جمعه 15/نوامبر/2024

امدادی قافلے پر جارحانہ اسرائیلی حملہ

بدھ 2-جون-2010

اسرائیل نے اپنی سرشت کے عین مطابق اخلاقی اصولوں اور بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے اپنے جرائم کی فہرست میں اس وقت ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کر دیا جب کھلے سمندر میں غزہ کے لاکھوں محصور فلسطینیوں کے لئے امدادی سامان لے جانے والے ترک بحری بیڑے کے جہازوں پر حملہ کر کے 20بے گناہ افراد کو جان سے مار ڈالا۔ اسرائیلی بحریہ کے سینکڑوں کمانڈوز نے غزہ کے ساحل سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور بین الاقوامی سمندری حدود میں امدادی بیڑے پر جسے فریڈم فلویٹلا کا نام دیا گیا تھا اچانک دھاوا بول دیا اور ان میں سوار نہتے لوگوں پر فائرنگ کھول دی۔ ان جہازوں پر دنیا کی مختلف قومیتوں کے تقریباً سات سو سویلین افراد سوار تھے جو سب کے سب غیرمسلح تھے اور امدادی کارکن تھے، وہ انسانی ہمدردی کے ایک انتہائی مقدس مشن پر غزہ جا رہے تھے۔ ان میں عام کارکنوں کے علاوہ سفارتکار، حقوق انسانی کے علمبردار اور ترکی، جرمنی، سویڈن، آئرلینڈ، ملائشیا اور فلسطین کے ارکان پارلیمنٹ بھی شامل تھے۔ امدادی سامان ترکی کے ایک امدادی ادارے نے بین الاقوامی تنظیموں اور ممتاز شخصیات کے تعاون سے جمع کیا تھا۔ اسرائیلی کمانڈوز نے وحشیانہ طاقت کا استعمال کرتے ہوئے امدادی سامان سے لدے چھ جہازوں اور کشتیوں پرقبضہ کر کے ان میں سوار 20افراد کو ہلاک اور60کو زخمی کرنے کے علاوہ سیکڑوں افراد کو یرغمال بنا لیا اور نہیں حیفہ کی بندرگاہ کی طرف لے گئے۔ فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی حملے میں ہلاک و زخمی ہونے اور یرغمال بنائے جانے والوں کی شناخت کی تصدیق نہیں کی جا سکی کیونکہ حملے کے فوراً بعد ان جہازوں کے مواصلاتی نظام کو تباہ کر دیا گیا تھا۔ امدادی قافلے میں ایک پاکستانی صحافی اور دو دوسرے افرادبھی موجود تھے جو اطلاعات کے مطابق محفوظ ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ امدادی سامان لانے والے بیڑے میں اسرائیل کے سرپرست امریکا کا بھی ایک جہاز شامل ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے اسرائیل بین الاقوامی قوانین کے علاوہ اپنے پرائے کی تمیز بھی روا نہیں رکھتا۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ ایک امریکی اخبار کے مطابق امریکی صدر باراک اوباما اور اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کے تعلقات اس وقت نہایت کشیدہ ہیں اور نیتن یاہو اوباما کا کوئی حکم نہیں مان رہا۔ اس نے ناراضی کے اظہار کے لئے امریکا کا دورہ بھی ملتوی کر دیا ہے لیکن امریکا اس کے باوجود اسرائیل کی پشت پناہی جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیا کوئی دوسرا ملک امریکا کے سامنے اس طرح کی سرتابی کا تصور بھی کرسکتا ہے؟

