پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیل کو طاقتور دیکھنے کی امریکی خواہش کی روشنی میں

ہفتہ 13-مارچ-2010

امریکی نائب صدر جوزف بائیڈن نے حال ہی میں اسرائیل کا دورہ کیا ہے۔ مقبوضہ بیت المقدس میں 9 مارچ کو انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو سب سے بڑی فوجی طاقت دیکھنا چاہتا ہے جبکہ انہوں نے اسرائیل میں ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے یقین دہانی کرائی ہے کہ ایران سے کسی بھی قسم کے تصادم میں امریکہ اسرائیل کی بھرپور حمایت کرے گا، گزشتہ عشرے ہم گاہے گاہے اوصاف میں ”مسلمانوں یہودی مفاہمت” کی ضرورت پر کالم لکھتے رہتے ہیں۔
 
اگرچہ پاکستان میں یہودیوں کی معاشرتی تعداد تو نہ ہونے کے برابر ہے اس کے باوجود یہودیوں کے خلاف کچھ حلقے دینی فریضے کے طورپر نفرت پھیلانے کے ذریعے معاشرتی اور سیاسی اہمیت کے حصول میں مگن رہتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے عموماً یہ افراد اسلامی انسانیت کے نمائندہ نہیں بلکہ سطویت اور جذباتیت کے نمائندے ہوتے ہیں کہ اسلام اور قرآن پاک کا منشاء یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف سیاسی اور معاشرتی نفرت پھیلانا ہر گز نہیں ہے ، سورة الکافرون میں کافروں سے بقاء باہمی کا اصول بتایا گیا کہ کافر اپنے دین اور مسلمان اپنے دین پر کاربند رہیں گے بلکہ اسوہ رسول اللہۖ تو یہ ہے کہ آپ نے مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران مسیحیت کے ساتھ محبت اور پیار کا اظہار کیا تھا ایرانی زرتشت مشرک بادشاہت کے مد مقابل رومی مسیحی بادشاہت کی اس وقت کھل کر حمایت کی جب دونوں میں موجودہ شام کی ایک سر زمین پر جنگی تصادم رونما ہوا تھا۔

رسول اللہۖ کی اس محبت اور پیار کے باوجود جب مسیحی روم زرتشت ایران سے ہار گیا تو مشرکین مکہ نے رسول اللہۖ کے مسیحی روم سے پیار اور محبت کا مذاق اڑایا تھا تو سورہ الروم نازل ہوئی جس میں چند سال میں ہی مسیحی روم کی فتح کی بشارت موجود تھی۔ یہ بات آج بھی سورہ الروم کی ابتدائی آیات میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے مسیحی روم کو یہ فتح اس وقت ہو گئی جب بدر کے مقام پر رسول اللہۖ کے نظرئیے اور دین کو کم تعداد میں ہونے کے باوجود مشرکین مکہ پر فتح اور برتری نصیب ہوئی تھی جبکہ رسول اللہۖ کی طرف سے بدر میں مسلمانوں کی فتح کے ساتھ ساتھ مسیحی روم کی شام کی سرحد پر زرتشت ایران پر فتح کو اپنی فتح بتایا جانا۔ مسلمان مسیحی دوستی کا ہی کھلا اظہار ہے۔ یہ رویہ جو رسول اللہۖ نے پیش کیا قیامت تک ہمارے لئے راہنمائی کا سامان ہے۔اسی طرح رسول اللہۖ نے مکہ سے ہجرت کر کے یثرب میں آکر اس شہر کو نیا ”مدینہ” نام دیا تو دوسرا اہم ترین کام سیاسی اور معاشرتی مسلمان یہودی مفاہمت کا معاہدہ کیا جسے میثاق مدینہ کا نام دیا گیا تھا۔

ٹھیک ہے کچھ یہودیوں کو مدینہ منورہ کی ریاستی حدود سے باہر جانے پر مجبور ہونا پڑا تھا لیکن اس کے باوجود میثاق مدینہ کا مسلمان یہودی مفاہمت کا یہ معاہدہ قیامت تک ہمارے لئے سامان راہنمائی بنا رہے گا کہ مسلمان یہودی مفاہمت جائز ہے اور ممکن ہے اور اگر ہو سکے تو اس پر عمل ہونا چاہئے ۔ مدینہ منورہ میں رسول اللہۖ نے یہودیوں سے لین دین کیا تھا جبکہ ایک یہودی عورت کا جنازہ آرہا تھا تو اس کے احترام میں رسول اللہۖ اٹھ کر کھڑے ہو گئے تھے۔

کیا رسول اللہۖ کا یہ اسوہ حسنہ ہمارے ان جذبات اور سطحی مذہبی سیاست کرنے والے عالم کی ہدایت کا سامان بن سکتا ہے جو ایم کیو ایم کے ایم این اے تھے اور مشرف کی پسندیدگی سے ہی وزیر مملکت حج بنے تھے اور پھر انہیں صرف جذباتی اور سطحی دینی معاملات کو اچھالتے کردار کی وجہ سے قومی اسمبلی کی رکنیت اور وزارت سے مستعفی ہونا پڑا تھا ، اب اس سیاسی خلاء کو وہ مسلسل یہودیوں کے خلاف نفرت کی تبلیغ کے ذریعے پر کرنے میں اکثر مصروف رہتے ہیں۔
 
