66 سال گزر جانے کے باوجود بھارت کا پاکستان کو صدق دل سے تسلیم نہ کرنا، پاکستان کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنا، پاکستان پر جنگیں مسلط کرنا، مشرقی پاکستان میں سازش کر کے دو بھائیوں کو آپس میں لڑوا دینا اور پھر اسی کو پاکستان سے کاٹ کر قبضہ کرنے کی کوشش کرنا، پاکستان کی سالمیت کو مکمل طور پر تباہ کرنے کے لیے ایٹمی دھماکے کرنا، جدید جنگی ساز و سامان کے انبار لگا دینا، مسئلہ کشمیر کو جوں کا توں رکھنا، پاکستان کو غیر ذمے دار ملک ثابت کرنے کے لیے نت نئے خود ساختہ دہشت گردی کے فلاپ ڈرامے اسٹیج کرنا، پاکستان پر مختلف قسم کے من گھڑت الزامات عائد کر کے شور شرابہ کرنا، وقتاً فوقتاً پاکستانی سفارتی اہلکاروں کو اغوا کر کے انھیں تشدد کا نشانہ بنانا اور پاکستانی سفیروں کو بھارت سے نکل جانے کا حکم دیا جانا، اپنے جنگی بجٹ میں متواتر اضافہ کرنا، مقبوضہ کشمیر میں نہتے کشمیریوں پر مداخلت کاری کے الزامات لگا کر انھیں شہید کرنا، معصوم بے گناہ کشمیری عورتوں کی عزت کو پامال کرنا، غریب بے کس بے یار و مددگار کشمیریوں کے مال و املاک کو خاکستر کرنا، مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بین الاقوامی ثالثی قبول کرنے سے انکار کرنا، 6 لاکھ سے زائد فوجیوں کے زیر سایہ مقبوضہ کشمیر میں نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچانا اور اس الیکشن میں امریکا سے کہہ کر حریت کانفرنس کو اس نام نہاد الیکشن میں حصہ لینے پر دبائو ڈلوانا، حریت کانفرنس کے رہنمائوں کو پاکستان نواز عناصر کہہ کر ان سے مذاکرات نہ کرنا، پاکستان کو آسیان کا ممبر بننے کی راہ پر رکاوٹ ڈالنا، مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند رہنمائوں کو بار بار گرفتار و نظر بند کرنا، کشمیریوں پر مشتمل فوج کی نئی بٹالین کے قیام کا منصوبہ مسترد کر دینا، پاکستان کے خلاف بھارت اسرائیل گٹھ جوڑ، واشنگٹن میں امریکا، بھارت اور اسرائیلی حکام کے خفیہ اجلاس، امریکا کا یہ مطالبہ کہ ’’بھارت سے مذاکرات کے لیے پاکستان در اندازی بند کرے‘‘ اور یہ کہنا کہ پاکستان اور بھارت کو مسئلہ کشمیر کا حل خود نکالنا ہو گا بھارتی ذہنیت اور چانکیہ سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اہم فرنٹ لائن ملک پاکستان کو امریکا کی جانب سے 20 مشتبہ ممالک کی فہرست میں شامل کرنا اور دوسری جانب امریکا کی طرف سے بھارت کی حمایت کرنا جس نے کشمیر کے ساتھ متنازع 1800 کلو میٹر طویل سرحد پر اپنے 12 لاکھ میں سے 6 لاکھ 50 ہزار درندہ صفت فوجی لگا دیے۔ پاکستان 4 سال میں بھارت پر حملہ کر سکتا ہے۔ بھارتی تھنک ٹینک کی تجزیاتی رپورٹ کی آڑ میں پاکستان کے خلاف عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنا، بھارت کی جانب سے پاکستان کو 20 افراد کی فہرست دینا، امریکا کی طرف سے کنٹرول لائن کی نگرانی کے لیے بھارت کو حساس آلات کی پیشکش کرنا اور پاکستان سے 20 مطلوب افراد کی حوالگی کے لیے بھارت کا امریکا سے مدد مانگنا، امریکا و بھارت کے بڑھتے ہوئے فوجی تعلقات اور پاکستان پر چوتھی جنگ مسلط کرنے کی بھارتی دھمکی، ’’آپریشن پارا کرما‘‘ کے تحت پاکستان کی سرحدوں پر مسلسل دس ماہ تک بھارتی فوج کی تعیناتی، بھارت کا اسلام آباد میں ہونے والی سارک کانفرنس میں شرکت سے انکار کرنا، نت نئے بہانوں کی آڑ میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے منعقدہ مذاکرات کی میز سے بھاگنا، بھارتی میڈیا کی طرف سے پاکستان