جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیلی جارحیت اور امریکی پشت پناہی

اتوار 20-جون-2010

فلسطین کا مسئلہ چند سالوں کا نہیں یہ صدیوں پر محیط ہے اور اس کا موجب کوئی اور نہیں صرف مسلمانوں کی بے حسی اور عرب ممالک کے مغرب کے ساتھ روابط ہیں- اگر خلافت عثمانیہ کے بعد یہ عرب آپس میں متحد رہتے تو حالات اس قدر خراب نہ ہوتے اور آج جو چوہدراہٹ اسرائیل امریکا کے سر پر کر رہا ہے اس کا تو نام و نشان اس صفحۂ ہستی پر نہ تھا-

امریکا اور برطانیہ کو اگر یہودیوں سے محبت تھی اور اگر انہیں یہودیوں پر اعتبار ہوتا تو پہلی جنگ عظیم کے بعد وہ اپنے ملکوں سے نکال کر انہیں بہت دور فلسطین میں آباد کرنے کا نہ سوچتے- فلسطین کا اگر تاریخی جائزہ لیا جائے تو 1920ء سے 1947ء تک یہ تاج برطانیہ کے زیر سایہ رہا- زائنزم کی تحریک مغربی طاقتوں کے اشارے پر چلائی گئی اور چند سو افراد نے اربوں کی تعداد میں مسلمانوں کو ایک طرف چھوڑ اور آج سرے سے جھوٹ اور فریب کو سچ ثابت کرنے پر ڈٹے ہوئے ہیں اور عالمی طاقتیں بھی ان ہی کے موقف کی حمائت کئے ہوئے ہیں-اس شر کی ابتداء اور اس کا بیج بونے والا برطانیہ ہے جس نے یہودیوں کی سازشوں سے تنگ آ کر انہیں خود سے دور کر کے مسلمانوں پر مسلط کرنے کی سازش کی پہلی جنگ عظیم 1916ء کے بعد برطانیہ نے جہاں آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا وہاں پر برطانوی وزیر خارجہ لارڈ آرتھر بلفورڈ نے حکومت برطانیہ کی طرف سے یہودیوں کے لیے فلسطین میں ایک الگ ملک کی سپورٹ کی-

اس طرح اس سازش میں امریکا بھی شریک ہو گیا اور فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی اور اقلیتی یہودیوں کو اکثر یتی ثابت کرنے کی کوششوں میں اسرائیل کا مقدمہ ہر جگہ اسرائیل سے بھی بہتر انداز میں لڑا- ان مغربی ممالک کی سازشوں اور منفی ہتھکنڈوں اور عرب ممالک کے ان مغربی ممالک کے ہاتھوں یر غمال ہونے کے باعث 1949ء میں UNجنرل اسمبلی سے فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کی تجویز کو اکثریت سے منظور کروایا مگر یہی نہیں ان کی سازشیں اور کدورتیں ابھی اور باقی تھی ان دونوں ریاستوں کو معاشی طور پر اکھٹے رہنے، یروشلم کا ایڈمینسٹریٹو کنٹرول UNجو امریکا کی باندی ہے کو دیا گیا، دوسرے لفظوں میں اسرائیل کو دے دیا گیا- امریکا کا سازشیں اور مفاد پرست ٹولہ ان یہودیوں کو جو اقلیت میں تھے اور جن کو دنیا کے کونے کونے سے اکٹھا کر کے ایک جگہ جمع کرنے کی سازش کی گئی- اس طرح انہوں نے زمین کی تقسیم میں بھی اپنے کرامات دکھائے اور وہاں کے رہنے والے اور اکثریت میں ہونے کے باوجود عربوں کو43% اور یہودیوں کو جو وہاں مہاجر تھے کو57%حق دے دیا گیا- بات یہی تک نہیں اس زمین کو تقسیم کرتے ہوئے بھی ان عالمی طاقتوں نے اپنے ہاتھ صاف کئے اور یہودیوں کے حصے میں وہ زمین دی گئی جو ہر لحاظ سے بہتر تھی جبکہ مسلمان عربوں کو اس سے محروم کیا گیا-

