دنیائے عرب میں ناسور کی طرح پلنے والے اسرائیل نے ایک بار پھر سفاکی اور بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے درجنوں بے قصور فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان گزشتہ ایک ہفتہ سے کشیدگی اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ 3 اسرائیلی نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد جس طرح سے فلسطین کے 16 سالہ ابوخضیر کو اغوا کر کے بے دردی سے شہید کر دیا گیا، اس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ سرزمین فلسطین ایک بار پھر بے قصوروں کے خون سے لالہ زار بننے والی ہے۔ اسرائیل نے جو فضائی حملہ کر کے 9 فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتارا ہے وہ 2012 ء کے بعد اسرائیل کی جانب سے حماس کے خلاف بڑا حملہ ہے۔ اس حملے سے قبل اسرائیلی رہنما بنجامن نتین یاہو بار بار یہ دھمکی دے رہے تھے کہ وہ غرب اردن میں قتل ہونے والے تین نوجوانوں کے قاتلوں کو ڈھونڈ نکالیں گے۔
انہوں نے فلسطینی تنظیم حماس پر قتل کا الزام عائد کرتے ہوئے ان کے خلاف سخت کارروائی کی بات کہی تھی۔ جب کہ دوسری جانب حماس نے اس سلسلے میں قطعی لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔ ان تین نوجوانوں کی گمشدگی کے دو ہفتے بعد ان کی لاشیں ملی تھیں۔ اس واقعہ کو طول دینے کے لیے ان کی آخری رسومات کے دوران جب کہ ہزاروں افراد موجود تھے، وزیر اعظم کی جانب سے دھمکی آمیز لہجہ اپنایا گیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ مارے گئے ان نوجوانوں کے گھر والوں نے یہ درخواست کی تھی کہ کسی ممکنہ جواب کے بارے میں کوئی گفت و شنید نہ کی جائے لیکن اسرائیل کو تو بس جارحیت کے مظاہرے کا بہانا چاہیے اور اس نے دوسرے ہی دن سے غزہ پر راکٹوں سے حملے کرنے شروع کر دئے۔ اس کے بعد حماس کے جنگجوؤں کے ٹھکانوں پر درجنوں فضائی حملے شروع کر دیے۔ اسرائیل نے ان نوجوانوں کی موت کے لیے حماس کے دو ارکان مروان اور عامر کو ملوث قرار دیا اور ان کے گھروں پر حملے کر کے انہیں تہس نہس کر دیا۔ اسرائیل کی جارحانہ کارروائی یہیں نہیں رکی اور اس نے اتوار کی رات سے رفع کے قریب حماس کے ٹھکانوں پر بڑے پیمانے پر فضائی حملے شروع کر دیے، جن میں 9 فلسطینی جاں بحق ہو گئے اور متعدد افراد کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔
اسرائیل کے اس تازہ حملے سے اس بات کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ ی ٹکراؤ کہیں اور خطرناک صورت نہ اختیار کر لے، جس کے نتیجہ مین فلسطین کے بے قصور افراد کو بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ اسرائیل نے اپنے قیام کے بعد ہی جس طرح کی ظالمانہ کارروائیاں جاری رکھی ہیں وہ اپنے آپ میں مہذب اور انسانیت دوست دنیا کے لیے باعث شرم ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں ادھر کچھ عرصہ سے جو باہمی تصادم اور ٹکراؤ کی صورت حال ہے، اس نے اسرائیل کے ناپاک حوصلوں کو اور بلند کر دیا ہے۔ عرب بہاریہ کے نام پر لیبیا ہو یا مصر یا پھر تیونس ، ہر جگہ عوام اور برسر اقتدار تبقہ ایک دوسرے سے بر سر پیکار نظر آرہا ہے۔ لیبیا اور تیونس میں انقلاب کے بعد مطلق العنان حکمرانوں سے نجات تو ضرور مل گئی لیکن عوام کا حکومت کے بننے اور بگڑنے میں عمل دخل بالکل ختم ہو چکا ہے۔ شام کے اندر خانہ جنگی نے لاکھوں افراد کو موت سے ہمکنار کر دیا۔
