پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیلی لابی کے آگے مغربی حکمراں بے بس

جمعہ 3-اپریل-2009

ملائیشیا نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ عالمی برادری کے لیے یہ بات کیوں ضروری ہے کہ دنیا میں امن و خوشحالی کے قیام کے لیے اولین اقدام کے طور پر اسرائیلی قائدین کو عدالت میں کھینچ لائے-

گزشتہ سہ شنبہ کو لندن میں ’’غزہ کا قتل عام: عالمی برداری فوری کارروائی کرے‘‘ کے عنوان سے ایک فورم کا انعقاد عمل میں آیا تھا- جسے ملائیشیا کے وزیر خارجہ رئیس یتیم نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینیوں پر اسرائیلی فوج کا جارحانہ حملہ عدالت میں چارہ جوئی کا مستحق ہے- انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص کسی کا قتل کردیتا ہے تو ہم اسے عدالت میں کھینچ لاتے ہیں اور اس کے قاتلانہ ارادے کو ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کے ذرائع استعمال کرتے ہیں- مسٹر رئیس نے کہا کہ لیکن ہم ایک پڑوسی ملک کو آسانی کے ساتھ یہ اجازت دے دیتے ہیں کہ وہ بندوقوں سے ہوائی حملوں کے ذریعہ کیمیائی اسلحہ سے اور ٹینکوں سے ہزاروں لوگوں کو ہلاک کردے- انہوں نے مسلسل 60 سال سے اسرائیل کو ہر جرم سے مستثنی قرار دینے کے رویے کا جواز طلب کیا- انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے گزشتہ سال دسمبر میں غزہ کی پٹی پر بمباری شروع کی- اس کے بعد اس نے کثیر آبادی والے علاقوں پر بری حملے کردیئے-

اسرائیل نے چوتھے جنیوا کنونشن کے قواعد کی خلاف ورزی کی اور سکولوں، مسجدوں، شہری رہائش گاہوں، اقوام متحدہ کی عمارتوں اور سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنایا- اسرائیل کے تین ہفتوں تک جاری رہنے والی جارحانہ فوجی کارروائی میں غزہ پٹی کی معیشت کو 1.6 بلین ڈالر سے زیادہ نقصان ہوا اور اس تاراجی میں 1350 فلسطینی شہید اور 5450 زخمی ہوگئے-
 
ان میں زیادہ تر تعداد غیر فوجیوں کی تھی- اس کے علاوہ اسرائیل نے دیگر جنگی جرائم بھی کیے جن میں کثیر آبادی والے شہری علاقوں پر فاسفورس کے بم برسانہ بھی شامل ہے- کئی عالمی تحقیقاتی اداروں نے اس کا انکشاف کیا ہے- رئیس نے کہا کہ برطانیہ اوردنیا کی طاقتوں نے 1948ء میں جو اسرائیل کو فلسطینی سرزمین پر اپنی حکومت قائم کرنے کی اجازت دی تھی، اس سے انسانیت پر جو مصائب آئے ان میں فلسطینیوں کا حصہ زیادہ تھا- اسرائیلی مملکت کے قیام کے ذریعہ فلسطینیوں کو ان کے وطن سے محروم کردیا گیا-

دنیا کی اسرائیل کے خلاف متحرک نہ ہونے کے سبب 60 سال کے عرصہ میں اسرائیل کے حوصلے بڑھ گئے اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ اسے سزا دینے کے اقدامات عالمی برادری نہیں کرسکتی- اسے یقین ہوگیا کہ ہمیشہ امریکی حکومت اس کی پشت پناہی کرے گی- اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ جب تک ویٹو کے طریقہ کار سے سلامتی کونسل کو کنٹرول کیا جاتا رہے گا اسرائیل پر کبھی پابندیاں عائد نہیں کی جاسکتیں اور اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا جاسکتا- اقوام متحدہ میں اب تک کم سے کم اسرائیل کے خلاف 45 قراردادوں کو امریکہ نے ویٹو کردیا اور فلسطینیوں کی آبادی کے خلاف اسرائیل کے جرائم کی مذمت کا راستہ روک دیا-
 
