امریکا کے سارے صدور اسرائیل کے سامنے اسی لیے بے بس ہیں کہ وہ کوئی ایسا فیصلہ کر کہ اقتدار سے محروم نہیں ہو نا چاہتے۔امریکا میں عرب ووٹروں کی تعداد بھی معمولی ہے اس لیے انہیں عربوں کی زیادہ پروا ہ نہیں اور نہ ہی انہیں انکے مسائل سے دلچسپی ہے۔
ہیری ٹرومین کا موقف بھی اسی طرح کا تھا کہ امریکا کو عربوں کی دلجوئی کی بجائے یہودیوں کی ناز برداری کرنی ہو گی۔عرب کمزور ہیں اور وہ ہمارے ارادوں کوچیلنج نہیں کر سکتے۔ اسرائیل نے 1948سے لیکر اب تک جن جرائم کی فہرست مرتب کی ہے وہ اتنے گھناؤنے اور بے شمار ہی کہ کوئی بھی حساس یا انسان دوست ان کو جاننے کے بعد اسرائیل سے محبت یا ہمدردی کا دعوی نہیں کر سکتا۔اسرائیل کی شرمناک اور ظالمانہ کارروائیوں نے دنیا بھر میں اس کے لیے نفرت کو جنم دیا ہے۔
وہ ادارے یا ممالک جو کہ اسرائیل کے دوست گردانے جاتے ہیں اب انہوں نے بھی اسرائیل کو اس کی ظالمانہ اور بہیمانہ حرکتوں کیلئے نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جو اسرائیل کے خلاف عالمی رائے عامہ بدلنے کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔امریکا جو اسرائیل کا سب سے قریبی حلیف بتایا جاتا ہے وہاں کے عوام میں بھی اسرائیل کے خلاف ناپسندیدگی میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔امریکی رائے عامہ اسرائیل کے جرائم کی ان شرمناک داستانوں سے مایوس ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہو اٹھی ہے کہ اسرائیل کو اپنا محاسبہ کرنا ہو گا۔اسرائیل مسلسل حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں کر رہا ہے اور بین الاقوامی قوانین کو ٹھوکروں کی زد میں رکھ رہا ہے۔
اسرائیل کے رویوں نے دنیا کو یہ سوالات پوچھنے پر مجبور کر دیا ہے کہ آخر اسرائیل کے جرائم کی اتنی پردہ پوشی کیوں کی جا رہی ہے ۔امریکا ، عراق ، افغانستان کو کھنڈر بنانے کی مہم پر تو چل پڑا ہے۔مگر اسرائیل کی ڈھٹائی اور اکڑ پن پر بھیگی بلی بن جاتا ہے۔امریکی حکومت کے برعکس امریکی عوام اسرائیل کی وجہ سے دو خانوں میں تقسیم ہو چکے ہیں ۔ امیریکیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے مثبت منفی پہلوؤں کا جائزہ لیا جائے۔اندھی امریکی سیاست کو کیوں اسرائیل کے جرائم نظر نہیں آ رہے۔اسرائیل کے جرائم کی پردہ پوشی تو الگ اسے دئیے جانے والے فنڈز کا حساب بھی نہیں لیا جاتا۔آخر اسرائیل کو اتنی ڈھیل کیوں دی جا ر ہی ہے کہ وہ امداد کو بے حساب خرچ کر رہا ہے ۔ امریکا کی طرف سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد ساٹھ ملین ڈلر سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
اسرائیل نے مغربی کنارے میں پانچ لاکھ یہودیوں کو آباد کرنے کیلیے نئی بستیاں تعمیر کی ہیں ۔ جنوبی افریقہ کے اندر جب یہ نسلی تفریق تھی تو امریکا اس کا مخالف تھا مگر اسرائیل کا مخالف کیوں نہیں ۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کا جینا اجیرن کر رکھا ہے۔وہ فلسطینیوں کو بلاوجہ سلاخوں کے پیچھے پہنچاتا اور اذیتیں دیتا ہے اس نے لوہے کی سلاخوں اور کنکریٹ سے حدفاصل دیوار کھڑی کر کے فلسطینیوں کی زندگی مزید اجیرن کرنیکا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ وہ کسی بین الاقوامی قانون کو خاطر میں نہیں لا رہا۔حالانکہ بین الاقوامی اسے ہرگز اجازت نہیں دیتے کہ مقبوضہ علاقے میں تعمیرات کرے کا کسی قسم کی تبدیلیاں لے کر آئے۔
اسرائیل نے غزہ کی زمین کو بدترین جارحیت کا نشانہ بنایا، اسرائیل نے غزہ کا بحری ،بری اور فضائی محاصرہ برقرار رکھا جس سے غزہ کی معیشت تباہ ہوئی اور وہاں خوراک کو بحران پیدا ہوا۔ مصر اور اسرائیل کی اقتصادی ناکہ بندی کی وجہ سے غزہ بیرونی دنیا سے کٹ کر رہ گیا۔
بیرونی امداد کی وجہ سے ان کا وقت گزر رہا ہے۔اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے وہاں صنعت تباہ ہو چکی ہے۔ایک ہزار سے زائد فلسطینی بچے شہید ہو چکے ہیں۔ طالب علم تعلیم سے دور رہنے پر مجبور ہیں کیوں کہ فلسطین کی عوامی تنظیم اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے پاس کتابوں کی چھپائی کیلیے کاغذ موجود نہیں تھا۔ اسرائیلی فوج کی گولہ بار ی سے دو سو انہتر سکول جزوی اور تہتر سکول مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں جنکی تعمیر نوبھی اسرائیلی پابندیوں کی وجہ سے نہیں ہو سکی۔
اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں اسکولوں کے 860 معصوم طلبہ،199یونیورسٹی کے طلبہ 139اساتذہ شہید ہو چکے ہیں۔ڈھائی ہزار سے طلبہ کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔اسرائیل نے عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں تک کو نہیں بخشا۔ دفاتر، بچوں کے اسکولوں اور ہسپتالوں کو نشانہ تک بنایا گیا۔اسرائیل کے مظالم نے اسرائیل کے خلاف دنیا بھر میں نفرت کو ابھارا ہے۔
امریکا میں بھی اسرائیل کے خلاف نفرت کی لہر میں اضافہ ہوا ہے۔اسرائیل کے امریکا کے ساتھ تعلقات نے اسے اندھا بنا کر رکھ دیا ہے۔وہ مسلسل اس کے جرائم سے پردہ پوشی کر رہا ہے لیکن امریکی عوام کو ادراک ہو چکا ہے کہ فلسطینی حق پر ہیں اور اسرائیل ایک غاصب اور ظالم ریاست کا کردار ادا کر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں انٹیلی جنس اسکوارڈ نامی امریکی تنظیم نے دو سروے کیے ہیں اور امریکی رائے عامہ کا جائزہ لینے کی بھی کوشش کی ۔اس سروے میں امریکیوں سے سوال کیا گیا ہے کہ امریکا کا مفاد اس پر منحصر ہے کہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات میں کمی لا کر اس کا دائرہ محدود کر دے۔اس کے جواب میں پہلی مرتبہ تیتس فیصد امریکی باشندوں نے یہ رائے دیتے ہوئے تجویز پیش کی کہ” امریکاکو اسرائیل کے ساتھ تعلقات محدود کر دینے چاہئیں۔”
دوسری بار جب سروے کیا گیا تو تعداد تیتس فیصد سے بڑھ کر انچاس فیصد ہو گئی تھی۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکا کی نصف آبادی نے یہ تجویز پیش کی کہ اسرائیل کے ساتھ امریکا کو اپنے تعلقات بالکل محدود کر دینے چاہئیں۔اس رپورٹ کے تناظر میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکی عوام اسرائیل سے نالاں ہو چکے ہیں۔مگر اس ساے معاملے میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات ختم کرنے یا محدود کرنے کی خواہش رکھنے والے عام امریکی ہیں جبکہ امریکی اقتدار کے ایوانوں میں صہیونی لابیاں بیٹھی ہیں جو اسرائیل کے خلاف کسی فیصلے کومنظور نہیں ہونے دیتی مگر خوش آیند امریہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناناشروع کر دیا ہے۔حال ہی میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے مندوبین نے ترکی کے شہر استنبول میں ایک پریس کانفرنس میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی کے خاتمے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جائے گی اور اس سلسلے میں دور دور تک آواز پہنچائی جائے گی۔
کانفرنس میںجہاد گوکڈمیر چئیرمین”مظلوم در””نجاتی جیلان”سربراہ رضاکارانہ وقف بورڈ ترکی کی سیاسی جماعت کے گریٹر الائنس کے قائد بیرم کاراجان سمیت امریکا، برطانیہ،یونان اور انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے مندوبین نے شرکت کی۔پریس کانفرنس سے خطاب کے دوران انسانی حقوق کے مندوبین نے کہا کہ وہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی توڑنے کیلیے نہ صرف ترکی میں اس کی آگاہی مہم چلائیں گے بلکہ یورپ سمیت دنیاکے دیگر ممالک تک اس کیلئے پہلے سے قافلے کا سلوگن ہماری منزل فلسطین اور آزادی مقرر کر دیا ہے۔اس نعرے کو لیکر فلسطین میں یورپ اور ترکی سے انڈونیشیا تک جائیں گے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یلدرم نے کہا کہ غزہ کے شہری گزشتہ چار برس سے استعمال کی بنیادی نوعیت کی اشیاء سے بھی محروم کیے جا چکے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اشیائے خوردونوش اور ادویات غزہ کی شہریوں کی بنیادی ضرورت جس کی فوری فراہمی تمام مسلم حکومتوں کی ذمہ داری ہے۔کمیٹی نے امدادی قافلے کیلئے دو بحری جہازوں کی خریداری کا بھی فیصلہ کیا ۔اس موقع پر یونان سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے مندوبین نے عالمی برادری کی طرف سے غزہ کی معاشی ناکہ بندی پر اختیار کردہ خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور کہا کہ دنیا غزہ میں انسانی مسائل اور بحران کی ذمہ دار ہے۔
اسرائیل کی سفاکانہ کارروائیوں کو دنیا کے سامنے لانے میں انسانی حقوق کی تنظیموں ، فلاحی اداروں اور فلسطین مزاحمتی تحریکوں بالخصوص حماس کا کردار بہت نمایاں ہے۔ظلم کو کب تک چھپایا جا سکتا ہے۔اسرائیل کھل کر دنیا کے سامنے آ چکا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسے مغربی ممالک ،اقوام متحدہ ، انسانی حقوق کے اداروں کی طرف سے مسلسل ہزیمت اور ندامت کا سامنا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اسرائیل اپنا ظالمانہ رویہ ترک کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اسرائیل کے ظالمانہ رویے نے دنیا بھر سے اس کیلئے نفرت کو ابھارا ہے مگر پھر بھی امریکی حکومت اسرائیل کے جرائم سے مسلسل پردہ پوشی کر رہی ہے۔