ادھر جب حال ہی میں اسرئیل نے فلسطینی علاقے مشرقی بیت امقدس میں نئی تعمیرات کا کام شروع کیا تو اس پر فلسطینی رہنماوں نے سخت احتجاج کیا اور ان دونوں ممالک کے درمیان ایک اور ٹکراؤ کو روکنے کیلئے امریکی صدر اوباما نے فلسطین کے مسئلہ پر فوری پیش رفت کیلئے اسرائیلی وزیر اعظم ناتھن یاہو کو سرکاری دورے پر واشنگٹن بلایا لیکن اس ملاقات سے پہلے ہی ایک یہودی تنظیم کی دعوت پر خطاب کرتے ہوئے ناتھن یاہو نے اعلان کیا کہ یہودی یروشلم میں تین ہزار سالوں سے تعمیرات کرتے چلے آ رہے ہیں اور آّئندہ بھی کرتے رہیں گے‘ اس پر بارک اوباما اس قدر ناراض ہوئے کہ انہوں نے نیتن یاہو کے اعزاز میں دیا جانے والا ڈنر بھی منسوخ کر دیا تھا نیتن یاہو تو دنیا بھر میں ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے نیو یارک میں ہونے والی کانفرنس میں بھی نہیں گئے کہ اسرائیل کے ایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ان پر تنقید کی جائے گی۔
فلسطین کا مسئلہ کوئی نیا نہیں بلکہ 62 سال پرانا ہے جب دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی کے ہاتھوں یہودیوں کے قتل عام کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے ان کیلئے ایک نیا ملک تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا تو ان دونوں ممالک نے اپنی طاقت کے بل بوتے پر 1948 میں زبردستی فلسطینی علاقوں کو کاٹ کر ان کے درمیان ایک ناجائز بچے کی طرح اسرائیل کی ریاست کو جنم دیا‘ اس وقت بھی مسلم دنیامیں اس کے خلاف شدید احتجاج ہوئے اور کوئی بھی مسلم ملک اس کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہوا ۔
5 جون 1967 کو اسرائیل نے اس بہانے مصر پر (Pre-emptive) حملہ کر دیا کہ وہ اسرائیل پر حملہ کرنے ہی والا تھا جس کی مصر نے اسی وقت تردید بھی کر دی تھی اس حملے میں مصر کی تمام ائیر فورس تباہ کر دی گئی جس کے بعد مصر، شام اور اردن نے ملکر اسرائیل پر جوابی حملہ کیا جس میں ارد گرد کے مسلم ممالک بشمول عراق، سعودی عرب، سوڈان، الجیریا، ٹیونس اور مراکش نے بھی مصر کی تھوڑی بہت مدد کی مگر تیاری مکمل نہ ہونے کی وجہ سے 6 ہی دنوں میں ان کو شکست ہو گئی اور اسرائیل نے مصری سحرائے سینا، غزہ، مشرقی بیت المقدس، ویسٹ بنک، اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر بھی قبضہ کر لیا ‘اس کے بعد بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے غزہ اور صحرائے سینا کے علاقے تو اسرائیل نے خالی کر دیئے مگر باقی علاقوں پر وہ آج تک اپنا غاصبانہ قبضہ جمائے ہوئے ہے۔
1967کی جنگ سے پہلے تک کوئی مسلم ملک اسرائیل کی ریاست کو تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں تھا مگر اسکے بعد اپنی فوجی کمزوریوں کا احساس کرتے ہوئے سب سے پہلے مصر نے اسرئیلی ریاست کو تسلیم کیا اور اس کے بعد بادل نخواستہ آہستہ آہستہ دیگر مسلم ممالک نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی حامی بھر لی بشرطیکہ اسرائیل تمام مقبوضہ علاقے خالی کرکے اپنی 1967 والی سرحدوں کے اندر واپس چلا جائے اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام بھی یقینی بنایا جائے۔
فلسطین میں تین چار مختلف سیاسی جماعتیں اسرائیل کیخلاف بر سر پیکار ہیں ان میں محمود عباس کی قیادت میں الفتح اور خالد مشعل کی قیادت میں حماس زیادہ نمایاں ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں فلسطین اسمبلی کی 134 نشستوں میں سے حماس کو 74 اور الفتح کو 43 نشستیں ملی تھیں اور باقی چھوٹی جماعتوں اور آزاد امیدواروں کے حصے میں آئیں‘ حماس اس پوزیشن میں تھی کہ وہ اکیلے ہی اپنی حکومت بنالے مگر امریکہ نے یہ کہہ کر ان انتخابات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ یہ حماس ایک دہشت گرد جماعت ہے‘ چنانچہ زیادہ اختیارات کے ساتھ الفتح کے محمود عباس کو صدر اور کم اختیارات کے ساتھ حماس کے اسمٰعیل ھنیہ کو وزیراعظم تسلیم کر لیا گیا آج بھی اگر فلسطین کی تمام جماعتیں ملکر ایک جھنڈے تلے اکٹھی ہو جائیں تو فلسطینی عوام کی آزادی کی منزل قریب آ سکتی ہے مگر بیرونی طاقتیں کمال عیاری سے ان میں اتحاد نہیں ہونے دے رہیں جس کے نتیجے میںروزانہ بے گناہ فلسطینی اسرائیلی توپوں اور گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں‘ ان کے بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں جبکہ 57 مسلمان ممالک کے سربراہان دور سے انتہائی بے بسی کی حالت میں خاموشی کیساتھ اسرائیلی ظلم و بربریت کے مناظر دیکھ رہے ہیں۔
