ان آٹھ دنوں میں غزہ میں ایک سو پجہتر افراد شہید ہوئے ، جن میں سے دو تہائی بچے اور خواتین تھیں۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے متجاوز ہے اور ان میں بھی بچوں اور خواتین کا تناسب یہی ہے۔ اسرائیل نے فوجی تنصیبات کو نشانہ بنانے کا دعوی کی ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ تین چوتھائی سے زیادہ اہدااف سرکاری اور غیر سرکاری مقامات تھے، جن میں عام مکانات ، باغات۔ بازار ، پل ، سرکاری ، نجی اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کے تحت چلنے والے اسکول ، ہسپتال ، سڑ کیں ، راہداری کی سرنگیں اور خوراک کے ذخیرے سرفہرست ہیں ۔سرکاری عمارتوں میں بھی نشانہ بننے والی عمارتوں میں بھی وزیراعظم کے دفاتر ، تعلیم اور ثقافت کی وزارت کی عمارتیں اور پولیس اسٹیشن نمایاں ہیں ۔مغربی میڈیا نے انسانی اور مادی نقصانات کا تذکرہ اگر کیا بھی ہے تو سرسری طور پر ، ان کی ساری توجہ اسرائیل کے لوگوں کے حفاظتی بنکرز میں پناہ لینے اور خوف پر مرکوز رہی ہے ،جبکہ فلسطین کے گوشت پوست کے انسانوں ، معصوم بچوں اور عفت مآب خواتین کا خون ، ان کا زخم اور مادی نقصانات اس لائق بھی نہ سمجھے گئے کہ ان کا کھل کر تذکرہ کیا جاتا۔حالانکہ اسرائیل اور غزہ کے لوگوں کے جانی نقصان کا تناسب 31.1اور مالی نقصانات کا تناسب 100.1تھا۔
اسرائیل اور اس کے پشتی بان امریکا اور مغربی ممالک کی طرف سے ایک بار پھر وہی گھسی پٹی بات دہرائی گئی ہے کہ:”اسرائیل نے یہ سب کچھ اپنے دفاع میں کیا”۔ ساتھ ہی یہ کہا گیا کہ حالیہ تنازع کی شروعات بھی فلسطینیوں ہی کی طرف سے ہوئی ہے۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل کی یہ کارروائی سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے اور اس کے ناقابل تردید ثبوت سامنے آ گئے ہیں ۔کمانڈر احمد جعبری کو نشانہ بنانے کی تیاریاں کافی عرصے سے ہو رہی تھیں۔ اسی طرح یہ اسرائیل کی مستقل حکمت عملی ہے کہ وہ وقفے وفقے کے بعد غزہ اور مغربی کنارے کے علاقوں میں بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی کرے اور اس طرح وہ فلسطینی عوام کی مزاحمتی تحریک میں پیدا ہونے والی قوت کو وقفے وقفے سے کچل دے،فلسطینیوں کو اتنا زخم خوردہ کر دیا جائے کہ وہ آزادی کی جدوجہد تو کیا ، اس کا خواب دیکھنا بھی چھوڑ دیں اور مکمل اطاعت اور محکومی کی زندگی پر قانع ہو جائیں۔اس پس منظر میں حماس کی حکمت عملی کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ اسرائیل اور امریکا کے ہر اندازے کے برعکس حماس نے ساری بے سروسامانی کے باوجود اسرائیلی جارحیت کے ہر نہلے پر دہلے کی مار دی ہے۔ جس کا نتیجہ امریکا اور اسرائی کے لیے کوئی اور چارہ نہیں رہا کہ جو تہس نہس کرنے کے دعوے سے میدان میں آئے تھے ، اور جنہوں نے اپنی پونے دو لاکھ مستقل فوج کی مدد کیلیے پجہتر ہزار یزرو بھی بلا لیے تھے، جنہوں نے زمینی حملے کی پوری لام بندی کرنے اور اس کے واضح اعلان کے علی الرغم جو وزیر دفاع ایہود باراک نے حملے کے دوسرے ہی دن کیا تھا کہ :”ہم اس وقت تک نہیں رکیں گے جب تک حماس اپنے گھٹنوں کے بل نہ گر جائے اور جنگ بندی کی بھیک نہ مانگے”،خود جنگ بندی کی بات کرے۔