1973 میں مصر اور شام نے اسرائیل پر حملہ تو کیا مگر وہاں پرمغربی عالمی طاقتوں نے فورا دخل اندازی کی اور دونوں ممالک کو پسپائی کا شکار ہونا پڑا، اگر عالم اسلام اس وقت ہی غیرت کرتا تو آج کے حالات پیدا ہی نہ ہوتے یہ مغربی ممالک اور ان ہی کی تیار کردہ اقوام متحدہ ، سلامتی کونسل صرف اور صرف اسرائیل اور امریکا کے مفاد کے لئے استعمال ہو رہی ہے اور جہاں ان کا مفاد ہو وہاں پر انہیں تمام طرح کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور ہر طرح کے جرائم نظر آجاتے ہیں مگر اپنے گریبان میں جھانکنے کو یہ تیار نہیں – 1978ء میں کیمپ دیوڈ ایکارڈ نامی معاہدہ اسرائیل، مصر اور امریکا کے درمیان ہوا-
 
مصر کے ساتھ معاہدہ کے ساتھ ہی اسرائیل نے لبنان پر حملہ کر دیا اور 1982ء میں بیروت تک جا پہنچا اور اپنا جابرانہ قبضہ اور تسلط22 سال تک جاری رکھنے کے بعد وہاں سے فوجیں2000 ء میں واپس بلائی- اسرائیل جن کی اپنی شناخت بھی مکمل نہیں یعنی یہ بالکل اس بچے کی مانند ہیں جس کے باپ کا علم نہ ہو سوچنے کی بات ہے یہ بچہ جس کو حرام حلال کا بھی پتا نہیں وہ ایٹمی طاقت کیسے بن گیا؟ اور وہ اسرائیل جہاں کے رہنے والے پوری دنیا سے وہاں اکھٹے کئے گئے ان کا اپنا کوئی ملک ہی نہیں کیسے ہر ملک پر چڑھ دوڑتا ہے- کیونکہ مغربی لابی اس کے ساتھ ہے اور امریکا ان سب کی پشت پناہی کرتا ہے- مگر ہمارے اسلامی ممالک ایک دوسرے کے خلاف ان مغربی ممالک کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں اور ہو رہے ہیں-

غزہ اور مغربی کنارہ 22000سکوئر میل علاقہ ہے جو سمندر کے ساتھ لگتا ہے- 1967ء سے اسرائیل اس پر کبھی حملہ کرتا ہے کبھی قبضہ کرتا اور پھر مسلمانوں کو یہاں یرغمال بناتا ہے اور یہی سلسلہ چلا آ رہا ہے- یہی اسرائیلی پانچ سال قبل غزہ کے اس علاقے کو اپنے حق سے آزاد کہہ چکا ہے مگر جس طرح بھارت کشمیر پر قابض ہے اسی طرح اسرائیل فلسطین اور غزہ پر اور آئے روز اپنے مفادات اور پسند نا پسند کے مطابق اپنے پینتر ے بدلتے ہیں- اس کی وجہ اسلامی ممالک کے اپنے مفادات اور خودی کو امریکا کے ہاتھوں بیچ دینا ہیں- یہ وہی مسلمان ہیں جو حضرت عمر فاروق کے دور میں آدھی دنیا پر حکمرانی کرتے تھے اور آج ان پر یہود اور ہنو د نہ صرف حکمرانی کرتے ہیں بلکہ ان کو اپنے مفادات کی خاطر آپس میں بھی لڑاتے ہیں، اور یہ ہیں کہ سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں- 1993ء میں اسرائیل نے PLO کے ساتھ امن معاہدہ کیا- مگر اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی جماعتوں کے لیڈروں کا قتل جاری رکھا-
 
1994ء  میں سات سال کے قبضے کے بعد اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے سے نکلنے پر رضا مند ہوا- یہاں ایک بات بتاتا چلوں یہودی ذہنیت اتنی خطرناک ہے کہ یہ اپنے مفادات کی خاطر کسی کو بھی نہیں بخشتے یہودیوں نے اپنے ملک کا وزیراعظم بننے کے لئے جو کسوٹی رکھی ہے اس میں یہ بات لازمی ہے کہ وہ شخص درندہ صفت ہو اس کا تعلق کسی قاتل گینگ سے ہونا چاہئے اور پھر سب سے اہم یہ کہ وہ مسلمانوں کا خون بہانے میں مہارت رکھتا ہو، یہ اپنے مفادات کی خاطر کسی کو بھی نہیں بخشتے1995ء میں یہودیوں نے اپنے ملک کا وزیر اعظم یا تزک رابن جو اپنی باقی تمام حصلتوں کے باوجود مسلمانوں کے ساتھ امن کا معائدہ کر کے اس سے مکر نہیں رہا تھا، کو یہودیوں نے قتل کر دیا چونکہ وہ بے ایمانی اور فراڈ میں باقیوں سے ذرا کم تھا جو کہ انہیں قبول نہ تھا-
 
اپریل 1996ء  اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا اور 17 دن تک جاری رکھا اس بمباری میں UN کے شیلٹر پر بھی بم گرایا گیا اور100 افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے مگر اس وقت امریکا کو کوئی انسانی حقوق یاد نہ آئے اور نہ ہیUN حرکت میں آئی ، چونکہ یہ مسلمانوں کا خون تھا اس لیے اس کا بہہ جانا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا-1998ء میں وائی ریور ایکارڈ کے مطابق اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے سے نکلنے گا مگر جنوری 1999میں اسرائیل اس سے مکر گیا- 2000 ء میں مغربی کنارے پر اسرائیل نے باڑ لگانا شروع کیا اور فلسطینی مسلمانوں کو قیدی بنا لیا- جہاں کھانے پینے کی اشیاء تک میسر نہیں ہیں- اور یہ سب کچھ جوتے کھانے والے(بش) کی مرضی سے ہوا – اور  2003ء میں اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے خلاف کارروائیوں میں تیزی لائی گئی چونکہ جارج بش کی مکمل اور کھلی سپورٹ شامل تھی- ایک طرف اسرائیل سیز فائر کرتا ہے اور دوسری طرف حماس کے لیڈروں کو چن چن کر مارے جا تا ہے- 2004

ء میں شیرون نے ایک مرتبہ پھر غزہ سے فوجی انخلاء کا شوشا چھوڑا اور اس دوران بڑے پیمانے پر یہودی آبادکاری کی مہم شروع کی- دوسری طرف مقبوضہ بیت المقدس جہاں مسجد اقصی مسلمانوں کا قبلہ اول اور دنیا پر تیسری مقدس ترین جگہ ہے- جبکہ یہودی مسجد اقصی کی دیوار کے ساتھ اپنی گرجا بنانے اور اس کو اپنے عقیدے کے ساتھ جوڑ کراپنے نا پاک عزائم کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں-
 
اسرائیل نے مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر بھی چلائے، جس میں عورتیں بچے اور بوڑھے افراد کا قتل ہو مگر کسی UN کو کسی اور تنظیم کسی عالمی طاقت کو یہ ظلم نظر نہ آیا- جبکہ اس جبر کے خلاف برسر پیکار حماس کو دہشت گرد تنظیم کہا گیا اور اس میں ہمارے مسلمان ممالک کے لیڈران بھی شامل ہیں جو ان طاقتوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں- مگر حقیقت میں حماس کا 90%کام فلاحی اور سماجی بہتری کا ہوتا ہے جس میں تعلیم ، ثقافت، صحت، مساجد اور کھیلیں وغیرہ شامل ہیں- اسی وجہ سے حماس کو فلسطینی عوام کی مکمل سپورٹ حاصل ہے اور چند ایک غیر جانبدار میڈیا گروپس اس حقیقت کو تسلیم بھی کرتے ہیں

