جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیلی جارحیت کے 60 سال

اتوار 11-مئی-2008

روئی کیرل (ساؤتھ افریقہ برائے انٹیلی جنس امور) کہتے ہیں میرے افریقی نیشنل کانگریس میں شامل ہونے کی سب سے بڑی وجہ 9 اپریل 1948ء کو ہونے والا قتل عام ہے جو اسرائیلی فوج نے معصوم فلسطینیوں پر ڈھایا- یہ سانحہ دیر یاسین نامی قصبہ کا ہے جو مقبوضہ بیت المقدس کے قریب واقع ہے اور اس میں فلسطینی آباد تھے- اس سانحہ میں 254 افراد جن میں بوڑھے، بچے اور خواتین بھی شامل تھیں لقمۂ اجل بنے- ان کو اس سنگدلی کے ساتھ قتل کیا گیا کہ دیکھنے والوں پر بھی خوف طاری ہو جائے-
یہ صرف ان چند واقعات میں سے ایک واقعہ جو میڈیا کی نظروں سے گزرا- ایسے واقعات صہیونی پارٹی کے پلان کا سب سے اہم حصہ ہیں کہ فلسطینی اکثریتی علاقوں سے فلسطینیوں کو بندوق کے بل بوتے پر بے دخل کر کے ان میں یہودیوں کو آباد کیا جاسکے تاکہ یہ اسرائیلی علاقہ کہلائے- فہمی زیان، ایک فلسطینی بچہ تھا اور یہ 1948ء والے سانحہ میں بچ گیا تھا وہ کہتا ہے کہ یہودی فوج نے سارے گاؤں والوں کو گھروں سے نکال کر دیوار کے ساتھ لگا دیا اور پھر گولی ماردی- اس گاؤں والوں میں میرے دادا، دادی، والدہ، والد، چچا اور بہنیں سب شامل تھے-‘‘
بالم بعد نامی فلسطینی نے اپنی حاملہ بہن کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھا- ان ظالم یہودیوں نے چاقو کے وار کر کے اس کی بہن کا پیٹ چاک کردیا تھا-
ایک یہودی فوجی مئیر پال نے اپنے افسران کو رپورٹ دی کہ دوپہر کے وقت جنگ کا خاتمہ ہو چکا تھا، کوئی مزاحمت نہ تھی لیکن گاؤں پر گولہ باری جاری تھی- فوجیوں نے تمام کا تمام اسلحہ چلایا اور ہر اس آدمی کو گولی ماری جو ان کی نظروں سے گزرا، حالانکہ وہ کوئی مزاحمت نہیں کررہے تھے لیکن افسران نے کوئی توجہ نہ دی اور نہ ہی اس آگ کے کھیل کو روکنے کے لیے حکم جاری کیا- 25 کے قریب آدمیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر ذبح کیا گیا اور بچوں اور بوڑھوں افسر رچرڈ کیٹلینگ کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سانحہ میں بہت ساری نوجوان لڑکیوں سے یہودی فوجیوں نے زیادتی کی اور بعد میں ان کو قتل بھی کردیا گیا-
بہت سارے شیر خوار بچوں کو بڑی بے رحمی کے ساتھ قتل کیا گیا- جیکوئس ڈی رائز جو بین الاقوامی ادارے ریڈ کراس کا ممبر تھا، وہ وہاں پہنچا اور وہ کہتا ہے کہ میں نے بہت ساری نوجوان لڑکیوں کو اپنے ہوش و حواس کھوئے ہوئے دیکھا، جن کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا- اس کے بعد میں ایک گھر میں داخل ہوا- اس گھر کا سارا سامان خون میں نہایا ہوا تھا اور میں نے وہاں چند لاشیں دیکھیں جن کو مشین گنوں اور خنجروں سے قتل کیا گیا تھا- جیکوئس اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کسی ذاتی رنجش کا نتیجہ نہیں بلکہ اوپر سے دیئے ہوئے حکم کو بڑی خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک پہنچانے کا نتیجہ ہے- دیر یاسین ان تمام علاقوں کی عکاسی کرتا ہے جن میں مظلوم فلسطینی آباد ہیں-
اسرائیل کے اسک تاریخ دان ایلن پاپ کے مطابق اس نے سانحہ قتل کو ریکارڈ کیا اور اس قتل عام کا مقصد فلسطینی عوام کو ان کے آبائی علاقے سے خارج کرنا تھا- اس مقصد کے حصول کیلئے یہودیوں نے 418 قصبوں کو برباد کردیا اور بعد میں اس پر اسرائیلی بستیاں آباد کیں-
اسرائیل کے پہلے زرعی وزیر آرہن کڑفنگ نے اپنے پہلے اجلاس 1948ء میں اس بات کو قبول کیا تھا کہ وہ اس وقت صہیونی پارٹی اور نازی پارٹی میں کوئی فرق نہیں دیکھ رہا- میں نے اس وقت بھی نازی پارٹی کی مزاحمت کی تھی جب وہ یہودیوں کو قتل کررہی تھی اور آج بھی صہیونی پارٹی کی مزاحمت کرتا ہوں جو بے قصور فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہی ہے کیونکہ حد سے زیادہ ظلم ظالموں کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے-
میڈیا کی معلومات کے مطابق 1965ء کو کفر قاسم نامی گاؤں میں 1950ء کو قیہ گاؤں میں 1960ء میں سموا قصبہ میں 1976ء میں کالیگی میں اور 1982ء  صابرہ، وادی عرو میں 2002ء میں جنین پناہ گزین کیمپ سمیت اسرائیلیوں نے اپنی جارحیت کا ثبوت دیا- نہ صرف لاکھوں فلسطینیوں کو قتل کیا گیا بلکہ ان کو ان کے گھروں سے بے دخل بھی کردیا گیا- 2006ء میں 15 سو لبنانی شہریوں کو اسرائیلی جارحیت کا سامنا کرنا پڑا جو کہ انسانیت کے قتل کا منہ بولتا ثبوت تھا-
اسرائیل اپنی ساٹھ ویں سالگرہ منانے کے قریب ہے- یہودیوں کو اس حقیقت کا پتہ ہے کہ فلسطینی اور مجاہد گروپ ان کو آزاد ریاست تسلیم نہیں کرتے- یہ تمام عالم اسلام کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ دیر یاسین اب یاردشیم نامی آبادی میں تبدیل ہوچکا ہے- اگر عالم اسلام نے یہودی لابی کو جواب نہ دیا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ فلسطین فلسطین نہیں رہے گا بلکہ اسرائیل اور امریکہ کا ایک علاقہ بن کر رہ جائے گا-
 ہر مسلمان فرد کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ فلسطینیوں کی آہ زاری مسلمانوں کیوں کر نہیں سن رہے- امن کا قیام دو برابر کے فریقوں میں ہوسکتا ہے نہ کہ ادنی اور اعلی کے درمیان اور خاص طور پر اس وقت جب اعلی غیر مسلم بھی ہو- اب ہم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم ان کے برابر کھڑے ہو کر فلسطین کی نمائندگی کریں اور ان کو ان کا حق دلوائیں-
(بشکریہ: ’’انصاف‘‘)

لینک کوتاه:

کپی شد