قرآن پاک کی آیات کا غلط سیاسی مفہوم وہ اسوہ رسول اللہۖ کے مدمقابل لاتے ہیں اور اکثر ثابت کرتے ہیں کہ یہودیوں سے نفرت قرآنی حکم ہے۔ ہم آج بھی اس مسلمان یہودی مفاہمت کو قابل عمل سمجھتے ہیں جس کی بنیادیں میثاق مدینہ نے استوار کی تھیں اور جس پراندلس کی مسلمان ریاست نے ایک ہزار برس تک عمل کیا تھا کہ اندلس کی مسلمان ریاست میں ایک ہزار سال تک یہودیوں کو پر خلوص درجہ حاصل تھا۔ اسی وجہ سے جب مسلمانوں سے ملکہ ازابیلا اور اس کے متعصب عیسائی شوہر نے اندلس چھینا اور مسلمانوں کو تباہ و برباد کیا گیا تو اس مسلمان تباہی کی طرح ہی یہودی تباہی بھی رونما ہوئی تھی۔
 
یروشلم میں صلیبی جنگوں میں یہودی اس طرح تباہ و برباد کئے گئے تھے جیسا کہ مسلمانوں کے ساتھ تاریخی تباہی وابستہ ہوئی تھی۔ اندلس کا ایک ہزار سالہ تجربہ اور یروشلم میں حضرت عمر کا یہودیوں کو برداشت کرنے کا رویہ وہ اسلامی سیاسی تجربہ ہے جو کامیاب رہا تھا۔ لہٰذاپاکستان میں جو بھی عالم یہودیوں کے ساتھ کھلی نفرت کا درس دیتا ہے وہ محض سطحی اور جذباتی کردار ہے اور اپنے اس روئیے سے گم شدہ اہمیت کو مذہبی رنگ بھر کر حاصل کرنے میں مصروف ہے ۔

ترکی اور مراکش میں یہودیوں کی کافی آبادی ہے۔ کئی مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بھی ہیں جن میںمصر بھی شامل ہے۔ اسرائیل کا قیام جو معاہدہ کے ذریعے برطانیہ نے ممکن بنایا تھا وہ ایک مذہبی یہودی ریاست نہیں بلکہ ایک سیکولر ریاست کا قیام تھا جس میں عربوں کو مکمل آزادی اور سیاسی حقوق ملنا تھے۔ جب اسرائیل کے انتہا پسند حکمرانوں نے سیکولر اسرائیل کی بجائے اسے انتہا پسند اور متعصب یہودی ریاست میں تبدیل کر دیا تو اس سے عربوں میں ردعمل فطری بات تھی۔ عربوں کا یہ ردعمل نصف صدی گزرنے کے باوجود جاری ہے۔
 
امریکی نائب صدر نے اگرچہ واضح اعلان کیا ہے کہ امریکہ اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں بڑی فوجی طاقت دیکھنا چاہتا ہے ۔ لیکن ہماری نظر میں اسرائیل اور امریکہ کو غور کرنا چاہئے کہ انکی کونسی ” سیاسی غلطیاں” ہیں جن کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے مسلمان عرب عوامی سطح پراسرائیل کے مخالف ہیں اور اب یہ عرب عوام امریکہ سے بھی نفرت کرتے ہیں۔ جبکہ یورپی یونین جس کا انداز فکر مسئلہ فلسطین پر امریکہ سے یکسر اب مختلف ہے اس کا عربوں سے تعلق بہتر ہو رہا ہے۔ اگر امریکہ اسرائیل کو طاقتور اور محفوظ بنانا چاہتا ہے تو اس کا راستہ یہ تو نہیں کہ ایران کو ” نشانے” پر رکھا جائے کہ ایران ایک حقیقت ہے جتنا ایران کو دوسرے دبائیں گے وہ فٹ بال کی طرح اتنا ابھرے گا۔

اگر اسرائیل شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز فارمولے کے تحت عربوں کی زمین واپس کر دے اور خود کو ان سرحدوں کا پابند کر لے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بیان شدہ ہیں تو یقینا سعودی عرب اور پاکستان سمیت اکثر مسلمان ممالک اسرائیل کو تسلیم کر لیں گے۔ شام کو جب اسکی گولان کی پہاڑیاں واپس مل جائیں گی اسکی بھی دشمنی اسرائیل سے ختم ہو جائے گی۔ اسرائیل کو سیکولر ریاست بنا کر وہاں پر قیام پذیر عربوں کو سیاسی کردار ادا کرنے کا راستہ کھول دینے سے عالم اسلام سے اسرائیل کی مخالفت ختم کی جا سکتی ہے ہم پہلے بھی یہ نادر سیاسی فارمولہ پیش کرتے رہے ہیں۔ یہ قابل عمل سیاسی فارمولہ ہے۔

مشرق وسطیٰ میں آجکل صرف مصر کے صدر حسنی مبارک امریکہ کے اتحادی ہیں اور ایران کے مدمقابل ہیں ، اسرائیل سے تعلقات کا حامی متحدہ عرب امارات کافی دور ہو گیا ہے ، جبکہ ترکی کی حالیہ سیاسی حکومت کو اسرائیل سے ریاستی تعلقات کے باوجود کچھ کچھ پیچھے ہٹی ہوئی ہے بلکہ وہ سعودی عرب اور ایران سے قرب اپنا چکی ہے۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ کی وساطت سے یہودیوں کے رابطے اور تعلقات کافی گہرے رہے ہیں اور اسرائیل کا بھی رابطہ خاموشی سے رہا ہے۔
 
ہماری نظر میں ماضی میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل مشرف کے عہد میں یہودیوں اور اسرائیل کا پاکستان سے خاموش رابطہ مثبت کام تھا۔ اگرچہ پاکستان تازہ منظر میں اسرائیل سے کافی پیچھے ہٹا ہوا ہے مگر اس کی بنیادی وجہ تو خود اسرائیل ہے جس نے بھارت کا قریبی اتحادی بن کر پاکستان دشمنی کا کردار اپنایا ہوا ہے۔

 
(بشکریہ روزنامہ اوصاف)

لینک کوتاه:

کپی شد