کیمپ ڈیوڈ کی ملاقاتوں سے لے کر اب تک کئی دفعہ امریکی سربراہی میں اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکرات ہو چکے ہیں کئی دفعہ امن کیلئے روڈ میپ بھی تیار ہوئے مگر بات ابھی تک وہیں کی وہیں اٹکی ہوئی ہے اور اسرائیل کسی نہ کسی بہانے اپنے بمبار طیاروں اور ٹینکوں کے ساتھ غزہ میں اس طرح گھس جاتا ہے جیسے اپنے باپ کے گھر جا رہا ہو یہی نہیں بلکہ غزہ میں گھس کر وہ حماس کے کارکن ہونے کے بہانے کئی فلسطینی نوجوانوں کو ہلاک کر دیتا ہے اور دوسروں کو گرفتار کرکے قیدی بنا کر اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔
بظاہر اسرائیل کہتا ہے کہ مشرقی بیت المقدس پر بات نہیں ہوگی جبکہ باقی علاقوں پر بات ہو سکتی ہے مگر اب تک وہ ان باقی علاقوں پر بھی سیکڑوں یہودی بستیاں بنا چکا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ان فلسطینی علاقوں کو خالی کرنا نہیں چاہتا لیکن جب کبھی تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق فلسطینی نوجوان اسرائیل کے خلاف کوئی قدم اٹھانا شروع کرتے ہیں تو امریکہ دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان امن کے نام پر مذاکرات کا ڈرامہ رچا دیتا ہے۔
اسرائیل بھی اسی ڈرامہ کا ایک ایکٹر ہونے کی وجہ سے چیک پوائنٹس (جو کہ فلسطینی سر زمیں پر بنائے ہوئے ہیں) پہ پابندیاں کچھ نرم کر دیتا ہے یا چند فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیتا ہے اس دفعہ بھی جب مشرقی بیت المقدس میں اسرائیل نے نئی تعمیرات کا کام شروع کیا اور فلسطین میں اس کے خلاف احتجاج شروع ہوئے تو ناتھن یاہو کے کورے جواب سے خفگی کے باوجود اب ایک بار پھر امریکہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات شروع کروانا چاہتا ہے اس مقصد کیلئے پہلے امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن سے اعلان کروایا گیا کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان اگلے ہفتے دوبارہ مذاکرات شروع ہونے کی توقع ہے اسکے ساتھ ہی امریکہ نے اپنے بغل بچے یعنی عرب لیگ سے بھی ایک بیان جاری کروا دیا کہ عرب لیگ ان مذاکرات کا خیر مقدم کرے گی اور اس کے ساتھ ہی جارج مچل کو مڈل ایسٹ کا دورہ کرنے کا حکم دے دیا ‘تاثر یہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ جیسے اس دفعہ سچ مچ فلسطین کے مسئلہ کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اس دفعہ بھی بات نشستند‘ گفتند و برخواستند سے آگے نہیں بڑھے گی شائد اسی لئے فلسطین کی تنظیم Palestine Liberation Organisation (PLO) نے اعلان کیا ہے کہ انکی مجلس عاملہ اپنے اجلاس میں فیصلہ کریگی کہ ان مذاکرات میں وہ شامل ہونگے یا نہیں ہونگے کیونکہ ایک متفقہ ایجنڈہ جس میں غیرمشروط طور پر واضح الفاظ میں اسرائیل کی طرف سے مقبوضہ علاقے خالی کرنے کی یقین دہانی شامل نہیں ہوگی یہ مذاکرات بھی پہلے کی طرح بے معنی ہونگے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح یہودی دنیا بھر کے الیکٹرانک اور پیپر میڈیا کے ساتھ ساتھ بیشتر مالی اداروں پر بھی مکمل کنٹرول کئے ہوئے ہیں ان یہودیوں کے دباؤ سے باہر نکل کر صدر اوباما کوئی منصفانہ فیصلہ کروا سکیں گے؟ یا کشمیر اور افغانستان کی طرح یہ مسئلہ بھی کھٹائی میں پڑا رہے گا؟
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت