11ستمبر کے بعد اگرچہ دہشت گردی کے خلاف اعلا ن جنگ کیا گیا ور اس مہم کو کامیاب بنانے کے لئے بے پناہ دولت بھی خرچ کی گئی اور بڑے پیمانے پر طاقت کا استعمال بھی کیا گیا تا ہم عالمی امن پر منڈلاتے خطرات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی- سوال یہ ہے کہ متعدد ممالک کے ذریعہ بے پناہ دولت وطاقت کے استعمال کے باوجود مذکورہ مہم کامیاب کیوں نہیں ہوئی اور دہشت گردی کا سدباب کیوں نہیں ہوسکا؟ بلکہ موجودہ دھماکہ خیز صورت حال کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ دہشت گردی میں بتدریج اضافہ ہوتا جارہا ہے اور عالمی افق پر خطرات کے بادل اور گہرے ہوتے جارہے ہیں- اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ مہم کوچلانے میں انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا اور اس بابت دیانت داری نہیں برتی گئی- مشلاًانصاف کا تقاضہ تھا کہ دہشت گردی کے سدباب کے لئے تمام دہشت گرد گروہوں پر قدغن لگائی جاتی اور ان تمام اسباب کا جائزہ لیا جاتا جن کے ذریعہ دہشت گردی کے رجحانات پرورش پارہے تھے- وقت کا تقاضہ یہ بھی تھا کہ اس مہم کو صرف چند گروپوں تک ہی محدود نہ رکھا جاتا بلکہ وہ ممالک جو پرامن ماحول کو ختم کرنے کے مرتکب ہوتے ان کے خلاف بھی انصاف کے ساتھ کارروائی کی جاتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور جانب داری کا ثبوت دیا گیا- مثال کے طور پر افغانستان اور عراق پر چڑھائی کی گئی مگر اسرائیل کو نظر انداز کیا گیا-
گزشتہ ساٹھ سال سے اسرائیل کے جارحانہ رویہ کو دیکھتے ہوئے سب سے پہلے اسرائیل کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے تھی- کون نہیں جانتا کہ اسرائیل معصوم فلسطینیوں پر وقتا فوقتا تابڑ توڑ حملے کرتا رہتا ہے- اب تک وہ بے شمار معصوم جانوں کا اتلاف کر چکا ہے- 2006 میں لبنان پر اسرائیل نے کلسٹر بم برسائے اور ہزاروں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا- خفیہ طور پر اسرائیل نے بڑی تعداد میں خطرناک اسلحہ جمع کیا ہوا ہے- وہ ایٹمی طاقت سے بھی لیس ہے اور خطرناک ٹیکنالوجی سے بھی آراستہ، مگر اس کے باوجود عالمی برادری کی طرف سے اس کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے اور نہ ہی اسے قتل وغارت گری سے باز رہنے کے لئے کہا جاتا ہے- اسرائیل کو مسلسل نظر انداز کرنے کی ہی وجہ ہے کہ وہ خونخوار درندہ ہوتا جارہا ہے اور اس کی جارحیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے- اس کے مظالم اب تمام حدوں کو عبور کرچکے ہیں اور اس کے نشانہ پر عورتیں بھی ہیں، بچے بھی اور عام انسان بھی-
ابھی چند روز پہلے اس نے غزہ کے لئے امدادی بحری بیڑے پر کمانڈو فوجیوں کے ذریعہ حملہ کیا اور آن کی آن میں درجنوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا- اس نے اس حملہ کے ذریعہ ایک طرف کئی جانوں کا اتلاف کیا دوسری طرف اس نے غزہ کے لئے جانے والی امداد کو روکنا چاہا- اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اسرائیل یہ چاہتا ہے کہ غزہ میں جو لوگ مفلوک الحالی سے دوچار ہوکر فاقہ زدگی میں مبتلا ہیں، ان کی مدد نہ کی جائے اور انہیں ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمرنے پر مجبور چھوڑدیا جائے- جن لوگوں کی زندگی بنیادی ضروری اشیاء کے بغیر گزر رہی ہو، جن کے پاس جینے کے لئے کھانا نہ ہو، پہننے کے لئے کپڑے نہ ہوں، رہنے کے لئے مکانات نہ ہوں، علاج کے لئے دوائیں نہ ہوں، وہ یقیناً انسانی ہمدردی کے مستحق ہوتے ہیں- اسی ہمدردی کے جذبہ سے سرشار بعض اللہ کے بندے اپنی وسعت کے مطابق ان کی مدد کرنے کے لئے کچھ سامان وغیرہ بھیجتے ہیں، بعض ممالک بھی ایسے مواقع پر خصوصی مدد کرتے ہیں- یہی جذبہ کارفرما ہوگا ترکی سے بھیجے جانے والے امدادی سامان کے پیچھے، مگر اسرائیل تو انسانیت کا اتنا بڑا دشمن بن گیا ہے کہ اسے پریشان حال، غریب وناتواں فاقہ کشی کے شکار انسانوں کی مدد کرنے والوں پر بھی غصہ آتا ہے، چناچہ وہ انسانوں کی مدد کرنے والوں کی راہ میں حائل ہوجاتا ہے اور ان پر حملہ کردیتا ہے- انسان دشمنی میں اسرائیل کا اس حد تک آگے بڑھ جانا اس بات پردلالت کرتا ہے کہ اب وہ ایسا درندہ بن گیا ہے جسے انسانی خون و گوشت چاہیے- آج اگر اسے فلسطین کے انسانوں کو خون بہانے کا موقع مل رہا ہے تو وہ انکا خون بہارہا ہے کل جب کسی اور ملک کے لوگوں کا خون بہانے کا اسے موقع حاصل ہوگا تو وہ ان کا بھی خون بہائے گا- اس طرح روز بروز اس کی درندگی بڑھتی جائے گی اور وہ یکے بعد دیگرے ملکوں کے انسانوں کے خون کا پیاسہ ہوتا چلا جائے گا-
