پنج شنبه 01/می/2025

اسرائیلی تھوک سے تحریر کیا گیا فیصلہ

جمعہ 5-فروری-2010

اُس نے بڑی جرأت اور حوصلے سے فیصلے کا ایک ایک لفظ سنا، ایک نظر متعصب جیوری کو دیکھا اور پھراوپر سر اٹھایا کہ جیسے اپنے خالق و مالک کا شکر ادا کر رہی ہو کہ” اے میرے پروردگار!سُنا تھا اور کتابوں میں پڑھا تھا کہ نمرود نام کا ایک شہنشاہ تھا، وہی متکبرو تند خو جسے اپنے خدا ہونے پر یقین تھا اور جس نے تیرے ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کو بھڑکتی ہوئی آگ میں جھونک ڈالا تھا،تُو نے تو ابراہیم علیہ الصلوٰة والسلام کے لیے اُسے سلامتی بنا دیا مگر نمرود جیسے غلیظ کیڑے کو مٹانے کے لیے صرف ایک نحیف و کمزور مچھر کو اُس کے دماغ میں داخل کردیا اور پھر ایک دن اُس نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے اپنا سر توڑ ڈالا، نہ کوئی لشکر اُس کے قتل کو روانہ ہوا اور نا ہی گھمسان کا رَن پڑا…بس نمرود ایک مچھر کے ذریعے انجام کو پہنچا…اور ہاں میرے رب! تُو نے تو اپنی کتاب بلاغت میں مچھر کی مثال بیان کی ہے ، جس پر یہودیوں نے تمسخر اُڑایا تھا، تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر تیرے کلام کی (معاذ اللہ) تضحیک کی تھی اور تُو نے فرمایا تھا کہ اللہ نہیں شرماتا کہ وہ مچھر کی مثال دے …اوراے میرے آقا، اِن ظالموں کے لیے مجھ لاچار و بے بس کو تُونے اپنا وہی مچھر بنادیا ہے ، جس سے یہ خوف زدہ اور سہمے ہوئے ہیں،آج مجھے سزا سنا کر ہنس رہے ہیں، جشن منارہے ہیں مگر تیرا یہ لاغر مچھر اِن کے اعصابوں پر سوار ہے اور ایک دن یہ خود ہی اپنا سر توڑ ڈالیں گے “…

عافیہ کی دعائیں اور الفاظِ تشکر شاید اِس سے بھی زیادہ ہوں کیونکہ اُس کے جذبات کا ترجمان نہ تو کمرہٴ عدالت میں تھا اور نا ہی اُس کے کراچی میں واقع گھر میں موجود ہے ، فیصلہ سنانے کے بعد وہ اُسی پنجرے نما قید خانے میں پہنچا دی گئی جہاں ہر بیس منٹ کے بعد ایک اہلکار پنجرے میں یہ جائزہ لینے کے لیے داخل ہوتا ہے کہ اب عافیہ کیا کررہی ہے؟ اُسی پنجرے میں ایک واش بیسن، پلنگ اور کموڈ موجود ہے اور ہماری باعفت عافیہ اپنی چادر کا پردہ تان کر ضروریاتِ زندگی سے فارغ ہوتی ہے اور پھر اُسی چاد ر سے اپنے آنسوؤں کو پونچھتی ہے …شاید عافیہ کی چادر بھی اِسی لیے کھینچی گئی تاکہ”شہزادوں کی جنگ کے وکلا“ اور منکرین ظلم کو یہ یقین ہوجائے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چادریں بھی کھینچی اور اُتاری گئیں تھیں مگر اِس فرق کے ساتھ کہ عافیہ کی چادر کھینچنے والے چادر کے تقدس سے ناواقف اور عترت رسول کے سروں کو برہنہ کرنے والے آیاتِ حجاب کے قراء تھے…

میرا خیال ہے کہ قوم کی اِس بیٹی کے ساتھ جو کچھ ہوا درست ہی ہوا…غیر اُس وقت تک کسی کی بہن پر نظر ڈالنے سے ڈرتے ہیں جب تک کہ اُنہیں معلوم ہو کہ اِس کے بھائی بڑی غیرت والے ہیں لیکن یہاں تو بیچنے والے ہی ”بھائی“ تھے، اُسی کے گوشت کے ڈالر کھائے اور اب تک جگالی کررہے ہیں…عافیہ کے ساتھ ٹھیک ہی ہوا، وہ ہم بے حِسوں کی بہن کہلانے کے قابل نہ تھی، اُس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں، ہم امداد پر پَلنے والے وہ بِھک منگے ہیں جوشاہراہِ دستور کے اختتام پر کنونشن سینٹر سے پہلے ڈالر کی خوشبو سونگھ کر سمت بدل لیتے ہیں،ہمارے لیے مصر کے کسی بازار کی یا بولی لگانے والوں کی ضرورت نہیں،بَکتے بَکتے ہم خود ہی بِک جاتے ہیں،ہمیں راہوں میں آراستہ و پیراستہ کھڑے ہوکرآقاؤں کو لُبھانا آتا ہے ،ہم نے یہ سوال کبھی نہیں پوچھاکہ قیمت کیا دو گے؟ بس ہمیشہ یہی کہاکہ مال موجود ہے ، کیاکہتے ہو کب لوگے؟…آج عافیہ تو مجرم قرار دے دی گئی ہے اور شایدکم از کم60برس قید کی سزا بھی سن لے مگر جو 60برس جی چکے ہیں اور اب قبر کی قید سے بچنے کے لیے امریکہ اور لندن کے ڈریکولائی تابوتوں کے پیچھے چھپنے کی کوشش کررہے ہیں کیا اُنہیں خبر ہے کہ اُنہیں کس زندان میں ڈالا جائے گا؟وہ یہ کیوں بھول گئے کہ اُن سے سوال ہی نہیں ہوگا، جب پیدا کرنے والا اِس امر پر قادر ہے کہ وہ زندہ دفن کی جانے والی لڑکی سے پوچھے گا کہ وہ کس جرم میں زندہ دفنا دی گئی تو پھر عافیہ کیوں نہ بتائے گی کہ اُسے کن داموں بیچاگیا؟…بس یہاں کے چند دن اور ہیں،عافیہ کے لیے بھی اور اُس کے سوداگروں کے لیے بھی، یقینا عیاشوں کے اچھی طرح کٹ جائیں گے اوربے شک عافیہ کے بھی بیت جائیں گے مگر فیصلے کا میدان سجنا تو اب بھی باقی ہے ، جس دن ہر نفس جان لے گا کہ وہ اپنے ساتھ کیا لے کرآیا ہے …

