو کبھی امریکہ نے یہ ہتھیار خریدے اور نہ امریکی فوج کو ان کی ضرورت ہے- چنانچہ اسرائیل انکل سام کے خرچے پر اپنی دفاعی پیداواری صلاحیت میں مسلسل اضافہ کرتا چلا جارہا ہے- مثال کے طور پر مالی سال 2004ء کے دوران امریکی دفاعی بجٹ میں 136 ملین ڈالر ایرو میزائل کی تیاری، 66 ملین ڈالر صنعت کی بہتری اور 70 ملین ڈالر نئے یونٹ لگانے کیلئے مختص کیے گئے تھے- امریکہ اسرائیل فوجی تعلقات کو 1980ء میں اس وقت وسعت دی گئی جب امریکی صدر ریگن کے دور حکومت میں امریکی وزیر دفاع وائین برگر اور اسرائیلی وزیر دفاع ایریل شیرون نے مشرق وسطی میں روس مخالف اتحاد بنانے کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کیے- اس معاہدے کی رو سے ایک کمیٹی 1981ء میں تشکیل دی گئی جو سالانہ اسرائیلی ضروریات کا تخمینہ لگا کر اسے پورا کرنے کا اہتمام کرتی ہے اگرچہ ریگن کے دور حکومت میں اسرائیل نے کئی مواقع پر اسرائیل کو ٹھینگا دکھایا-
 
مثال کے طور پر امریکی ہتھیاروں کی سعودی عرب کو فروخت، 1981ء میں عراق کے جوہری پلانٹ پر بمباری، دسمبر 1981ء میں ہی گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ 1982ء میں لبنان پر جارحیت اور اسی سال مشرق وسطی میں قیام امن سے متعلق ریگن کا فارمولا مسترد کیے جانے کے باوجود امریکی فوجی تعاون میں کوئی کمی نہ آئی- 1988ء میں فوجی تعاون کی ایک اور مفاہمتی یادداشت پر دستخط ہوئے اور اسرائیل کو امریکہ کا اہم نان نیٹو اتحادی قرار دے دیا گیا- نان نیٹو اتحادیوں کی فہرست میں اس وقت آسٹریلیا، مصر، جاپان اور جنوبی کوریا بھی شامل تھے- ایسے ممالک کو ہتھیاروں کی خریداری میں خصوصی رعایت دی جاتی ہے- اس کے بعد بھی اسرائیل کی فوجی امداد بتدریج بڑھتی چلی گئی اور 2006ء میں کانگرس نے اسرائیل کی امداد 100 ملین ڈالر سے بڑھا کر 400 ملین ڈالر کرنے کی منظوری دے دی-

ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ امریکہ سالانہ فوجی سازوسامان کی بہت بڑی تعداد اسرائیل منتقل کرتا ہے- اس کی توجیہہ یہ پیش کی جاتی ہے کہ مشکل وقت میں اسلحے کو اسرائیل سے استعمال کیا جاسکتا ہے مگر دفاعی تخمینہ نگاروں کے مطابق یہ استدلال لایعنی اور ناقابل فہم ہے- دسمبر 2006ء میں ایک اسرائیلی اخبار نے ہی یہ انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل نے ان اسلحہ خانوں میں موجود امریکی ہتھیاروں کو 2006ء میں لبنان کے خلاف جنگ میں استعمال کیا- اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ فوجی سازوسامان کس کیلئے تل ابیب منتقل کیا جارہا ہے-
 
