فلسطینیوں کے متعلق اسرائیلی استعماری اور فوجی قوتوں کی طرف سے نسلی اور نو آبادیاتی پالیسی کے سبب اسرائیل کے مکروہ چہرے کو اب چھپانا ممکن نہیں رہا ۔
اسرائیلی انسٹیٹیوٹ آف ڈیموکریسی کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”یورپ میں اسرائیل کی طر ف سے اپنے تاثر کو بہتر بنانے کیلیے کی گئیں زوردار کوششوں اور خرچ کی گئی بھاری رقوم کے باوجود یورپ میں اسرائیل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے ، ہمیں خود سے استفسار کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہے ؟”
اسی انسٹیٹیوٹ سے منسلک محققین کا کہنا ہے کہ ایک بین الاقوامی مہم کے باعث اسرائیل کا مکروہ چہرہ سامنے آ چکا ہے اور دنیا بھر میں صہیونی ریاست کے دشمنوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔
اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کی تازہ ترین مثال اسرائیلی وزیراعظم نتین یاہو اور صدر باراک اوباما کے کشیدہ ہوتے تعلقات ہیں ۔ وہائٹ ہاوس کے بہت قریب ایک یہودی صحافی جیفرے گولڈ برگ کا کہنا ہے کہ جس لمحہ صدر اوباما نے وزیراعظم نیتن یاہو کی طرف سے مقبوضہ یروشلم کے نزدیک EIعلاقے میں نئی آبادیوں کی تعمیر کا اعلان سنا تو صدر اوباما نے اس اعلان کو تبصرے کے قابل بھی نہیں سمجھا اور اپنے رفقاء کو بتایا کہ نیتن یاہو کے تباہ کن رویے اور طرز عمل کے عادی ہو چکے ہیں ۔
گولڈ برگ نے مزید کہا کہ صدر اوباما کے نزدیک اسرائیل کی طرف سے نئی آبادیاں تعمیر کرنے کا ہر فیصلہ اسرائیل کی بین الاقوامی تنہائی کے مترادف ہے ۔ گولڈ برگ کا مزید کہنا تھا کہ اب صدر اوباما سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کو جلد ہی معلوم ہو جائے گا بالآخر اقوام متحدہ میں اس کو ووٹ دینے والا کوئی ملک موجود نہیں ہو گا۔
اسرائیلی نیشنل کونسل کے سابق سربراہ جنرل ڈینی نے اپنے ایک مکالمے میں کہا ”ہم اس تاثر کو محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اب امریکا کے نزدیک اسرائیل ایک غیر ذمہ دار ملک بن چکا ہے جس سے ہر وقت امریکا کو خطرات لاحق ہیں ۔ضروری نہیں کہ اسرائیلی حکومت پر کی جانے والی ہر تنقید درست ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل بین الاقوامی طور پر اپنا مثبت تاثر پیش کرنے میں ناکام رہا ہے ۔”
مزید براں اسرائیلی وزیر خارجہ کی طرف سے شائع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق تمام یورپی ممالک اسرائیلی حکومت پر دباو ڈالیں گے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے پر امن حل کیلیے مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یورپ کی طرف سے آبادیاں تعمیر کرنے کی اسرائیلی کوششوں کی مخالفت محض مذمت کرنے سے کہیں ماورا ہے۔ یورپی سفارتی ذرائع نے یورپی یونین کے اس ارادے کی تصدیق کی ہے کہ 1967ء میں موجود علاقوں پر مبنی فلسطین ریاست قائم کی جائے جس کا دارلحکومت مشرقی یروشلم ہو۔
مزید برآں یورپی ممالک ایک علاقائی امن کانفرنس کے انعقاد کا بھی اہتمام کر رہے ہیں جس میں مصر، اردن اور خلیجی ممالک کو شرکت کی دعوت دی جائے گی اور اسرائیل پر بھی اس کانفرنس میں شرکت کیلیے شدید دباو ڈالا جائے گا ، اور اگر اسرائیل نے اس کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا تو یہ ثابت ہو جائے گا کہ اسرائیل مشرق وسطی میں امن کے قیام کا خواہاں نہیں ۔
ایک اسرائیلی اخبار نے وزارت خارجہ کی اس رپورٹ میں موجود ایک تجزیہ کی بھی نشاندہی کی ہے کہ اسرائیل کی طرف سے آبادیاں تعمیر کرنے کا اعلان ، فلسطینی مسئلہ کے حل کے ضمن میں مذاکرات سے انکار ہے لیکن براہ راست مذاکرات ہی مسئلہ فلسطین کا واحد حل ہے جس کے باعث مشرق وسطی میں امن قائم ہو سکتا ہے ۔
2013ء ایک ایسا سال ہے جس میں ایران کے جوہری معاملے کے متعلق حتمی فیصلہ ہونے کی امید ہے لیکن یہ ایک ایسا وقت بھی ہے جب نیتن یاہو اور صدر اوباما کے درمیان تعلقات کشیدہ تر ہوتے جا رہے ہیں۔
واشنگٹن انسٹیٹیوٹ آف مڈل ایسٹرن سٹڈیز کے ایک محقق ڈیوڈ میکووسکی کا کہنا ہے کہ اسرئیل میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت کا قیام ناممکن ہے کیونکہ اس کے ذریعے صدر اوباما کے لیے شدید مسائل پیدا ہوں گے لیکن اس قسم کی حکومت کے قیام کے ذریعے امریکا اور اسرائیل کے مابین اچھے تعلقات بھی تخلیق ہو سکتے ہیں لیکن ماضی کو دیکھتے ہوئے ایسا ممکن نہیں ۔اوباما اور نتین یاہو کے درمیان تعلقات شدید بد اعتمادی اور نفرت کا شکار ہو چکے ہیں ۔
ایک اسرائیلی سیاسی تجزیہ نگار کے مطابق یورپیوں کو اب معلوم ہو چکا ہے کہ اسرائیل کیلیے امریکی حمایت میں بہت زیادہ کمی واقع ہو چکی ہے ۔ اس کے علاوہ مصری حکام جو امریکا کے انتہائی نزدیک ہیں ، انہیں بھی اس قسم کا پیغام مل چکا ہے۔ اس تجزیہ نگار کے مطابق خطرناک نتائج نتین یاہو کا انتظار کر رہے ہیں کیانکہ اب دنیا کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات