جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل و امریکہ کے ناپاک عزائم

جمعرات 10-اپریل-2008

فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی سفاکانہ جارحیت اور مسلسل مظالم کے باوجود امریکہ نے صہیونی ریاست کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کر کے دنیا بھر کے امن پسندوں اور خاص طور پر مسلم حکمرانوں اور عوام کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ اسرائیل کی سلامتی کے لیے امریکہ کے عزائم کوئی بھی بھلا نہیں سکتا- مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی نائب صدر ڈک چینی نے ایہود اولمرٹ کے ساتھ پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امریکہ اسرائیل پر ایسے اقدامات کرنے کے لیے کسی قسم کا کوئی دبائو نہیں ڈالے گا جس سے اس صہیونی ریاست کی سلامتی کے لیے کوئی خطرہ ہو-
تنازعہ فلسطین کے حوالے سے امریکہ کے ایسے خیالات کوئی نئی بات نہیں ہے- آج سے سات آٹھ دہائی پہلے جب یہ تنازعہ کھڑا کیا گیا تھا، امریکہ اس وقت سے صہیونی پالیسی کی حمایت کرتا چلا آرہا ہے- یہ امریکہ اور برطانیہ ہی تھے جن کی پشت پناہی اور بھرپور تعاون کے نتیجہ میں یہودیوں نے فلسطین کے علاقے پر غاصبانہ قبضہ کر کے اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم کی- مسلمانوں کے حوالے سے خواہ وہ فلسطین کے ہوں یا مقبوضہ کشمیر کے، بوسنیا کے مسلمانوں کا تحفظ ہو یا فلپائن کے مورو مسلمانوں کا ایشو امریکہ نے ہمیشہ جانبدارانہ اور دوغلا کردار ادا کیا ہے اور اندیشہ ہے کہ اگر مسلم ممالک کی جانب سے اس حوالے سے یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کوئی مشترکہ اور ٹھوس مؤقف نہ اپنایا گیا تو امریکہ، اسرائیل، برطانیہ سمیت استعماری قوتوں کا مسلمان اقلیتوں اور مسلمانوں ملکوں کے خلاف یہ رویہ آئندہ بھی جاری رہے گا-
امریکہ کے دوہرے اور دوغلے کردار کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ ایک طرف تو وہ مسئلہ فلسطین حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے لیکن دوسری طرف وہ فلسطینیوں پر اسرائیل کی کھلم کھلا جارحیت کے باوجود اس کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے- لیکن اب معاملہ اس حد پر بھی نہیں رہا بلکہ باوثوق اطلاعات کے مطابق بش انتظامیہ نے اپنی حدود و اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے اسرائیل کو حماس کی حکومت کا تختہ الٹنے کی منظوری دیدی ہے اور اس مقصد کے لیے کٹھ پتلی محمود عباس کو بھر پور اسلحہ کی فراہمی کا عندیہ دے دیا ہے- اسرائیلی منصوبے کے مطابق 2006ء میں غزہ میں قائم حماس حکومت کا خاتمہ کر کے اقتدار فلسطینیوں کے قاتل ٹولے الفتح اور اس کے سرغنہ محمود عباس کے حوالے کرنا ہے تاکہ امریکہ، اسرائیل اور استعماری قوتوں کے منصوبے کی تکمیل کی جاسکے-
دنیا اس حقیقت سے پہلے ہی آگاہ ہے کہ گزشتہ کئی ماہ سے اسرائیل نے غزہ کی ناکہ بندی کررکھی ہے اور غزہ میں اسرائیل کی جانب سے حقوق انسانی کی سنگین خلاف ورزیاں کی جارہی ہیں- ان حالات میں عالمی برادری کی اعتدال پسند قوتوں اور مسلم حکمرانوں بالخصوص عرب حکمرانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ فلسطین کے علاقے میں صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور اسرائیل اور اس کی سرپرست استعماری قوتوں کی جارحانہ پالیسیوں کو ختم کرانے کے لیے مناسب منصوبہ بندی کریں یہ بات طے ہے کہ اگر اب بھی کوئی ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے تو آنے والے وقت میں اس معاملے کو سنبھالنا مشکل تر ہو جائے گا-
عالمی امن کے لیے قائم کی گئی اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اس حوالے سے مناسب کردار انجام نہیں دے سکی اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس پلیٹ فارم سے جب بھی کوئی قرارداد منظور کی جاتی رہی ہے- اسے امریکہ ویٹو کرتا رہا ہے جس سے اسرائیل کے حوصلے بڑھتے رہے ہیں اور مسئلہ فلسطین دن بدن سنگین ہوتا جارہا ہے- اس لیے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عالمی سطح پر اب تک دنیا میں پائیدار امن قائم نہ ہونے کی وجہ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو حاصل ویٹو اختیارات ہی ہیں لیکن فوری طور پر اگر یہ اختیارات ختم نہ بھی کیے جاسکتے ہوں تب بھی امریکہ اور اس کے ساتھ ایک دو کے سوا باقی ویٹو پاور کے حامل ممالک اگر اپنا کردار ادا کریں تب ہی فلسطین اور اس جیسے دیگر تنازعات کے حل کا راستہ نکالا جاسکتا ہے اس کے لیے تمام مسلم ممالک خاص طور پر عرب ملکوں کو راہ ہموار کرنا چاہیے-

لینک کوتاه:

کپی شد