اس واقعہ کے بعد اگرچہ فوری طور سے عالمی سطح پر اضطراب دیکھنے کو مل رہا ہے، تمام عرب ممالک اور عالم اسلام میں ایک بے چینی ہے، اس کے علاوہ امریکی ویورپی ممالک بھی اسرائیل کی اس حرکت پر دکھ کا اظہار کررہے ہیں- امریکا کے صدر براک اوباما نے اس وقعہ کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن سے فون پر لمبی بات کی اور اسرائیل سے فوری تفتیش کا مطالبہ کیا- دوسری طرف یورپی یونین نے بھی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، چین نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل پر زور دیا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف فوری کارروائی کرے- لیکن سوال یہ ہے کہ مغربی ممالک کے ذریعہ مذکورہ واقعہ پر جس طرح کا رد عمل سامنے آرہا ہے کیا اس کا واقعی کوئی نتیجہ نکلنے والا ہے؟ اگر اسرائیل کے حملہ پر عالمی سطح پرپائے جانے والے اضطراب کو اس نقطئہ نظر سے دیکھا جائے تو روشن امکانات نظر نہیں آتے- کیونکہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے- اب تک اسرائیل کی جانب سے ان گنت ایسی حرکتیں کی جاچکی ہیں جن سے انسانیت کا بڑا نقصان ہوا اور پوری دنیا میں زبردست بے چینی دیکھی گئی- غزہ کے گرد اسرائیل کی ناکہ بندی کا معاملہ ہو یا ارض فلسطین پر یہودی بستی بسانے کا معاملہ ہو، یا فلسطین کے مفلوک الحال عوام پر میزائلوں سے بم برسانے کی بات ہو یا لبنان پر کلسٹر بموں کا استعمال ہو، سب پر عالمی سطح پر رد عمل ظاہر کیا گیا- متعدد ممالک کی طرف سے اسرائیل کی مذمت بھی کی گئی اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کیا گیا مگر کیا اسرائیل اپنی حرکتوں سے باز آیا، کیا اس نے اپنے مظالم میں کوئی کمی کی؟ کیا اس نے انسانوں کا خون بہانا چھوڑا؟ تو اب اس بات کی کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ اس بار اسرائیل چند اپیلوں یا مطالبوں سے اپنے گندی روش سے تائب ہوجائے گا-
اسرائیل نے کئی بار امریکا کے مطالبات کو نظر انداز کیا ہے- جہاں تک چین کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبے کاسوال ہے تو اس سے بھی کوئی امید نہیں کی جاسکتی- کیونکہ اس طرح کے مطالبات اقوام متحدہ سے پہلے بھی کیے جاچکے ہیں، مگر ہر بار اقوام متحدہ نے ان سنی کی ہے- اقوام متحدہ میں اہم عہدوں پرمامور مغربی ممالک چاہتے ہی نہیں کہ یہ مسئلہ حل ہو یا اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی کی جائے- ایسے میں اگر چین یا کوئی اور ملک اقوام متحدہ سے اسرائیل کے خلاف کوئی مطالبہ کرتا ہے تو عملی سطح پر اس کی کوئی اہمیت معلوم نہیں ہوتی- ان تمام باتوں سے اسرائیل بھی واقف ہے، اس لئے وہ ایک کے بعد ایک جارحانہ واردات انجام دیتا ہے- اسرائیل کو یہ بھی معلوم ہے کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام وممالک کی ہمدردیاں اس کے ساتھ ہیں، ایسی صورت میں عرب ممالک اس کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے- گویا کہ جب تک اسرائیل کے تیئس عالمی برادری کا رویہ نرم رہے گا اس وقت تک اسرائیل اپنی کسی بھی حرکت سے باز آنے والا نہیں ہے- ایسے میں اگر عالمی برادری واقعی اسرائیل کو جارحیت سے باز رکھنا چاہتی ہے تو وہ اس کے خلاف مؤثر کن کارروائی کرے- تمام ممالک کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کا اقتصادی بائیکاٹ کریں، سفارتی تعلقات منقطع کریں، اسرائیل نے ایٹم بم سمیت جو مہلک ہتھیار بنائے ہوئے ہیں ان کا سختی کے ساتھ معائنہ کیا جائے- گویا کہ جو بھی مؤثر کن قدم اٹھائے جاسکتے ہیں وہ اٹھائے جائیں تو یقیناً اسرائیل کی عقل ٹھکانے آجائے گی اور اسے اپنی حیثیت کا اندازہ ہوجائے گا- اپیلیں اور مذمتیں بہت ہوچکی ہیں اب عمل کرنے کی ضرورت ہے-