شنبه 16/نوامبر/2024

اسرائیل کی سیاست اور امریکی کردار

جمعہ 22-جنوری-2010

حضرت بابا فرید گنج شکر کا جملہ ہے (جو سچائی جھوٹ کے مشابہ ہو اسے کبھی اختیار نہ کرو)۔ عربوں کے دلوں میں نشتر کی طرح پیوست یہودی ریاست اسرائیل کو آج کل سیاسی بحران نے گھیر رکھا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ نے اپنی سرکار پر لگنے والی مالی کرپشن کے الزامات کو غوغہ آرائی پر سرنڈر کرتے ہوئے استعفی دے دیا تھا جس پر صدر شمعون پیریز نے اولمرٹ دور کی وزیر خارجہ اور برسراقتدار پارٹی قدیما کی روح رواں زپی لیونی کو حکومت سازی کی دعوت دی مگر وہ مخلوط حکومت سازی  کے جان گسل کام کو عملی روپ میں ڈھالنے کی ناکام کوششوں سے بددل ہو کر نئے انتخابات کا بگل بجانے لگیں۔

کرپشن کے روز روشن الزامات نے جہاں ایک طرف ایہود اولمرٹ کے سر سے قدیما پارٹی کے تاج کو سرکا دیا تو وہاں دوسری طرف وزارت عظمی بھی ان سے روٹھ گئی۔پارٹی ساکھ کی بحالی کیلئے قدیما پارٹی نے صدارت کا ہما وزیر خارجہ زپی لیونی  کے سر پر سجا دیا۔اسرائیلی پارلیمان کی ایک سو بیس سیٹوں میں سے قدیما پارٹی کا اسکور صرف انتیس سیٹوں تک محدود رہا۔زپی لیونی کو حکومت سازی کیلئے اکسٹھ کا ہندسہ کراس کرنا تھا۔زپی نے سابق وزیراعظم نیتن یاہو کی پارٹی سے اتحاد کر کے حکومت تشکیل دینے کے مذاکرات کو ڈول ڈالا مگر وہ اکسٹھ اراکین کو اپنے کیمپ میں نہ لا سکی اور نئے انتخابات کا اعلان کر دیا۔حکومت جماعت کی سربراہ زپی لیونی اور اسرائیل کی آئندہ متوقع وزیراعظم نے نئے انتخابات کا مشورہ اس وقت دیا جب قدامت پسند پارٹی شعث نے مذاکراتی عمل سے دوری اختیار کی۔قدیما پارٹی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی عمل کی شریک کار جماعتیں مطالبات کے نام پر بلیک میلنگ کا اتوار بازار سجا بٹھیں جس سے بچاو کیلئے زپی لیونی نے اسرائیلی پارلیمنٹ کو نیو الیکشن کا مشور ہ دیا جسے اسرائیلی پارلیمان نے شرف قبولیت بخشتے ہوئے دس فروری کو نئے الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا۔

گمان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ صدر شمعون پیریز کسی اور جماعت کو حکومت سازی کا کام سونپ سکتے ہیں مگر حتمی نتیجہ نئے انتخابات سے فیصلے پر منتج ہوا۔اسرائیل کا سیاسی نظام انتہائی گنجلک اور پیچید ہ ہے اور یہاں مخلوط حکومت بنانا کٹھن اور مشکل ترین کام ہے۔ زپی لیونی نے صدر شمعون پیریز کو بتایا کہ مخلوط اتحاد کی تمام کوششیں رائیگاں ہو گئیں۔زپی نے یہودیوں پر زور دیا کہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب خود کریں۔زپی لیونی موساد کی ایجنٹ رہ چکی ہیں۔ ان کامقابلہ سابق وزیراعظم نتین یاہو کی لیکوڈ پارٹی کے ساتھ تھا۔زپی لیونی نے حکومت سازی کیلئے لیکوڈ پارٹی کو آفر دی تھی جو انہوں نے مسترد کر دی تھی۔ یوں اسرائیلی انتخابات میں اصل مقابلہ زپی لیونی کی قدیما پارٹی اور لیکوڈ پارٹی کے درمیان تھا۔

