جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل کو پالیسی بدلنا ہو گی

ہفتہ 20-جون-2009

اوباما کا دورہ مصر مسلمانوں کا اعتماد بحال کرنے کے سلسلہ کی ایک کڑی تھی لیکن کئی سوالات جوں کے توں رہے- فلسطین کا مسئلہ حل طلب ہے- اوباما نے اس سلسلہ میں عرب ممالک کی مذاکرات کرنے کے مطالبے کی تعریف تو کی لیکن امریکی پالیسی واضح نہیں کی-

امریکی صدر باراک اوباما کے دورہ مشرق وسطی کو پوری دنیا کے میڈیا نے خصوصی کوریج دی- دنیا بھر میں اس دورے کو خصوصی اہمیت دی گئی- سی این این نے اپنی ہیڈ لائنز میں کہا کہ ـ’’اوباما مسلمانوں کے دلوں میں مقام بنارہے ہیں ، وہ دل جیتنے جا رہے ہیں-‘‘

عرب ممالک نے اس مسئلہ پر دوبارہ مذاکرات کی دعوت دی ہے جو حوصلہ افزا ہے لیکن اسرائیل کی جانب سے سرد مہری اس مسئلے میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے جیسا کہ گزشتہ برسوں سے اس مسئلہ پر پیشرفت نہیں ہو سکی- صدر اوباما نے بھی اپنے اس دورے میں عرب ممالک کی تعریف کی کہ وہ مذاکرات میں سنجیدہ ہیں-

اوباما انتظامیہ کو اس ذمہ داری کا ادراک ہے کہ اگر اب امریکہ نے اس دورے کے بعد اپنی پالیسی کو واضح نہ کیا اور مذاکرات میں معاونت نہ کی تو ان پر کیا جانے والے اعتماد کسی حد تک متاثر ہو سکتاہے لیکن اسرائیل کی جانب دیکھا جائے کو صورتحال مایوس کن منظر نامہ پیش کر سکتی ہے-

اسرائیل نے عرب ممالک سے تمام تر معاملات میں سرد مہری دکھا کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس مسئلے میں فی الوقت بات چیت کرنے کو تیار نہیں جبکہ اوباما انتظامیہ کی یہ خواہش ہے کہ اسرائیل 2003ء میں ہونے والے فیز1 کے پروگرام پر عمل کرے- اس کے علاوہ غزہ کی پٹی میں انسانی حقوق کی صورتحال کو بہتر بنا کر اہم ضروریات زندگی کی رسائی ممکن بنانا ہو گی- یہ اقدامات عرب ممالک کے مذاکراتی عمل کا مثبت رد عمل ہو سکتے ہیں- اسی طرح اسرائیل متنازعہ علاقوں میں تعمیرات بھی جاری رکھے ہوئے ہے، جو غیر قانونی ہے- اس اقدام سے فلسطینیوں کو ان علاقے سے محروم کیا جا رہا ہے جو سراسر نا انصافی ہے-

کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والے کلنٹن دورے کے مذاکرات بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پائے تھے، فلسطینیوں نے اس پر تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن کلنٹن انتظامیہ کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ مذاکرات نتیجہ خیز رہے- امریکی تعاون سے مصر میں اسرائیلی اور فلسطینی حکام کے درمیان طیبا میں مذاکرات ہوئے جس میں تمام امور پر کھل کر بات چیت کی گئی- تاہم فی الحال اس بات چیت کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں- دوسری جانب ان مذکرات میں امریکہ کے کردار پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات عیاں ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس مسئلے پر نظر رکھے ہوئے ہے-
 
اوباما اس تنازعہ پر ٹھوس، منظم سفارتی مذاکرات چاہتے ہیں- امید کی جارہی ہے کہ اوباما اسرائیل کو مذاکرات کی میز پر لانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ان سب کے بعد ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے- ایران کے بارے میں امریکی تحفظات ختم ہونے والے نہیں ہیں،اس کے خلاف لبرل (امریکی مفادات کا تحفظ کرنے والی ) عرب ریاستوں کو کھڑا کیا جا سکتا ہے جو وقت کی ایک اہم ضرورت بن گیا ہے- اوباما انتظامیہ ایران کے جوہری پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنا تی ہے، اس سلسلے میں اسے لبرل عرب ریاستوں کی حمایت درکار ہے-

اس معاملے میں سیاست اپنی جگہ لیکن زمینی حقائق اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اسرائیل کو پالیسی بدلنے پر مجبور کیا جائے- اوباما کا قاہرہ میں خطاب گو کہ عرب ممالک کے قریب آنے کیلئے تھا لیکن اس بات پر بھی فوکس کیا گیا کہ ایران کے خلاف بھی حمایت حاصل کی جائے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا- اس کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کو چاہئے کہ وہ مذاکرات کے مطالبے پر ثابت قدم رہیں اور امریکہ سے اسرائیل پر دبائو بڑھانے کا مطالبہ کرتے رہیں-
(بشکریہ:اعتماد)

لینک کوتاه:

کپی شد