اسرائیل نے غزہ کی پندرہ لاکھ آبادی کا پچھلے تقریباً چارسال سے محاصرہ کر رکھا ہے اور وہاں کسی قسم کی انسانی امداد پہنچانے کی اجازت نہیں دے رہا۔ اس ناروا پابندی کی وجہ سے غزہ کے مسلمان سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ انہیں خوراک، پانی، ادویات اور تعمیراتی سامان کی شدید قلت کا سامناہے۔ دنیا کو انسانی حقوق کا درس دینے والے امریکا اور یورپی ممالک نے اسرائیل کے اس غیرانسانی فعل سے مسلسل چشم پوشی اختیار کررکھی ہے۔ترک ادارے کی طرف سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد پہنچانے کی کوشش کو اسرائیل نے وحشیانہ کارروائی کے ذریعے جس طرح ناکام بنایا ہے اس کی ساری دنیا نے مذمت کی ہے۔ مگر امریکانے کوئی واضح موٴقف اختیار نہیں کیا۔ ترکی، سپین، سویڈن، ڈنمارک، یونان اور ناروے کی حکومتوں نے اسرائیلی سفیروں کو طلب کر کے اس واقعہ کے خلاف اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔ یونان نے حملے کے بعد اسرائیل کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عرب لیگ نے ہنگامی اجلاس طلب کر لیا ہے جس میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف مشترکہ موٴقف وضع کیا جائے گا۔یورپی یونین نے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکا کی جانب سے صرف اتنا کہا گیا کہ حملہ افسوسناک ہے۔ تاہم صورتحال کا ہم جائزہ لے رہے ہیں۔ امریکا اور یورپی طاقتوں کی شہ پر اسرائیل اپنے قیام سے لے کر آج تک جو کچھ کر رہا ہے ساری دنیا اس سے واقف ہے اور اس کے نتائج بھگت رہی ہے۔ یہ حقیقت سب جانتے ہیں کہ دنیا میں دہشت گردی کا آغاز اسرائیل ہی کی وجہ سے ہوا۔ بڑی طاقتوں کی پشت پناہی کی وجہ سے اسرائیل نے فلسطینیوں کے حقوق کو ہمیشہ نہایت بے دردی سے پامال کیا اور کبھی کسی قاعدے قانون کی پروا نہیں کی۔ جہازوں کا اغوا اور خودکش حملے اسرائیلی ظلم و بربریت ہی کا نتیجہ ہیں۔ امریکا اور اس کی اتحادی بڑی طاقتوں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس قسم کے اندوہناک واقعات فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم ہی کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئے۔بین الاقوامی سمند رمیں جارحیت کا تازہ ترین واقعہ اسرائیلی بربریت اور درندگی کا کھلا ثبوت ہے۔غزہ کے مجبور ومحصور انسانوں کے لئے امدادی سامان لے جانے والے بیڑے میں تین مال بردار جہاز اور تین کشتیاں شامل تھیں۔ ان میں کوئی جنگی سامان نہیں تھا نہ ان کے مسافر مسلح تھے۔ پھر غزہ کی سرحد سے ڈیڑھ سو کلومیٹر دور بین الاقوامی سمندر میں اسرائیلی بحریہ کے جنگی جہازوں اورہیلی کاپٹروں نے انہیں گھیرے میں لے کر ان پر حملہ کیوں کیا؟ اس سوال کا جواب وہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں جو دنیا کے نقشے پر غیرقانونی اور غیراخلاقی ریاست اسرائیل کو وجود میں لانے کے اصل مقاصد سے آگاہ ہیں۔ امدادی سامان لے جانے والے بیڑے میں شامل جہازوں اور کشتیوں نے اسرائیلی کمانڈوز کو اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر رفتار سست کر دی تھی جس کا مطلب صاف ظاہر تھا کہ ان میں سوار لوگ مقابلے کی نیت نہیں رکھتے اور معاملے کو بات چیت کے ذریعے سلجھانا چاہتے ہیں مگر صہیونیوں کی نیتوں میں فتور تھا۔ اس لئے انہوں نے جہازوں اور کشتیوں میں داخل ہو کر فائرنگ کھول دی۔ عالمی برادری خصوصاً اسرائیل کے سرپرستوں کو ان حقائق سے آنکھیں نہیں چرانی چاہئیں۔انہیں اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے اسرائیل کا سختی سے محاسبہ کرنا چاہئے ورنہ دنیا جان جائے گی کہ انسانی حقوق اور عالمی امن و آشتی کے بارے میں ان کے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے۔ اسلامی ممالک اور دنیا کی ان قوموں کو جو تباہی و بربادی کے مذموم اسرائیلی ایجنڈے سے اتفاق نہیں کرتیں، متحد ہو کر اور مشترکہ موٴقف اپنا کر فلسطینیوں کے باعزت زندہ رہنے کے حق کا دفاع کرنا چاہئے۔

 
بشکریہ: روزنامہ جنگ

لینک کوتاه:

کپی شد