مصر میں انقلاب کی کوکھ سے جمہوریت کا جو پودا پنپا تھا اور جس کے نتیجہ میں وہاں عوام کی منتخب کی ہوئی حکومت برسر اقتدار آئی لیکن یہ حکومت مغرب اور خاص طور پر اسرائیل کی آنکھ میں کانٹے کی طرح چبھنے لگی۔ مصر میں پہلی مرتبہ منتخب صدر محمد مرسی کا قصور صرف اتنا ہی تھا کہ انہوں نے فلسطینیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی حمایت کا کھلے عام اعلان کر دیا تھا۔ بس پھر کیا تھا مغرب کے اشارے پر ایک سازش کے تحت فوج اور حسنی مبارک کے قریبی لوگوں نے حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ آج صورت حال یہ ہے کہ محمد مرسی پر کئی سنگین الزامات عائد کر کے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا ہے اور ان کے حامیوں کو دھڑادھڑ موت کی سزائیں دینے کا اعلان کیا جا رہا ہے تاکہ مصری عوام کی حمایت سے اخوان المسلمین کے لوگ کہیں پھر اقتدار پر قابض نہ ہو جائیں اور اس خطہ میں مغرب اور اسرائیل کے مفاد کی راہ میں بہت بڑا روڑا نہ بن جائیں۔
شام کی خانہ جنگی میں تھوڑی بہت کمی آئی تو عراق میں داعش کے جنگجو اٹھ کھڑے ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے عراق کے کئی شہروں پر قبضہ جما لیا۔ کہا جا رہا ہے کہ عراق میں مالکی حکومت کی جانب سے جو غیر متوازن رویہ اپنایا گیا، اس کے رد عمل کے طور پر سنیوں پر مشتمل داعش کے جنگوؤں نے ہتھایر اٹھائے ہیں۔ ایک عجیب تماشہ یہ دیکھنے میں آیا کہ ان جنگجوؤں نے خلافت کا اعلان کرتے ہوئے اپنا خلیفہ بھی مقرر کر دیا ہے۔ ایک عرصہ سے اس خطہ میں مسلکی تفرقہ پھیلانے کی جو ناپاک سازشیں کی جا رہی تھیں، اب اس نئی صورت حال کے تحت اس کو ہوا ملتی نظر آ رہی ہے اور اس بات کا خدشہ ہو چلا ہے کہ کہیں ملت اسلامیہ مختلف حصوں میں تقسیم نہ ہو جائے۔ عراق کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ پہلے ہی بنا لیا گیا ہے۔ کوئی تعجب نہیں ہو گا کہ داعش کے ابھرنے کے بعد عراق کی تقسیم آسان ہو جائے گی۔ مسلم ممالک کی موجودہ صورت حال پر دشمن کی گہری نگاہ ہے اور وہ ہر اس بات کو ہوا دینا چاہتا ہے جو مسلم ملکوں کے درمیان ٹکراؤ کی وجہ بنے۔ آج باہمی ٹکراؤ کے باعث کوئی بھی مسلم ملک اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ ضرورت پڑنے پر وہ اپنے دشمن کا پامردی سے مقابلہ کر سکے۔ اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف جو تازہ جارحانہ کارروائی کی ہے، اس کا مقصد یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنے مخالفین پر دھونس جمانا چاہتا ہے کیونکہ اس کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہے کہ مسلم ممالک اپنے باہمی ٹکراؤ اور باہمی اختلافات کے باعث اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ وہ اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔ دیکھنا یہ ہے کہ مسلم ممالک کب اپنے اصل دشمن کو پہچاہیں گے اور اپنے باہمی اختلافات کو فراموش کر کے اتحادی طاقت کا مظاہر کریں گے۔
بہ شکریہ روزنامہ ’’سحارا‘‘