صہیونی حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو منہدم کرنے کی تیاریاں ہو رہی ہیں ۔اب حالت یہ ہے کہ قبلہ اول کے امام امت مسلمہ کو اسرائیلی سازشوں کو ناکام بنانے کیلیے متحد کر رہے ہیں اور قبلہ دوم یعنی خانہ کعبہ کے خادم مغربی آقاؤں کے کہنے پر ایران سے خوفزدہ ہو کر اسرائیل کے ساتھ مراسم بڑھا رہے ہیں ۔دنیا بھر کے مسلمان اسے شدت سے محسوس کر تے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پا رہے ۔ کبھی انہیں یاد دلایا جاتا ہے کہ مذہب کے ساتھ سیاست کو ملانا گناہ ہے ۔ کبھی کہا جا تا ہے کہ نامعلوم کن مصلحتوں کی وجہ سے عرب حکمران اسرائیل کے نزدیک جا رہے ہیں ۔ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ اسرائیل کے مظالم سے بے گناہ فلسطینی آزاد ہوں ۔
مسئلہ فلسطین پر امریکا کی سرپرستی میں برسوں سے نام نہاد امن مذاکرات جاری تھے۔حال ہی میں امریکا نے9 دسمبر کو اسرائیل کے ساتھ یہودی بستیوں کی تعمیر رکوانے کیلئے جاری مذاکرات میں ناکامی کے بعد امن مذاکرات سے دستبرداری کا اعلان کیا ہے۔اسرائیلی ذرائع کے مطابق امریکی حکام نے فلسطینی صدر محمود عباس کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ اسرائیل کو یہودی بستیوں کی تعمیر رکوانے پر قائل نہیں کر سکتے۔فلسطینی ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کی کہ امریکا نے انہیں مطلع کیا ہے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر منجمد کرنے سے انکار کر دیا ہے۔یعنی اب تک جو امریکا فلسطینی قیاد ت کو یہ بہکاتا رہا تھا کہ امن مذاکرات سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔اب سے بظاہر اپنی ناکامی کا اعلان کر دیا ہے اور فلسطینی قیادت اورعوام کو فریب دیا ہے۔
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کسی کے گھر میں کچھ مسلح افراد اچانک داخل ہوں اور انہیںکے چند ساتھی سادہ وردی میں موقع واردات پر پہنچ جائیںاور صلح کی بات کرنے لگیں۔مکان مالک سے کہا جائے کہ وہ اپنے کچھ افراد کو محفوظ کرنے کیلئے گھر سے باہر کردیں اور مسلح افراد کو اشارہ کیا جائے کہ گھر کے مزید کچھ حصوں پر قبضہ کر لیں ۔واضح رہے کہ سرزمین فلسطین پر قبضہ میں وسعت ہوتے ہوتے اب حالت یہ ہے کہ مغربی کنارہ پر مغرب نواز محمود عباس کی نام نہاد حکومت ہے اور غزہ میںجمہوری طریقہ سے منتخب حماس کی حکومت ہے جسے مغربی ممالک تسلیم نہیں کرتے ہیں ۔ حماس اسرائیلی مظالم کیخلاف تحریک جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ محمو دعباس صرف امریکی آلہ کار کے طور پر مذاکرات کی میز پر تصویریں لینے کیلیے استعمال کیے جاتے ہیں ۔اب اکثر مغربی میڈیا فلسطین کو نام لکھنے سے پرہیز کرنے لگا ہے اور وہ اکثر مغربی کنارہ اور غزہ کا نام ہی لکھ رہا ہے۔
داریں اثنا فلسطینی آئینی وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے 28نومبر جمعہ کو اپنے خطاب کے دوران عالم اسلام سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ قبلہ اول کے دفاع اور بیت المقدس شہر کو یہودیوں کی دست برد سے بچانے کے لیے اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں ،ان کا کہنا یہ تھا کہ دشمن اسلام شعائر سالم کے خلاف اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر رہے ہیں ۔ امت مسلمہ کو بھی اب متحد ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے قبلہ اول اور بیت المقدس کے خلاف جاری سازشوں پر تنقید کرتے ہوئے مقدس مقامات کے تحفط کے سلسلہ میں امت مسلمہ کے غفلت پر مبنی کردار پر بھی تنقید کی۔
انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں 55مسلمان آزاد ریاستیں ہیں لیکن وہ قبلہ اول کیلئے کچھ نہیں کر رہے ہیں ۔شیخ اسماعیل نے فلسطینی قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قبلہ اول کے تحفظ کی سب سے پہلے ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے ۔ انہیں باہمی اختلافات سے اوپر اٹھ کر مسجد اقصیٰ کے لیے متحد ہونا چاہیے۔اس کے بعد 8دسمبر کو عالم اسلام کی نمائندہ سمجھی جانے والی تنظیم اسلامی کانفرنس کے سیکرٹری جنرل پروفیسر اکمل الدین احسان اوگلو نے کہا کہ قبلہ اول کو کسی بھی طرح کے نقصان کا ذمہ دار اسرائیل ہو گا۔ انہوں نے صہیونی پارلیمنٹ کے اراکین کے ان بیانات کو نہایت غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے کہ جنہیں کیا گیا تھا کہ مسجد اقصیٰ کے گرد کھدائیوں کے باعث مسجد کا مرکزی حصہ مصلی مروانی کسی بھی وقت زمین بوس ہو سکتا ہے ۔ واضح رہے کہ اس خطہ میں سعودی عرب اسرائیل کے بعد امریکا کا نزدیک ترین اتحادی ہے۔