کے خلاف زہر افشانی، کنٹرول لائن پر آئے روز فائرنگ کرنا اور الزام پاکستانی فوج پر ڈالنا، پاکستان کے آبی ذرایع پر قبضہ کرنا، خود ساختہ ممبئی حملے کا الزام پاکستان پر لگانا، ایک مرتبہ پھر کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ قرار دینا، پاکستان کے صوبے بلوچستان میں حالات خراب کرنے میں معاونت کرنا، پاکستان مخالف بھارتی فلمیں بنانا اور اس جیسے سیکڑوں حقیقی واقعات پر مبنی بھارت کی وہ فائل ہے جسے تاریخ بیدردی کے ساتھ اپنے لوح قلم میں مرتب کر رہی ہے جسے اگر ’’بھارت جنوبی ایشیا کا ابھرتا ہوا دہشت گرد ہے‘‘ کا عنوان دیا جائے تو غلط نہیں ہو گا۔
یہ جون 2002ء کی بات ہے کہ اسرائیل، بھارت اور امریکا کے حکام نے واشنگٹن میں 16 خفیہ اجلاس کیے جو پنٹاگون کی آشیر باد سے ہوئے تھے۔ ان اجلاسوں میں امریکی صدر کی مشیر برائے سلامتی کونڈا لیزا رائس سمیت ایف بی آئی، سی آئی اے، موساد اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی تھی۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع تھا جب دو طرفہ تعاون کے بجائے سہ فریقی تعاون کے لیے نئی کوششیں ہوئیں اور مشترکہ لائحہ عمل کی تیاری شروع کی گئی تھی۔ یہ اجلاس اس لیے بھی اہم تھا کہ اس میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں ’’دہشت گردی‘‘ پر بھی غور ہوا تھا۔ یعنی آزادی کی تحریکوں کو عالمی دہشت گردی سے تعبیر کیا گیا۔ اسرائیل جس کا اپنا وجود ہی ناجائز ہے، فلسطین پر قابض ہے اور فلسطینی جانبازوں کی آزادی کی تحریک کو دہشت گردی کہہ رہا ہے۔ نہتے فلسطینی عوام پر آئے روز بمباری کر کے ان کے قتل عام کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح مقبوضہ کشمیر جو کہ عالمی سطح پر متنازع علاقہ ہے اور جس کا فیصلہ اقوام متحدہ کی منظور کردہ قرار دادوں کے مطابق ہونا ہے۔ بھارت اس علاقے کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے اور بھارت کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑنے والوں کو دہشت گرد قرار دے رہا ہے۔
اس پس منظر میں یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچتی ہے کہ مذکورہ خفیہ اجلاس کے کیا مقاصد تھے اور ہیں؟ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اگر کسی قوم کو کچلنا مقصود ہے تو اسے دہشت گرد قرار دیا جائے تا کہ عالمی برادری کی حمایت حاصل کی جا سکے۔ بھارت بھی اسی فارمولے پر عمل کر رہا ہے۔ بھارت، اسرائیل اور امریکا کے درمیان بڑھتا ہوا دفاعی اور سفارتی گٹھ جوڑ کسی بھی حوالے سے جنوبی ایشیا کے امن کے لیے نیک فال نہیں ہے۔ امریکا کی طرف سے متعدد بار یہ الفاظ دہرائے جا چکے ہیں کہ ’’بھارت سے مذاکرات کے لیے پاکستان دراندازی بند کرے‘‘ اپنے وقت کے امریکی سفیر رابرٹ بلیک ول کی یہ بات اخباری ریکارڈ میں موجود ہے جو انھوں نے کولکتہ میں کنفیڈریشن آف انڈین اسٹڈیز کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی کہ ’’مقبوضہ کشمیر میں دہشت گردی آزادی کی جنگ نہیں، معصوم اور بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والے صرف دہشت گرد ہی ہو سکتے ہیں‘‘ حالات حاضرہ سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکا کا عمل پاکستان کے ساتھ غیر منصفانہ ہے اور وہ اندرون خانہ بھارت و اسرائیل کے ذریعے پاکستان کو زیر کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، پاکستان پھر بھی اپنے عالمی اصولوں پر قائم ہے۔
بشکریہ روزنامہ "ایکسپریس”