اسی اسرائیل نے خود اپنے ہی حملے کے پانچویں دن جنگ بند کی بات شروع کر دی اور وہی صدر اوباما جو اقوام متحدہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر مصر کے صدر ڈاکٹر مرسی سے ملاقات کو تیار نہ تھے ، انہیں دود ن میں چار بار ٹیلی فون کرتے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو مصر اور فلسطین بھیجتے ہیں اور آٹھویں دن ایک معاہدہ طے پا جاتا ہے ، جس میں اسرائیل کا کوئی بڑا مطالبہ جگہ نہیں پا سکا۔ حماس کے دونوں مرکزی مطالبات کے دونوں طرف سے بیک وقت ایک دوسرے کی سرحدات کی خلاف ورزی اور دراندازی بند ہو،محض یک طرفہ جنگ بندی جس کا مطالبہ اسرائیل کر رہا ہے تھا ، اس کاکوئی سوال نہیں ۔دوسری بڑی اہم شرط یہ تھی کہ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے اور انسانی اور مال برداری کی نقل و حرکت معمول پر لائی جائے اور اسی طرح ٨٠٠٢ء کے اسرائیل کی طرف سے مسلط کردہ ناکردہ بندی (blockade)کو ختم کیا جائے۔ یہ دونوں مطالبات اسی معاہدے کا حصہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے کو بجا طور پر حماس کی فتح اور اسرائیل کیلیے باعث ہزیمت قرار دیا جا رہا ہے ، جس کے بارے میں اس رائے کا اظہار اب عالمی میڈیا میں کھلے بندوں اور اسرائیل کی حزب اختلاف کی طرف سے برملا کیا جا رہا ہے ۔ لیکن اس صورت حال کو سمجھنے کیلیے چند بنیادی باتوں کو ادراک ضروری ہے:
بلا شبہ فلسطینیوں کا جانی و مالی نقصان زیادہ ہوا، لیکن اگر نقصان کے تناسب کا 2008-09ء کی بائیس روزہ جنگ سے کیا جائے تو بڑا فرق نظر آتا ہے ۔چارسال پہلے کے اسرائیلی آپریشن میں 100فلسطینیوں کی شہادت کے مقابلے میں صرف ایک اسرائیلی ہلاک ہوا تھا ۔ اب یہ تناسب اس کا ایک تہائی ہے یعنی 31فلسطینیوں پر ایک اسرائیلی کی ہلاکت۔
اصل مقابلہ میزائلوں اور راکٹون کی جنگ میں ہوا ہے ، اسرائیل کا منصوبہ یہ تھا کہ جس طرح جون 1967ء کی جنگ میں اس نے پہلے ہی ہلے میں مصر کی پوری فضائیہ اور ہوائی حملے کی صلاحیت کا خاتمہ مصر کے ہوائی اڈوں پر ہی کر دیا تھا ، اسی طرح موجودہ فوج کشی کے پہلے دنوں میں حماس کی راکٹ اور میزائل چلانے کی صلاحیت کو ختم کر دیا جائے گا۔اس نے حملے کیلیے دوسرادن فیصلہ کن اقدام کیلیے رکھا۔ منصوبہ یہ تھا کہ پہلے دن کے حملے کے ردعمل میں حماس جو کارروائی کرے گی۔ اس سے اس کے راکٹ اور میزائل کے ٹھکانوں کی نشاندہی ہو جائے گی۔ دوسری خفیہ معلومات کی روشنی میں دوسرے دن حماس کی اقدامی صلاحیت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ نیز اربوں ڈالر خرچ کر کے اسرائیل کے جو آہنی حصار (Iron Dome)بنا لیا ہے، اس کے ذریعے حماس کی جوابی کاررائی کو بے اثر کر دیا جائے گا۔ان کا اندازہ تھا کہ غزہ سے آنے والے میزائلوں اور راکٹوں کے پچاسی سے نوے فیصد میزائل یہ نظام تباہ کر دے گا اور اسی طرح دوسرے دن ہی فضا پر اسرائیل کی مکمل حکمرانی ہو گی اور غزہ اسرائیل کے سامنے سرنگوں ہو جائے گا۔ لیکن اسے بسا آرزوکہ خاک شدہ
