واضح رہے کہاسرائیل اور فلسطین تنازع اس وقت شروع ہوا تھا جب 1948ء میں سب سے پہلے روس اور پھر آہستہ آہستہ باقی دنیا نے بھی اسرائیل کو ایک آزاد خود مختار ریاست کے طور پر تسلیم کرلیا- چونکہ جس جگہ اسرائیل قائم کیا گیا تھا وہ فلسطین کا علاقہ تھا لہذا فلسطینیوں کی جانب سے اس کی مخالفت فطری امر تھا- جس پر اقوام متحدہ نے اس مسئلے کو حل کرنے کی ذمہ داری اٹھائی اور بعد ازاں خود اسرائیل نے بھی عربوں اور فلسطینیوں کے ساتھ کئی معاہدے کیے لیکن اس کے باوجود یہ مسئلہ کسی منطقی نتیجے پر نہیں پہنچا- اس قضیے کے حل نہ ہونے کی کئی وجوہات ہیں- جب عرب ریاستوں نے اسرائیل کو تسلیم نہ کیا تو اس کے نتیجے میں فلسطین میں حالات مزید کشیدہ ہوگئے- دوسری جانب سابق سوویت یونین نے امریکہ اسرائیل اتحاد کے خلاف عربوں کی حمایت کی-
اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کی ایک وجہ 1967ء میں اسرائیل اور عربوں کے درمیان ہونے والی جنگ اور اس کے نتیجے میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد مغربی کنارے پر اسرائیلیوں کی آبادکاری کی کوششیں ہیں- مغربی کنارے پر قبضہ بھی عرب اسرائیل جنگوں کا نتیجہ تھا- اب جبکہ ایہود اولمرٹ کو بعض قانونی پیچیدگیوں کے باعث وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑ رہا ہے اب ان کا مؤقف یہ ہے کہ امن معاہدے کے لیے آبادکاری کے سلسلے کو روکنا ہوگا-
افسوس یہ ہے کہ ایہود اولمرٹ کے مغربی کنارے پر آبادکاری کے اس بیان کی اب وہ اہمیت نہیں رہی جو اس سے پہلے ہوسکتی تھی- اب تک روس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ بش انتظامیہ کی جانب سے وضع کردہ حکمت عملی پر عمل پیرا رہے ہیں جس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکا- اس کے ساتھ ساتھ یہودی آبادکاری کا سلسلہ بھی جاری رہا ہے-
ایک اندازے کے مطابق مغربی کنارے میں آباد یہودیوں کی کل تعداد 290000 ہے- ایہود اولمرٹ کے وزیر اعظم بننے کے بعد مغربی کنارے پر آباد یہودیوں کی تعداد میں 30000 اضافہ ہوا ہے- دوسری جانب مغربی کنارے کو فلسطین کا متوقع دارالخلافہ بھی قرار دیا جاتا رہا ہے- اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے حل کے رستے میں یہودی آبادکاری ہی رکاوٹ نہیں بلکہ غزہ میں حماس کی موجودگی بھی امن معاہدے کے رستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے-
امریکہ جو حماس کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے، کی جانب سے بھی اسرائیل اور فلسطین کے درمیان معاہدے کو قبول کرنے کے ضمن میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی-حقیقی امر یہ ہے کہ مغربی کنارے پر آبادکاری کے دراصل فوجی لحاظ سے اہمیت کی حامل ہے- اس کا ایک مقصد مشرق کی طرف سے اسرائیلی فوجیوں پر حملوں میں کمی واقع لانا ہے-
بش انتظامیہ کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں اس صورتحال میں اب تک کوئی بہتری نہیں آئی اور نہ ہی آنے کی توقع ہے- ہوسکتا ہے کہ ماضی کے حالات کے تحت امریکہ کے آئندہ منتخب ہونے والے صدر مکین یا اوباما اسرائیل کے سربراہ کو مغربی کنارے میں آبادکاری کے منصوبے پر عملدرآمد روکنے کے لیے دبائو ڈالیں- لیکن موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے- بہتر یہی ہے کہ اگر ایہود اولمرٹ تنازع کی اصل حقیقت کو بھانپ گئے ہیں تو وہ اپنے دور حکومت میں ہی آبادکاری کے سلسلے کو روکنے کا آغاز کردیں تو یہ انتہائی خوش آئند ہوگا-
(دی لاس اینجلس ٹائمز)