1980ء کے بعد کیے گئے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اسرائیل نے ایک مشترکہ انسداد دہشت گردی ورکنگ گروپ تشکیل دیا- اس کے علاوہ پینٹاگان اور اسرائیلی وزارت دفاعی کے مابین الیکٹرانک ’’ہاٹ لائن‘‘ بھی بنائی گئی- بعد ازاں 1997ء میں اسرائیل کو امریکہ کے سٹیلائٹ سسٹم تک بھی رسائی دے دی گئی- امریکہ و اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس شیئرنگ کا آغاز 1950ء میں ہوا جب دونوں ملکوں نے خفیہ معلومات کے تبادلے سے متعلق دو درجن سے زائد مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے- اسرائیل نے امریکہ کو روس سے قبضے میں لیے گئے فوجی سازوسامان تک رسائی دی اور اس کے بدلے میں امریکہ نے نہ صرف اکتوبر 1973ء کی جنگ میں سٹیلائٹ سے استفادہ کرنے کا موقع دیا بلکہ بعد ازاں افریقہ میں کیے گئے کئی آپریشنوں میں مدد دی-

1980ء کے اوائل میں امریکہ نے اسرائیل کو ان خفیہ معلومات تک بھی رسائی دے دی جو نیٹو اتحادیوں کیلئے بھی شجر ممنوعہ تھی- خاص طور پر اسرائیل کو نہایت اہم سٹیلائٹ کے ایچ 11 تک رسائی حاصل ہوگئی- جہاں برطانیہ کو بھی پر مارنے کی اجازت نہ تھی- (اس بات کا انکشاف خود اسرائیلی انٹیلی جنس چیف نے کیا)-
امریکہ نے اپنی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے اسرائیل کو وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار بنانے کی غیر اعلانیہ اجازت دے رکھی ہے- حالانکہ اسرائیل کے پاس پہلے ہی 200 ایٹم بم موجود ہیں- امریکہ نے بہت سے ممالک پر دباؤ ڈال کر انہیں این پی ٹی پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا مگر اسرائیل کو کھلی چھٹی دے دی گئی- جان ایف کینیڈی نے ایٹمی پروگرام ترک کرنے کیلئے اسرائیل پر رسمی دباؤ ضرور ڈالا مگر ان کے بعد لنڈن بی جانسن اور دیگر امریکی صدور نے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بگاڑنے سے گریز کیا-

1968ء میں جب سی آئی اے کے ڈائریکٹر رچرڈ ہیلمز نے وائٹ ہاؤس میں اس وقت کے امریکی صدر جانسن سے ملاقات کے دوران ناقابل تردید شواہد پیش کرتے ہوئے انہیں بتایا کہ اسرائیل ایٹم بم بنا چکا ہے تو انہوں نے ڈائریکٹر سی آئی اے کو حکم دیا کہ یہ معلومات وزیر خارجہ رابرٹ میک سمیت کسی کو نہ دکھائی جائیں- صحافی سیمیور ہرش کے مطابق اس کا مطلب یہی ہے کہ جانسن کو جو کچھ بتایا جارہا تھا وہ سب سننے کو تیار ہی نہ تھے بلکہ جان بوجھ کر اغماض برت رہے تھے- جوہری ہتھیاروں کے علاوہ اسرائیل کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کی تیاری کا پروگرام بھی جاری رکھے ہوئے ہے- المیہ تو یہ ہے کہ امریکہ نے بہت سے دیگر ممالک کو این پی ٹی پر دستخط کرنے کیلئے مجبور کیا جن ممالک نے اس سے انحراف کرتے ہوئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرلی ان پر پابندیاں عائد کی گئیں-
 
2003ء میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری کا الزام لگا کر عراق پر حملہ کیا گیا اور اب شمالی کوریا اور ایران کے خلاف بھی ان ہی الزامات کے تحت کارروائی کرنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے دوسری جانب امریکہ کا اتحادی اسرائیل جس کے عزائم بخوبی آشکار ہیں کہ وہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تیار کررہا ہے اس پر پابنددیاں لگانے کے بجائے اسے رعائتیں اور فنڈز دیئے جارہے ہیں- روس کی جانب سے کیوبا کو دی جانے والی امداد کے سوا دنیا میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کوئی ایک ملک دوسرے کو اتنی وافر مقدار میں امداد دے رہا ہو جتنی امریکہ اسرائیل کو فراہم کررہا ہے-

بلال غوری
(بشکریہ: سنڈے میگزین، انصاف)

لینک کوتاه:

کپی شد