سلامتی کونسل نے اسرائیل کو بین الاقوامی قوانین کا احترام کرانے اور جنگ بند کرنے کے لئے قرار داد پاس کی ہے لیکن اسرائیل نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا ہے اور وہ غزہ میں برابرحملے کر رہا ہے انسانی حقوق کی پامالی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارہ کی سربراہ ناوی پلے (Navi Pillay) نے کہا ہے کہ غزہ میں انسانی حقوق کی پامالی اور بین الاقومی قانون کی خلاف ورزی اس قدر سنگین ہے کہ وہ جنگی جرائم کے زمرے میں آتی ہے اور جو اسرائیلی حکمراں اور فوجی لیڈر اس کے ذمہ دار ہیں ان پر مقدہ چلایا جانا چاہئے اس کے لئے ضروری ہے کہ اقوام متحدہ کا انسانی حقوق کا ادارہ جس کے 47 ملک ممبر ہیں غیر جانب دار و شفاف تحقیقات کرے، اسرائیل کیخلاف جنگی جرائم کا مقدمہ بھی قائم کیا جا سکتا ہے۔
غزہ میں ایک رپورٹ کے مطابق 800 کے قریب فلسطینی عرب شہید ہو چکے ہیں جن میں 230 معصوم بچے ایک سو سے زیادہ خواتین شامل ہیں 3300 فلسطینی زخمی ہیں اورلاکھوں فلسطینی بھوک ، پیاس سے تڑپ رہے ہیں اسرائیل نے شہری آبادیوں، اسکولوں اور اسپتالوں تک پر بمباری کی ہے امریکہ اس کی حمایت کر رہا ہے صدر بش جونیئر کی انتظامیہ اسرائیل کی حمایت کر رہی ہے تاکہ حماس کو ختم کیا جا سکے لیکن کیا وہ حزب اللہ کو ختم کر سکے بلکہ وہ پہلے سے زیادہ مضبوط ہو گئی۔
سلامتی کونسل نے جنگ بندی کے لئے جو قرار داد پاس کی ہے اس میں رائے شماری میں امریکہ نے ووٹ نہیں دیا سلامتی کونسل کے چار مستقل اور دس غیر مستقل ممبر ملکوں نے قرار داد پاس کی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ نے اس قرار داد کو ویٹو کیوں نہیں کیا گیا اس کی کئی وجوہات سامنے آرہی ہیں سب سے پہلے تو یہ ہے کہ اس قراردادکو پاس کرانے کے لئے روس، چین اور فرانس شدو مد سے اثر و رسوخ استعمال کر رہے تھے اگر امریکہ اس قرار داد کے راستے میں روڑے اٹکاتا تو روس اور چین کو ایک بڑا رول ادا کرنے کا موقع مل جاتا جس سے روس کے اثرات مشرق وسطیٰ میں مستحکم ہونے میں مددگار ثابت ہوتے۔
روس نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے اور جس طرح امریکہ نے سازش کر کے افغانستان میں اس کی شکست اورتباہی کا سامان کیا تھا اس کے نتائج سے اس نے پیچھا چھڑا لیا ہے بلکہ میں یہ کہوں گا کہ حیرت انگیز طور پر اس نے اپنی ساکھ اور قوت کو بحال کر لیا ہے سلامتی کونسل نے غزہ میں جنگ بندی کی جو قرار داد پاس کی ہے اس میں بڑا فیکٹر روس اور چین کا دباؤ ہے اس کو مشرق وسطیٰ میں روس کے داخلے کی کامیاب کوشش قرار دیا جا سکتاہے امریکہ نے جنوب ایشیا میں بھارت کواپنے زیر اثرلانے کی جو کوشش شروع کر ہے اس پر بھی روس اور چین کا ردعمل امریکا کے لئے غیر متوقع ہے روس اور چین اس اسٹریٹجک علاقے میں امریکہ کی موجودگی کو کسی قیمت پر قبول نہیں کریں گے۔
اسرائیل یہودی ریاست ہے اور ساری دنیا کے ساتھ ساتھ امریکہ کے یہودی اس کی پشت پر ہیں یہودیوں نے ریاست کے حصول سے پہلے بھی اور بعد میں بھی فلسطینی عربوں پر قیامت خیز ظلم کیا ہے اور غزہ میں ان کا یہ حملہ جس کے بارے میں ساری دنیا انکی مذمت کر رہی ہے ان کا ایک مجرمانہ فعل ہے وہ آج فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں لیکن تاریخ یہ بتاتی ہے کہ نہ یہودیوں کی نسل کشی کی کوئی کوشش کامیاب ہوئی اور نہ فلسطینیوں کی تباہی و نسل کشی کی کوشش کامیاب ہو گی اگر انہوں نے اپنی اصلاح نہ کی اورتاریخ سے سبق حاصل نہ کیا تو انہیں کہیں پناہ نہیں ملے گی۔