آج امریکا اور دیگر ممالک حماس اور فلسطینی مسلمانوں کو دہشت گرد کہتے ہیں- جبکہ انہیں اسرائیلی دہشت گردی نظر ہی نہیں آتی- اسی طرح کشمیر میں انڈیا بھی اسرائیل ہی کا کردار ادا کر رہا ہے- چند روز قبل فریڈیم فلوٹیلا پر اسرائیلی دہشت گردی ، اور اس پر بھی اسلامی ممالک کے بے حس لیڈران کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے- پاکستان ، افغانستان، عراق اور ایران کو دہشت گرد گرداننے والے یہ مغربی ممالک اسرائیل کے دہشت گردی پر کیوں چپ سادھ لیتے ہیں؟امریکا کو عراق میں WMD’S تو نظر آ گئے تھے مگر اسرائیل کے کیمیائی ہتھیارتو تمام ممالک کےTV سکرین پر دکھائے گئے اور وہ سکول کے بچے بھی دکھائی دیئے جن پر یہ ظلم ہوا اس وقت انہیں دہشت گرد کیوں نہیں کہا گیا- اس وقت امریکا ان پر کیوں نہیں چڑھ دوڑ ا انہیں صرف عراق ، افغانستان اور ایران، پاکستان ہی میں سارے قوانین لاگو کرانے ہیں؟

بحری بیڑے پر قتل عام جو بین الاقوامی پانیوں میں تھا پر حملہ کہاں کا انصاف ہے؟ بھر اسرائیل کا یہ بیان کہ ان لوگوں نے حملہ کیا اور امریکا بہادر کا اس پر کوئی بات کرنے سع پرہیز، اور اسلامی ممالک بے حس بیٹھے ہیں جبکہ ان  ملعونوں نے 100میل پانی کے اندر جا کر ہیلی کاپٹر سے ان نہتے لوگوں پر گولیاں برسائیں اور امدادی سامان لے کر جانے لوگوں کو قتل کر دیا اور زندہ بچنے والوں کو یر غمال بنا یا- اس میں چالیس ممالک کے بوڑھے بچے عورتیں اور مرد شامل تھے-
 
کاش کہ اب تو ان ممالک کو غیرت آ جائے فلسطین کے بے چارے مسلمانوں پہ نہ سہی اپنے اپنے ملک کے ان لوگوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے ہی شاید ان کوجاگ آ جائے، مگر نہیں یہ بے حس ہو چکے ہیں- اسرائیل کی ساری تاریخ اور گزشتہ چند روز کے واقعات کا جائزہ لینے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اسرائیل ایٹمی قوت ہونے کے باوجود کمزور ترین اور گیدڑ کی خصلت سے بھی کہیں زیادہ بزدل ترین ملک ہے- آج اگر عرب ممالک غیرت کریں اور دیگر اسلامی ممالک ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں تو یہ بات یقینی ہے اور مجھے اس بات ک اتنا ہی یقین ہے جتنا اپنے ہونے پہ کہ اسرائیل نہ صرف اپنی حد میں آ جائے گا بلکہ اپنی اوقات سے کم درجے پر رہنے کو بھی تیار ہو جائے گا- مگر اس کے لیے ہمیں امریکی اور مغربی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکا ہوگا ورنہ ہمارا حشر عراق، افغانستان ، فلسطین ، لبنان اور کشمیر میں بے دردی سے مارے جانے والے مسلمانوں سے کہیں زیادہ برا ہو گا- اسلامی ممالک اپنے آپس کے تنازعات ختم نہ بھی کریں لیکن اپنے بیرونی دشمن کے مقابلے متحد ہو جائیں تو سارے معاملات حل ہو سکتے ہیں- میں تہہ دل سے سلام پیش کرتا ہوں سید طلعت حسن کو جس نے پاکستان کی نمائندگی کی اور ان تمام چالیس ممالک کے بہادر افراد میں صرف مسلمان نہیں تھے، جنہوں نے اسرائیل کا ناپاک ، غلیظ اور مکروہ چہرہ بے نقاب کیا- اس کا سب سے زیادہ کریڈٹ ترکی کو جاتا ہے جس نے یہ قدم اٹھایا اور اس پر قائم رہا-

 یا رب کعبہ مسلمانوں کو غیرت ایمانی سے نواز اور ان کے دلوں سے مغرب کے خوف کو نکال کر خوف خدا کا سہارہ عنایت کر -امین

بشکریہ نوائے وقت سنڈے میگزین

لینک کوتاه:

کپی شد