سعودی عرب میں مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے وجود کی بناء سے مسلمانوں میں احترام کی نظرسے دیکھا جاتا ہے۔امریکا اور اسرائیل کو جب بھی مسلمانوں کی طرف سے مشترکہ بیان کی ضرورت ہوتی ہے تو اس کیلئے تنظیم اسلامی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ تنظیم اسلامی کی جانب سے جاری بیان کافی کمزور ہے ، اس میں مسجد اقصیٰ پر کسی بھی نقصان کی محض اسرائیل پر ذمہ داری عائد کرنے کی بات کی گئی ہے۔اس پر مسلمان ممالک کی جانب سے کیا ردعمل ہو گا اس کی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی عرب حکومت کی جانب سے کافی اسلامی تاریخی مقامات منہدم کیے جا چکے ہیں ۔اس لیے سعودی عرب کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے انہدام پر کسی شدید ردعمل کی امید نہیں کرنی چاہیے۔بیت المقدس سے متعلق الاقصیٰ فاؤنڈیشن نے بھی یکم دسمبر کو مسجد اقصیٰ کے اندر ہیکل سلیمانی کی تعمیرسے متعلق صہیونی بیداری مہم شروع کرنے سے بیدار کیا تھا ۔
ادھر اسرائیل غزہ میں حماس حکومت کو مزید پریشانی میں ڈالنے کیلئے الزامات لگا رہا ہے کہ وہاں القاعدہ عناصر موجود ہیں، اس پر غز ہ میں حماس کی حکومت کے وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے واضح خبردار کیا کہ قابض صہیونی دشمن غزہ میں القاعدہ کے وجود کی آڑ میں معاشی ناکہ بندی کے شکار شہر پر ایک بار پھرجارحیت کی راہ تلاش کر رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں شدت پسند تنظیم القاعدہ کے وجود کا صہیونی دعویٰ بہت فراڈ ہے ۔ انہوں نے یہ بات 2دسمبر کو غزہ میں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہی ۔ان کے اس بیان کے ایک ہفتہ کے اندر اندر اسرائیلی فوج کے جنگی طیاروں نے غز ہ میں تین مکانات پر الگ الگ حملے کئے۔ان حملوں میں حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ۔
ادھر لبنان کے سابق وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کی تحقیقات کیلئے قائم اقوام متحدہ کی عدالت سے ممکنہ طور پر حزب اللہ کو ماخوذ کیے جانے پر اسرائیلی سیاسی حلقوں میں حزب اللہ سے لڑائی کے امکان ظاہر کیے جا رہے ہیں۔واضح رہے کہ حزب اللہ نے رفیق حریری کے قتل میںاسرائیل کے ملوث ہونے کے ثبوت میڈیا کے سامنے ویڈیو کی شکل میں پیش کیے ہیں۔ادھر اسرائیل کو 2004میں جنوبی لبنان میں شکست دینے والی پسند تنظیم حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ نے کہا ہے کہ اسرائیل رفیق حریری کے قتل کی تحقیق کرنے والی اقوام متحدہ کی عدالت کے ذریعہ لبنانی مزاحمت کو ختم کرنے اور لبنان کو کمزور ریاست میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر جنگ ہوئی تو قابض اسرائیل کو اس کی زمین پر عبرتناک شکست سے دوچار کیا جائے گا۔
حزب اللہ کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ان کی تنظیم اور پوری لبنانی قوم صہیونی دشمن کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہے۔ادھر حال میں ترکی کے وزیراعظم ایردوان ن کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ اور لبنان پر اسرائیل کی کسی بھی جارحیت کی صورت میں خاموش نہیں رہے گا۔ایردوان نے ان خیالات کا اظہار دورہ لبنان دورہ لبنان کے موقع پراپنے لبنانی ہم منصب حریری کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کی اسرائیل ہم سے یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کی فوجیں غزہ میں فاسفورس بم گرا کر کھیتوں اور سڑکوں پر کھیلتے بچوں کو قتل کریں اور پھر بھی ہم سے خاموش رہنے کو کہا جائے، یہ نہیں ہو گا۔ادھر اسرائیلی ریڈیو نے انکشاف کیا کہ امریکا کی معروف تعمیراتی کمپنی ”جنرل الکٹرک ”مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیل کے تعمیراتی منصوبوں کی نگرانی کر رہی ہے۔یہ کمپنی بعض و دیگر مقامات پر بھی اسرائیلی کمپنی کیساتھ ملکر مختلف منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔
سعودی عر ب کے شہزادہ الوحدی بن طلال نے تل ابیب میں ایک بڑا ہوٹل قائم کیا ہے۔اس کے علاوہ بھی سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود کئی سعودی عرب تجارتی گھرانے اسرائیل سے کاربار کر رہے ہیں۔مکہ معظمہ میں حرم کے سامنے شاپنگ مال میں کئی یہودی کمپنیوں کو کاربار کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں جبکہ امریکا نے فلسطینی تحریک کو کمزور حالت میں محسوس کرتے ہوئے مقبوضہ فلسطین میں یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے میںناکامی کا اعلان کیا ہے ، امریکا کی کمپنیوں کے ذریعہ ان غیر قانونی تعمیراتی منصوبوں میں شرکت اور امریکا کی جانب سے اسرائیل کو جاری دفاعی تعاون سامنے ہے۔کیا عرب حکومتوں کا اسرائیل کے قریب جانا درست ہے۔ کیا عرب بادشاہتوں کو بچانے کی قیمت یہ ہونی چاہیے کہ وہ قبلہ اول کو منہدم ہونے دیںاور بے گناہ فلسطینی عوام کا قتل عام ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔دنیا بھر کے مسلمانوں اور انصاف پسند عناصر کو چاہیے کہ وہ جمہوری طریقے سے امریکا اسرائیل اور عرب بادشاہتوں کی حقیقت کو عوام کے سامنے رکھیں۔