اسرائیل کے حکمراں، فلسطینیوں پر جو ظلم کر رہے ہیں اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ عرب ملکوں پر اپنی طاقت کی دھاک بٹھائیں تاکہ ان کے خلاف کسی کو کھڑے ہونے کی ہمت نہ ہو۔ وہ بڑی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوئے ہیں۔ عرب ملکوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اسرائیل ناقابل شکست ہے لیکن جب لبنان میں حزب اللہ نے ان کو للکارا تو عربوں کے دلوں سے وہ خوف معدوم ہو گیا کہ اسرائیل بالا ترقوت ہے کئی عشروں سے حماس اسرائیل کے وجود اور اس کی عرب مخالف پالیسیوں کے راہ میں رکاوٹ بنتی رہی ہے اس لئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسرائیل نے پوری قوت سے حملہ کیا ہے تاکہ حماس کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کردیا جائے لیکن وہ پہلے مرحلے میں ناکام ہو گئے ہیں اور عالمی رائے عامہ ان کے خلاف ہوگئی ہے اب پسپا ہونا ان کا مقدر ہے۔
حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ مسلمانوں نے جب وہ مقتدر ہوئے میانہ روی کا راستہ اختیار کیا جب اسپین میں مسلمان حکمران تھے تو یہودیوں کو وہ مقام حاصل تھا کہ اس کی یہودیوں کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اسپین کے اس دور کواپنی تاریخ کا سنہری دور کہتے ہیں اسپین میں یہودیوں کے اقتدار کا یہ عالم تھا کہ یونیورسٹیوں کے منتظم وہ تھے حکمرانوں کے مشیر و طبیب وہ تھے خلافت کے مالی، علمی اور دفاعی امور ان کو میسر تھے اس کے برخلاف انہوں نے مسلمانوں کے خلاف سازشیں کیں 1095ء میں جب صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو بے دریغ قتل کیا بیت المقدس کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں صلیبیوں کے گھوڑے گھٹنوں گھٹنوں خون میں دوڑ رہے تھے۔
ہزاروں یہودیوں کو ان کی عبادت گاہ میں بند کر کے جلایا گیا جب یہ اسپین سے بھاگے تو انہیں مسلمانوں نے پناہ دی۔ نازی جرمنی نے ان کا قتل عام کیا تو مسلمان ان کا سہارا بنے آج بھی ترکی میں یہ بہت سے ترکوں سے اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ یورپ میں آج بھی انہیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ امریکا میں یہ ہر شعبہ زندگی میں امریکی عیسائیوں پرغالب ہیں حکومت کی اصل قوت ان کے ہاتھ میں ہے۔
اسرائیل کے یہودی اپنی روش میں تبدیلی لائیں اپنے ماضی سے سبق سیکھیں وہ عربوں کے ساتھ مل کر تو رہ سکتے ہیں لیکن ظلم کر کے ان کی بقا ناممکن ہو جائے گی انہوں نے بش جونیئر کے رخصت ہونے سے پہلے عبوری دور میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی یہ غلطی بڑی مہنگی ثابت ہو گی وہ حماس کو ختم نہیں کر سکیں گے دنیا کی ہمدردیاں اب فلسطینیوں کے ساتھ ہیں جواپنے بچوں کے لاشے اٹھائے نظر آتے ہیں اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر کے روس کو مشرق وسطیٰ میں داخل ہونے کا موقع دیدیا ہے جو عرب ملک اسرائیل کے ساتھ بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندہ ر ہنا چاہتے ہیں ان کے حکمرانوں کے لئے خطرات بڑھا دیئے ہیں اور اسرائیلی کارروائی نے مشرق وسطیٰ میں القاعدہ کو مزید مضبوط بنانے کی راہ دکھا دی ہے۔