جمعه 02/می/2025

امریکا اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر خاموش کیوں؟

ہفتہ 8-مئی-2010

ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے کہا کہ مزید پابندیاں ہمیں تو متاثر نہیں کر سکتیں- مگر اس سے واشنگٹن تہران تعلقات ہمیشہ کیلئے بگڑ جائیں گے-
 
نیویارک میں نیوز کانفرنس سے خطاب میں احمدی نژاد کا کہنا تھا کی جوہری پروگرام پر متوقع نئی پابندیاں ایرانی قوم کو روک نہیں سکتیں- وہ اس قابل ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے دباؤ کا مقابلہ کر سکے- ایران مجوزہ پابندیو ں کا خیر مقدم نہیں کرتا- مگر اس سے خوفزدہ بھی نہیں- امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان فلپ کرائولی کا کہنا ہے کہ ترکی، برازیل اور دیگر ممالک کی ثالثی کی کوششوں کے باوجود واشنگٹن میں یہ شبہات بڑھ رہے ہیں کہ ایران بات چیت کے ذریعے جوہری پروگرام کا راستہ ترک نہیں کرے گا- واضع رہے کی کینیڈین وزیر خارجہ لارنس کینن نے بھی ایران کیخلاف جلد نئی پابندیاں لگانے پر زور دیا ہے-
بظاہر امریکا اسلحہ کم کرنے کی مہم چلا رہا ہے اس کا دعوی ہے کہ اسی فیصد سے زائد اسلحہ تلف کر دیا گیا ہے اور اسی طرح روس کا بھی یہی دعوی ہے کہ اسلحہ تلف کیا گیا- دوسری جانب امریکی صدر براک اوباما نے بھی پچھلے دنوں اسرائیل پر زور دیا ہے کہ فلسطین کے معاملہ میں انسانی حقوق کا خیال رکھا جائے لیکن یہ سب کچھ جب عملی شکل میں سامنے آئے گا تب معلوم ہوگا کہ مغرب کس قدر سنجیدہ اور انسان دوست ہے-

امریکی یا مغربی ذرائع ابلاغ اٹھا کر دیکھیں تو اگر کسی مسلمان سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو مسلم لفظ شہ سرخی کا حصہ بنے گاکہ فلاں مسلم نے یہ گناہ کیا ہے-یہی کام 99فیصد یہودی اور عیسائی کر رے ہوں اور جرم کی نوعیت بے شک اس سے بڑی ہی کیوں نہ ہو، لیکن پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اسے رپورٹ کرتے ہوئے محض اس مجرم یا ملزم کا نام لکھے گا کبھی عیسائی یا یہودی کہہ کر سرخی نہیں بنائے گا- ٹھیک یہی طریقہ واردات مغربی دانشوروں اور قلم کاروں کا ہے، وہ اگر انسان دوست ہیں تو انہیں دیکھنا چاہیے کہ انسانیت اور انسان دوستی کے تقاضے کیا ہیں-
 
تعصب کبھی انسان دوستی کے حق میں نہیں ہوتا، عالم اسلام کے تمام ممالک میں اقلیت کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن پورا یورپ اور دیگر غیر مسلم اپنے محسن مسلمان کو کبھی تعصب کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں-اقوام میں جرائم پیشہ لوگ بھی ہوتے ہیں اور انسان دوست بھی- حقیقی مسلمان کا تو عقیدہ ہی انسان دوستی پر منحصر ہے-حتی کہ جنگی حالات میں بھی عورت، بچہ اور درختوں و فصلوں تک کے زیاں سے بھی منع کیا گیا ہے- واشنگٹن تہران کے حوالے سے دیانتدارانہ اور غیر جانبدارانہ رویہ اپنائے-اس تہہ تک پہنچا جائے کہ ایران کا ماضی کیا ہے اور مستقبل میں اس کے خطرات اور حالات کیا ہوں گے- اگر وہ ایک معتبر اور روایتی ریاست ہے تو اس پر اس کا حق ہے کہ وہ اپنی حفاظت، ترقی اور فلاح کے لئے نیو کلیئر توانائی سے استفادہ کرے-
 
جس طرح بھارت،امریکا، روس اور دیگرایٹمی قوتیں جوہری توانائی سے مستفید ہونے کا حق رکھتی ہیں اس طرح ایران کا بھی حق ہے اگر ایران اس چیز کی گارنٹی دیتا ہے کہ اس سے وہ اپنی قوم کی فلاح اور رفاہ چاہتا ہے کسی اور قوم کا نقصان نہیں تو پھر اس کی بات پر توجہ دینے کی ضرورت کے- امریکا ہو یا کینیڈا اس کے دفاعی اور خارجی ماہرین کو صلح جوئی اور معاملہ فہمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا- بصورت دیگر نقصان صرف ایران ہی کا نہیں ہوگا پورا عالم خدشات، خطرات اور عدم تحفظ کا شکار ہو سکتا ہے-اچھی قیادت ہمیشہ صلح جو ہوتی ہے اس کا مقصد بگاڑ نہیں ہوتا- کینیڈین وزیر خارجہ ہو یا کوئی اور حالت ان سب کو آنکھوں پر سے تعصب کی پٹی اتار کر دیکھنا ہوگا- انہیں ثالثان کو یہ بھی مد نظر رکھنا ہوگا کہ اسرائیل اور بھارت فلسطین و کشمیرکے ساتھ کیا کر رہے ہیں- ان ثالثان کو یہ بھی جانچنا ہوگا

کہ افغانستان میں امریکی اور اس کی دوست فورسز کے غلط رویوں سے مثبت کے بجائے بے شمار منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں- مثبت نتائج کے حصول کے لئے خوب فہم و فراست کو عمل میں لائے دھمکیوں کو نہیں- واشنگٹن ایران تعلقات میں خرابی امریکا کے مفاد میں ہے نہ ایران کے- دونوں ممالک کو ساری دنیا کے امن وآشتی کو سامنے رکھ کر سوچنا ہوگا-ایرانی صدر محموداحمدی  نژاد اگر حق پر ہیں تو پورے عالم اسلام کو ان کے لیے آواز اٹھانی چاہیے- امریکا کے خدشات اگر ختم نہیں ہوئے تو وہ مسلمان ممالک کے ذریعے ایران سے بات چیت کر سکتا ہے گفت و شنید ہی کئی مسائل کا حل ہوتی ہے- مذاکرات کی مینہ پر اگر یونہی تعصب سجارہا تو پھر امریکا کبھی امن پسند نہیں رہ سکتا-
 
بشکریہ روزنامہ انصاف

لینک کوتاه:

کپی شد