-1 اسرائیل کو توقع تھی کہ وہ پہلے ہی دو دن میں حماس کو مفلوج کردے گا، لیکن حماس نے کسی اعلیٰ صلاحیت کے جدید ترین حفاظتی حصار کے بغیر اپنی اقدامی اور دفاعی صلاحیت کو محفوظ رکھا ، اور پہلے دن اسرائیل کے 100 حملوں کے جواب میں80، دوسرے دن270 کے جواب میں310، اور آخری دن 200 کے جواب میں 120 حملے کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوا لیا اور اسرائیل اور امریکا کو ششدر کردیا۔
-2 اسرائیل کے نہایت ترقی یافتہ (sophisticated) اور مہنگے حفاظتی حصار کے باوجود حماس کے تقریباً50 فی صد میزائل اور راکٹ اس نظام کی گرفت سے بچتے ہوئے اپنا کام دکھانے اور ٹھکانے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔
-3 یہ بات درست ہے کہ تباہی مچانے والے بارود کی مقدار اور صلاحیت کے میدان میں اسرائیل اور حماس کے میزائلوں میں بڑا فرق ہے۔ یہ دعویٰ اسرائیل کی عسکری اور سیاسی قیادت نے کیا ہے کہ اسرائیل کی تباہ کرنے کی صلاحیت ایک ہزار گنا زیادہ تھی۔ اس اعتبار سے جو اصل تباہی ہوئی ہے وہ اسرائیل کے منصوبے کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ لیکن یہ حقیقت کہ وسائل اور صلاحیت کے اس عظیم فرق کے باوجود حماس نے آخری دم تک مقابلہ کیا اور جنگ بندی کے آخری لمحات تک اپنے میزائل برساتا رہا، جو اس کے مقابلے کی صلاحیت کا ناقابلِ تردید ثبوت ہے، اور اس سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ آیندہ کے لیے اس میں اپنی صلاحیت کو ترقی دینے اور اسرائیل کا بھرپور مقابلہ کرنے کی استعداد موجود ہے۔
۴۔ اسرائیل کا خیال تھا کہ حماس کے میزائل اور راکٹ 15 سے 30کلومیٹر سے آگے نہیں جاسکتے، لیکن الحمدللہ، حماس نے اسرائیل کی آخری حدود تک اپنی پہنچ کا ثبوت دے کر اسرائیل اور امریکا کو انگشت بدنداں کردیا۔ تل ابیب، بیت المقدس اور تیسرے بڑے شہر بیرشیوا (Beersheva) کے قرب و جوار میں ہی نہیں، بلکہ اسرائیل کے نو ایٹمی تنصیبات کے مرکز ڈایمونا (Dimona) تک حماس کے میزائل پہنچے ہیں، اور یہ وہ حقیقت ہے جس نے اسرائیل کو اپنے پورے نقشۂ جنگ پر نظرثانی پر مجبور کر دیا ہے۔
۵۔ بلاشبہہ میزائل اور راکٹ ٹیکنالوجی کے حصول میں حماس نے دوسرے مسلمان ممالک خصوصیت سے ایران سے فائدہ اُٹھایا ہے اور اس کا برملا اعتراف بھی کیا ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حماس نے میزائل اور راکٹ دونوں کو بنانے اور انھیں ہدف پرداغنے کی صلاحیت مقامی طور پر حاصل کرلی ہے۔ اسرائیل اور امریکا کی تمام پابندیوں کے باوجود نہ صرف باہر سے اجزاء حاصل کیے ہیں، بلکہ ان اجزاء کو اندرونِ غزہ جمع کرنے (assemble) اور مؤثر طور پر کام میں لانے کا (operationalize ) نظام قائم کیا ہے، اور اسے اسرائیل کی خفیہ نگرانی اور تباہ کن جارحانہ صلاحیت سے محفوظ رکھا ہے۔ اگر مغربی نامہ نگاروں کی یہ روایت صحیح ہے کہ اسرائیل کی فوجی قیادت نے اعتراف کیا ہے کہ جو میزائل اورراکٹ اسرائیل پر داغے گئے ہیں، ان میں سے کم از کم ایک بڑی تعداد غزہ ہی میں بنائی گئی ہے، تو اس پر اللہ کے شکر کے ساتھ حماس کی سیاسی اور عسکری قیادت کو ہدیۂ تبریک پیش کرنا اعترافِ نعمت کا ہی ایک رُخ ہے۔
اگر اسرائیل اور حماس کی اس فضائی جنگ کی حکمت عملی کا ملٹری سائنس اور انٹرنیشنل ہیو منیٹیرین لا کی زبان میں موازنہ کیا جائے تو اسرائیل کے میزائل اور F-16 سے آگ اور خون کی بارش ہمہ گیر تباہی کی، جسے Weapons of Mass Destruction کہا جاتا ہے، قبیح ترین شکل ہے۔ اسرائیل نے ان تباہ کن ہتھیاروں کا بے دریغ اور بے محابا استعمال کیا ہے۔
اس کے برعکس حماس نے جو حکمت عملی اختیار کی ہے اس میں اہتمام کیا گیا ہے کہ دشمن کی صفوں میں بھی جان کا ضیاع نہ ہونے کے برابر ہو، البتہ اسی کے ذریعے مقابلے کی قوت کو جنگ بندی اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کی طرف لایا جاسکے۔ یہی وہ چیز ہے جسے اصل سدِّجارحیت (deterrance) کہا جاتا ہے۔ یہ ہے وہ اصل جنگی منظرنامہ جو اسرائیل اور امریکا کو جنگ بندی اور اس معاہدے تک لایا جو 21نومبر کو طے پایا اور 22 نومبر سے اس پر عمل شروع ہوا۔ اس معاہدے کے تجزیے اور اس کے ان اثرات پر بھی تفصیل سے گفتگو کرنے کی ضرورت ہے، جو اس سے متوقع ہیں۔ فی الحال اس حقیقت کے اعتراف پر بات کو مکمل کرتے ہیں کہ بلاشبہہ حماس اور اہلِ غزہ نے جانوں اور قربانیوں کا نذرانہ کہیں زیادہ ادا کیا، لیکن اسرائیل اور اس کی پشت پر امریکا کی قوت کو چیلنج کرکے اور بے سروسامانی کے باوجود انھیں جنگ بندی کی طرف آنے اور ناکہ بندی کو ختم اور راہداری کھولنے پر مجبور کر دیا ہے جوبڑی کامیابی ہے۔ اس نے نقشۂ جنگ ہی نہیں، سیاسی بساط کو بھی بدل دیا ہے۔
اب اس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کر رہے ہیں۔ صاف نظر آرہاہے کہ ان شاء اللہ اب امریکا کی محکومی اور امریکی سامراجیت کے زیراثر مفادات کی سیاست کا باب ختم ہونے جارہا ہے۔ شہداء کے خون اور مظلوموں کی تمناؤں اور قربانیوں کا یہی تقاضا ہے، تو دوسری طرف یہی ایمان، آزادی اور عزت کا راستہ ہے۔ اب جن نئے امکانات کی راہیں کھل رہی ہیں ان سے پورا پورا فائدہ اُٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اُمت مسلمہ کے سلگتے ہوئے مسائل کو حل کیا جائے اور اتحاد اور خودانحصاری کی بنیاد پر تعمیرنو کی سعی و جہد ہوسکے۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ اور اس کی قیادت کی رہنمائی فرمائے، اور ہم سب کو درست اور بروقت فیصلے کرنے اور صحیح راستے پر چلنے کی توفیق سے نوازے۔ آمین!