اسرائیل کو امریکہ سے اسلحہ کی فراہمی کا سلسلہ جاری ہے جس کے نتیجہ میں فلسطینیوں کے خلاف عام تباہی کے ہتھیار استعمال کیے جارہے ہیں اور غزہ کی پٹی پر ہونے والا یہ جارحانہ حملہ عالمی طاقتوں کی جانب سے 1948ء میں صہیونی ریاست کے قیام کے بعد سے ہونے والے حملوں کا نیا سلسلہ ہے- صہیونیوں کا نعرہ ہے ’’عوام کے بغیر زمین اور زمین کے بغیر عوام‘‘ مشرق وسطی میں اسرائیل کا قیام دراصل براعظم یورپ میں مخالف سام تحریکوں کی وجہ سے یہودیوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا معاوضہ تھا لیکن صہیونیوں نے اس سے فائدہ اٹھایا اوراپنے اقتدار کو فلسطینیوں کے علاقوں تک وسعت دی اور فلسطینی آبادی پر ان کے دہشت گردانہ حملوں میں بعد ازاں اس علاقہ میں مزاحمت اور مسلح جوابی کارروائی کے فلسفہ کو رواج دیا-
 
60 سال سے امریکہ اور یورپ کی طاقتیں فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے اسرائیلی جرائم کی مذمت کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں- یہ مملکتیں صہیونیوں کی طاقتور تنظیموں سے خوف زدہ ہیں جو یورپ اور امریکہ میں اسرائیل کے لیے رائے عامہ ہموار کرتی ہیں- یورپ اور امریکہ کے ممالک مخالف سام کہلانے سے گھبراتے ہیں- ملائیشیا کے ممتاز سیاسدان و سابق وزیر اعظم مہاتر محمد نے فورم کے بعد پریس ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ میرا احساس ہے کہ امریکی صدر باراک اوباما کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں-
 
انہوں نے کہا کہ اکثر امریکی جن میں اوباما بھی شامل ہیں وہ امریکہ میں انہیں حاصل عام تائید کے کھو جانے کے خوف سے اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتے- اسرائیلی لابی امریکہ میں حقیقی معنوں میں طاقتور ہے اور یہی لابی فیصلہ کرتی ہے کہ انتخابات میں کس کو جیتنا ہے اور کسے ہارنا ہے- مہاتر نے اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اسرائیل کو کسی نہ کسی صورت میں کس خطہ میں باقی رکھنا ہے اور وہیں یہ رجحان کہ وہ فلسطینیوں کی زمین پر قبضہ کرتا رہے گا اور فلسطینیوں کو دہشت زدہ کرتا رہے گا- تاہم یہ فلسفہ زیادہ دنوں تک نہیں چلے گا- ملائیشیا کے قائدین کا خیال تھا کہ دنیا میں امن کے قیام کے لیے جنگ کو جرم قرار دینا ضروری ہے- اسرائیل کی غزہ میں حرکت قتل عام کے مترادف ہے-
 
اگر ملائیشیا کی طرح سوچ رکھنے والے ممالک عملاً کچھ نہیں کرسکتے تو انہیں اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق اسرائیل کے جنگی جرائم کے ٹربیونل کے قیام کی کوشش کرنی چاہیے اور یہ ٹربیونل یوگوسلاویہ کے عالمی جرائم کے ٹربیونل کی طرح عالمی ٹربیونل برائے اسرائیلی جرائم سے متاثر ہونے والوں کو کچھ نہ کچھ انصاف ملے گا جس طرح یوگوسلاویہ کے جرائم کے خلاف ٹربیونل کے قیام سے بلقان کے رہنے والوں کو فائدہ ہوا تھا-

لینک کوتاه:

کپی شد