آرتھر جیمز بالفور سنہ 1916ء سے1919ء کے دوران برطانیہ کے وزیر خارجہ تھے۔ وہ اس وقت کوئی عام آدمی نہیں بلکہ تاج برطانیہ کے خارجہ سیاست کے ترجمان سمجھے جاتے تھے۔ جب انہوں نے صہیونی ارب پتی رکن پارلیمنٹ لاڈ ڈی روچیلڈ کو 2 نومبر 1917ء کو مکتوب لکھا تو وہ جیمز بالفور کا ذاتی مکتوب حیثیت کا مکتوب نہیں تھا بلکہ وہ مکتوب برطانوی سفارت کار کی حیثیت سے تھا۔ بعد میں اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی تھی کہ آرتھر بالفور نے وہ مکتوب صہیونیوں کے ساتھ طویل بحث و مباحثے کے بعد لکھا تھا۔ صہیونیوں اور برطانوی حکومت کےدرمیان کئی سال تک اس حوالے سے بات چیت ہوتی رہی تھی۔ فریقین میں ہونے والی خط کتابت کا آخری نسخہ ’اعلان بالفور‘ تھا جو آرتھر جیمز نے 2 نومبر 1917ء کو لارڈ روچیلڈ کو لکھا تھا۔
آج ’اعلان بالفور‘ کو جاری ہوئے 100 سال مکمل ہوچکے ہیں۔ ایک صدی کا طویل عرصہ اس بات کا متقاضی ہے کہ اعلان بالفور کے بعد مشہور ہونے والی اصطلاحات میں تبدیلی لائی جائے، ایسا لائحہ عمل مرتب کیاجائے جس کے تحت برطانوی حکومت کے اس جرم کو بے نقاب کیا جاسکے جس کے تحت سنہ 1948ء کا ‘نکبہ‘ وقوع پذیرہوا اور ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کے ناسور کو گاڑھا گیا۔
اس ایک سو سالہ عرصے کے دوران برطانیہ کا فلسطینی قوم اور اسرائیل کے حوالے سے جو کردار رہا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اعلان بالفور کو آرتھر بالفور کے نام موسوم کرنے کے بجائے ’اعلان برطانیہ‘ قرار دینا زیادہ بہتر ہے۔
یہ درست ہے کہ آرتھر بالفور نے ہی یہودی رکن پارلیمنٹ ڈی روچیلڈ کو ارسال کیا تھا مگر اسی مکتوب کی بنیاد پر صہیونی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آج ہماری کتب میں وہ ’اعلان بالفور‘ ہی کے نام سے جانا جاتا ہے مگر اس کی اصطلاح کوتبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اعلان بالفور برطانوی وزیرخارجہ کے ہاتھ سے لکھا گیا، برطانوی حکومت نے اسے سرکاری دستاویز قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں براہ راست فلسطینی قوم کو در بہ در کیا گیا۔ آج تک فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کیے گئے۔یہ ایک ایسا جرم تھا جو انسانی اقدار اور حقوق پر ڈاکہ کی دستاویز بنا جسے کسی صورت میں معاف نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اس اعلان سے ایک قوم پر نسلی بنیادوں پر دوسری قوم کو مسلط کیا گیا۔
گوکہ ’اعلان بالفور‘ میں فلسطین میں آباد غیر یہودی اقوام کے تمام شہری اور مذہبی حقوق کا اعتراف کیا گیا مگر آج تک اعلان بالفور کے اس حصے کا عملی نفاذ نہیں کیا جاسکا۔ برطانوی سامراج نے ہرگام صہیونی ریاست کی طرف داری کی اور دہرے معیار کا ثبوت دیا۔ فلسطینی قوم اور اسرائیل کے درمیان کشمکش ختم کرانے کے لیے ایک منصف کا کردار ادا کرنے کے بجائے صہیونی ریاست کے حامی کا کردار ادا کرنے والا برطانیہ کبھی فلسطینیوں کا اپنا نہیں بنا۔ صہیونی ریاست کے مظالم کے خلاف عالمی فورمز پرجب بھی کوئی بات کی گئی تو برطانوی سرکار خم ٹھونک کر صہیونی ریاست کی پشت پر کھڑی ہوگئی۔ فلسطینی قوم کی امنگوں اور ان کے حقوق کا جب اور جہاں مطالبہ کیا گیا برطانیہ نے اسے نظرانداز کیا۔ سنہ 2006ء میں فلسطین میں جمہوری طور پر عوام کی منتخب حکومت قائم ہوئی تو برطانیہ نے دنیا کی بڑی جمہوریت ہونے کے دعوے کے علی الرغم فلسطینیوں کی جمہوری حکومت کو تسلیم کرنےسے انکار کردیا۔ اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر انتقامی پالیسی کے تحت پابندیاں عاید کیں تو برطانیہ نے اسرائیل کی حمایت کی۔ حتیٰ کہ عالمی گروپ چار برائے مشرق وسطیٰ کے ساتھ مل کر غزہ کے عوام پر کڑی اور ظالمانہ پابندیوں کے نفاذ میں مدد کی۔ آج برطانیہ بڑے فخر اور تکبرکے ساتھ ’اعلان بالفور‘ کی صد سالہ تقریبات منا رہا ہے۔ وہ فخر کیا ہے؟ کیا برطانیہ کو اس بات پر فخر ہے کہ اس نے ارض فلسطین کی تقسیم میں سب سے بڑی نا انصافی کی تھی۔ ارض فلسطین میں صہیونی ریاست کےقیام پر فخر برطانیہ کے لیے بنتا ہے۔ کیونکہ برطانیہ ہی نے تو فلسطین میں یہودیوں کے لیے ملک کےقیام کی راہ ہموار کی۔ آج برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کے اسرائیل کے بارے میں پالیسی ہی اس امر کے اظہار کے لیے کافی ہے کہ برطانیہ کو ’اعلان بالفور‘ پر فخر ہے۔
میرے خیال میں تحریک فتح کی مرکزی کمیٹی کے رکن محمد اشتیہ کو بھی اپنی اصطلاح درست کرنی چاہیے۔ انہوں نے تو یہ کہا ہے کہ ’اعلان بالفور سے ایک غیر مستحق قوم کو مالک بنایا گیا‘ حالانکہ انہیں یہ کہنا چاہیے تھا کہ فلسطین ان [لوگوں] کو دیا گیا جو سرے سے اس کے حق دار ہی نہیں تھے‘۔
دوم یہ کہ برطانیہ کے اس تاریخی جرم کو بے نقاب کرنے کے لیے نیا میکینزم اختیار کرنا چاہیے۔
آج فلسطینی قوم ’اعلان بالفور‘ کے نتیجے میں لگنے والے گھاؤ اور زخموں کے ساتھ زندہ ہے۔ ہم احتجاج کرتے، ہڑتالیں اور مظاہرے کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کے عالمی سطح پرحقوق تسلیم کیے جانے کے باوجود ہمیں وہ حقوق نہیں دیے جا رہے۔ ہمیں برطانیہ کو معافی مانگنے پرمجبور کرنا اور ایسا لائحہ عمل اختیار کرنا ہو گا جس سے وہ فلسطینی قوم کی طرف داری پرمجبور ہوجائے۔ اس کے درج ذیل اسباب ہوسکتے ہیں۔
1۔۔۔ ہمیں اپنے آپ سے مخاطب ہو کر ایک دن کے لیے اس جرم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا ہوگی جس نے ہماری قوم کے امنگوں کا خون کیا۔ وہ جرم جس نے فلسطینی قوم کو آزادی کےبجائے ‘نکبہ‘ جیسی قیامت دی، ہماری زمین ہم سے چھینی اور ہمارا مستقبل ہم سے چھین لیا۔
2۔۔۔ آج تک ہم نے اعلان بالفور کے نتائج اثرات سے نمٹنے اور اس کے داخلی اور خارجہ سانحات کا مقابلہ کرنے کے بارے میں غور نہیں کیا۔ شاید اس کا ایک حل اندرون ملک اور بیرون فلسطین پرامن احتجاج میں تیزی لانا ہوسکتا ہے مگر اس مقصد کے لیے فلسطینیوں کو عرب اور مسلمان لابی کو ساتھ ملانا ہوگا، آزاد ضمیر انسانیت کو ساتھ شامل کرکے دنیا بھر میں قائم برطانوی سفارت خانوں کے ذریعے یہ پیغام دینا ہوگا کہ برطانیہ کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں فلسطینی قوم کو ان کے حقوق فراہم نہیں کیے گئے۔
3۔۔۔ برطانوی اور عالمی عدلیہ سے رجوع
4۔۔۔ قومی سفارتی اور سرکاری سطح پر اعلان بالفور کی حقیقت کو واضح کرتے ہوئے دنیا کی تمام اقوام بالخصوص برطانوی عوام کو بتانا ہوگا کہ اعلان بالفور فلسطینی قوم کے لیے کس طرح تباہ کن ثابت ہوا۔
5۔۔۔ برطانیہ میں انتخابات کے دوران موثر لابی تشکیل دینے کے ساتھ ایسی تزویراتی حکمت عملی اپنانا ہوگی جو برطانیہ کے فیصلہ ساز اداروں پر اثرا نداز ہوسکے تاکہ برطانوی سرکار کو اعلان بالفور پرنظرثانی پرمجبور کیا جائے اور وہ فلسطینیوں کے بنیادی حقوق اور مطالبات کی حمایت کے لیے جرات مندانہ فیصلے کرنے کے قابل بن سکے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اعلان برطانیہ کے حوالے سے برطانوی وزیرخارجہ کے جشن سے متعلق بیان کے بعد لندن حکومت پر اندورنی اور بیرونی سطح پر دباؤ ڈلوایا جائے۔ آج سے برطانیہ ایک بڑی تبدیلی کی طرف بڑھنا شروع ہو جائے۔ ایک ایسی تبدیلی جس کے تحت وہ اعلان بالفور پرنظرثانی کرتے ہوئے اس پر معافی مانگنے اور فلسطینیوں کے دیرینہ حقوق کی حمایت کی راہ پر چل سکے۔