اسرائیل اس وقت مڈی ایسٹ کی جوہری قوت اور دنیا کا اہم ترین ملک بن چکا ہے جس کی اقتصاد ی قوت اور عسکری طاقت پر دو رائے نہیں ہو سکتیں۔وہ طاقت کے نشے میں چور ہے۔ اسرائیل اپنی آزادی کی سالگرہ کو پوری شان و شوکت سے مناتا ہے اور اپنی مظلومیت سے دنیا کو آگاہ کرتا رہتا ہے تاکہ مظلومیت کی آڑ میں وہ فلسطینیوںکی مار دھاڑ کرتار ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ فلسطینیوں کو حق ارادیت تفیض کئے بغیر اسرائیل کی چودھراہٹ ممکن نہیں۔ایہود اولمرٹ نے تو جاتے جاتے سچ کی ترجمانی کی کہ اسرائیلی سلامتی کا قیام آزاد فلسطینی ریاست کے احیاء سے ہی ممکن ہے اور یہی وہ پہلو ہے جس کی حقیقت کا احساس زپی لیونی کو بھی ہے۔

اولمرٹ کا شمار اسرائیل کے انتہا پسندوں میں ہوتا ہے جو کسی زمانے میں جنگی طاقت کے بل پر فلسطینیوں کو قیمہ بنانے پر ایمان رکھتے تھے لیکن اسرائیلی فوجیوں کی جو درگت حزب اللہ کے ہاتھوں بنی اس پر اولمرٹ کے فلسفے میں بالغ نظری کا احسا س ابھرا۔ اولمرٹ نے کیا خوب کہا کہ اگر فلسطینیوں کے ساتھ دو ریاستوں کے وجود تسلیم کرنے کا معاہدہ نہیں ہوتا اور مذاکرات ناکام ہو جاتے ہیں تو اسرائیل ختم ہو جائے گا اور اپنے استدلا ل کو وزن دار بنانے کیلئے افریقہ کی مثال دیتے ہیں۔ اگر فلسطینیوں کو انکے جائز حقوق نہیں دیے جاتے تو یہاں افریقہ طرز کی خانہ جنگی شروع ہو جائے گی اور اسرائیل کو عبرت ناک شکست کی بیڑیاں جکڑ لیں گی۔

واہٹ ہاوز کے نیو راج کمار اوباما سے مسلمانوں نے خیرو انصاف کی امیدیں باندھ رکھی تھیں۔کیا اوباما اپنے عہد میں فلسطین و اسرائیل کا تنازعہ منصفانہ طور پر حل کرا سکیں گے جب دنیا بھر کی یہود نواز لابیوں نے گریٹر اسرائیل کا خواب پروان چڑھا رکھا ہے۔ یہ وہ سوال ہے جس کا جواب تلاش کیے بغیر کوئی رائے قائم کرنا دشوار ہو گا۔اوباما کی جیت پر اسرائیل میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔سابق اسرائیلی وزیر خارجہ زپی لیونی نے کہا کہ انہوںنے اوباما سے کافی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں مگر یہودی ایجنسیوں اور اعلیٰ عہدیداروں کے گلے سے یہ بات نہیں اتر پا رہی کہ اوباما ایک مسلمان کا بیٹا ہے اور مسلمان ہونے کے ناطے اوباما کی ہمدردیاں فلسطینی باشندوں کے ساتھ ہو سکتیں ہیں۔امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ امریکا کے 78فیصد یہودی ووٹرو ں نے اوباما کو ووٹ دئیے۔

اوباما نے یہودی کا قرض چکانے کیلئے وائٹ ہاوزکے چیف آف جنرل سٹاف کا عہدہ مسلم کٹر دشمن کانگریس کے ڈیمو کریٹ Raham Amanuaiکی جھولی میں ڈال کر اسرائیلیوں میں پائی جانے والی بے قراری ختم کر دی۔اوباما کی مہربانی سے چیف آف سٹاف بننے والے ایما نول مشہور عالم انتہا پسند یہودی رہنما ڈاکٹر بنجامن ایمانول کے صاحبزادے ہیں۔فاکس نیوز نے تجرباتی طور پر ایمانول کی تعینات کو اوباما کے پیغام بنام مشرق وسطیٰ کے طرہ امتیاز کہا ہے کہ اس کا مقصد مشرق وسطیٰ کو یہ بتانا ہے کہ اوباما یہودیوں کے خیر خواہ ہیں ۔اسرائیل کے معروف اخبار حانز نے 24اکتوبر کو ایک مضمون شائع کیا جس میں مشہور صہیونی رہنما برنارڈ بروچ نام کے شدت پسند یہودی کے اس بیان کو فوکس کہا گیا ہے۔انہوں نے چند برس پہلے نیو یارک میں ایک انتخابی کنونشن میں کہا تھا کہ اگر تمام یہودی میری پسند کے صدارتی امیدوار کو ووٹ دیں تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں یہودیوں کو ال سعود کے سرکاٹ کر پیش کروں گا۔
 
امریکا کے تاریخ ساز محقق جعفر سید تجزئیے میںل کھتے ہیں کہ اوباما نے الیکشن سے پہلے تل ابیب کو پیغام بھجوایا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ میں پہلے اسرائیل کے مفادات کو فوقیت دیں گے جبکہ امریکی مفادات دوسرے نمبر پر فروکش ہوں گے۔اوباما کی طرف سے ڈینس روز نام کے یہودی کو مشیر بنانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ تل ابیب کے اخبار حانز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اوباما کی حمایت کے عوض یہودیوں نے ان کے سامنے تین نکاتی ایجنڈہ رکھا تھا

1  ایران کے ساتھ کس طرح اور دودو ہاتھ کیے جائیں اور مشرق وسطیٰ میںمذاکرات کو کس طرح نمٹائیں گے۔

2  اوباما بتائیں کہ وہ اسرائیل اور امریکی انتظامیہ کے درمیان کس طرح کا تعلق رکھنا پسند کرتے ہیں؟

3  اوباما بتائیں کہ وہ اسلامی تحریک مزاحمت (حماس)کو کس طرح رگڑا دیں گے اور فلسطینی انتہا پسندوں کو
کس طرح کچل ڈالنے کی یہودی سازشوں کئی حمایت کریں گے ؟ اوباما کے نمائندے ڈینس روز نے جوابی سیشن میں اعتراف کیا کہ ہم ایران کو جوہری طاقت بہ بننے دیں گے اور حماس کے پر کاٹ دیں گے ۔اوباما کے مشیر برائے مشرق وسطیٰ  ڈینس روز نے پریس کانفرنس میں یہودیوں پر جان چھڑکتے ہوئے فاسد خیالات کا اظہاریوں کیا کہ اوباما اینڈ کمپنی اسرائیل کو تین بلین ڈالر کی خصوصی امداد کا خصوصی پیکج دینے کیلئے اپنے خصوصی اختیارات کا استعمال کرے گی

۔امریکی دانشور جعفر سید کہتے ہیں کہ گزشتہ سال جون میں اسرائیل امریکا پبلک افیرس AIPAC کے اجلاس میں اوباما نے یقین دہانی کرائی کہ وہ اسرائیل کے اچھے دوست ثابت ہوں گے۔اس کانفرنس کی روداد جیوش ورلڈ یویو نامی صہیونیت کے علمبردار جریدے میں شائع ہو چکی ہے۔اسرائیلی اخبار خانز لکھتا ہے کہ اوباما کے دور میں یہودیوں کو ان مسائل کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا جن کے پل صراط سے ا نہیں بش دور سے گزرنا پڑا تھا۔بل کلنٹن انتخابی جلسوں اور سیمیناروں سے مخاطب ہو کر یقین دہانیاں کرواتے رہے کہ اوباما اسرائیل کا ہمدرد ہے ۔ اسرائیل اور امریکا ایک ہی تھالی کے بینگن ہیں۔یوں اسرائیلی انتخابات میں کوئی ایسی جماعت فتح کی پہنچ سے دور ہے جو تنازعہ فلسطین کو حل کرنے میں معاون کا کردار اداکرے۔اس طرح اسرائیلی انتخابات کے نتیجے میں مستقبل کی حکمران جماعت او ر اوباما کیمپ سے فلسطینیوں اور مسلمانوں کو کوئی ریلیف نہیں ملی۔
 
امریکا کے نئے صدرسے لیکر بش تک اور امریکی تھنک ٹینکوں سے لیکر اسرائیل کی تمام سیاسی جماعتوں کے مہاراجوں جو بھی ہر وقت اسرائیل فلسطین تنازعہ کے حل کیلئے اپنے اپنے جل جھاڑتا ہے وہ سب جھوٹ اور فریب کاری ہے۔ مسلم حکمرانوں کو حضرت گنج بخش کے قول پر تحقیق و جستجو کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ امریکی لیڈروں کی اصل سچائی سے آگاہ ہوں۔ امریکی یا اسرائیلی وعدوں کی حیثیت معشوق کے وعدوں کی طرح جھوٹ پر مبنی ہوتی ہے۔بابا گنج بخش نے درست ہی تو کہا تھا کہ ”جس سچ میں جھوٹ کی آمیزش شامل ہے اس کوئی نہ اختیار کرے”

 بشکریہ اعتماد

لینک کوتاه:

کپی شد