بڑی ٹھنڈک پہنچائی ہے ہم نے عافیہ کی ماں کے کلیجے کو،ہر اُگتے سورج کے ساتھ اُسے یہ دلاسے دیے کہ”امی جان! آج رات کھانا تیار رکھیے گا، میں عافیہ کو اپنے ساتھ لے کر آؤں گا“ اور ممتا کی ماری عصمت صدیقی ، حسین حقانی کا کئی راتوں تک بس انتظار ہی کرتی رہی کہ کب وہ چوکھٹ سے ہی اپنے بیٹے کی یہ جذباتی آواز سنے گی کہ ”امی جان! آپ کے فرزند نے اپنا وعدہ پورا کردکھایا، باہر آئیے اور دیکھیے میں عافیہ کو لے آیا“…بلاشبہ مجبوریاں ہوں گی،مدت پوری کرنا بھی کیا کم مجبوری ہے مگر یہ مدت گذارتے گذارتے نسیان کا ہر مریض یہ کیوں فراموش کردیتا ہے کہ دوسری مدت بھی آہستہ آہستہ پوری ہورہی ہے ، سوائے اُن کے جنہیں جواب دہی کا یقین ہی نہیں…اور اُس دن وہ بھی اعمال نامے دیکھ کریقینا عافیہ کی طرح چلّائیں گے لیکن صرف چلّائیں گے ، اُس کی طرح بے قصور نہیں ہوں گے…میں سوچتا ہوں کہ وہ کیا سوچتی ہوگی؟ پنجرے میں بیٹھی چھت کو گھورتی اپنے رب سے کیا کیا کہتی ہوگی؟اُس کے تو آنسو بھی بولتے ہوں گے ، زخموں کی سرگوشیاں بھی ہم نوا بن کر درد سے کلام کرتی ہوں گی، بیتا ہوا ہر لمحہ تاریخ بن کر پنجرے میں ٹہر جاتا ہوگا، پلکوں سے رخسار تک پہنچتے پہنچتے آنسو کا ہرقطرہ نہ جانے کتنے مناظرکی گواہی دیتا ہواور پھر جب وہ آنسو پونچھتی ہوگی تو جذب کرتے ہوئے اُس کے ہاتھ معصوم قطروں سے یہ ضرور کہتے ہوں گے کہ گھبرانا مت، تم قید تنہائی میں بہے تھے ، یہ شہادت ہم بھی دیں گے … خدا کا شکر کہ میرا خدا بے نیاز ہے…اب میں آج کا متجدد تو ہوں نہیں کہ ”اگر“ کالاحقہ لگا کر اپنی سوچ کو اُس کی ذاتِ پرنور کی تشریح پر ترجیح دوں اور یہ کہوں کہ” اگر یہ ہوتا تو وہ ہوتا“…ہم غلاموں کے نزدیک تو اُس کے لیے ”اگر“ کا تصور بھی شر ک ہے لہٰذا ایک مرتبہ پھر شکر ادا کروں گا کہ میرا مالک ،میرا آقا، میراپروردگار بے نیاز ہے۔

عاقل خود ہی سمجھ لیں کہ یہ اُس کی بے نیازی ہی ہے جس نے ہم گناہ گاروں کو اب تک سنبھالے رکھا ہے ورنہ تو ناقة اللہ(حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی) کی کونچیں کاٹنے والے صرف ایک شخص کی نافرمانی پرقومِ ثمود کو نشان عبرت بنادیا گیا اور یہاں حبیب اللہ کے نواسے کی گردن کاٹنے پر بھی ہم اب تلک اُس کے غضب سے اُسی کے کرم کے سبب محفوظ ہیں…مجرم عافیہ نہیں ٹہرائی گئی ہے بلکہ یہودی جیوری کے خبثِ باطن نے خیبر اور تبوک سے دھتکارے جانے کا بدلہ لیا ہے کاشانہ ٴ رسالت میں ہماری ماں سیدہ صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا بسنااِن کو جلائے دے رہا ہے ، مرحب کا زمین چاٹنا اِن کے سینوں پر سانپ بن کر لوٹ رہا ہے ،سیدنا موسیٰ علیہ الصلوٰة والسلام کی یہ آرزو کہ خاتم النبیین کے پاپوش کے تسمے کھولنے کا شرف اُن ہی کو حاصل ہو اِن کی مکروہ اناکے دامن کو چھیدے ڈال رہی ہے اور یہ یونہی جل جل کر مر جائیں گے …

میری پیاری بہن عافیہ! ہم اِس قابل تو نہیں کہ تمہیں اپنی بہن کہنے کا حق استعمال کریں لیکن تم سے اتنا ضرور کہیں گے کہ دنیا کی حسین ترین تصاویر ہمیشہ اندھیرے کمرے میں Negativesدھو کر تخلیق کی جاتی ہیں،سو اگر آج تم اپنی زندگی میں اندھیرا محسوس کررہی ہوتو سمجھ لو کہ اللہ رب العزت تمہارے لیے ایک بہترین حیات تخلیق کررہا ہے جو تمہارے بے حس بھائیوں کی طرح فانی نہیں، لافانی ہوگی لیکن ہمیں اِس کا اِدراک نہیں ہوگا…تم صحیح کہتی ہو کہ یہ فیصلہ انصاف کے قلم سے نہیں بلکہ اسرائیلی تھوک سے تحریر کیا گیا ہے توپھر فیصلہ سنانے والے بھی جان لیں کہ پھونکوں سے چراغ بجھتے ہیں، آتش فشاں نہیں…!!!

لینک کوتاه:

کپی شد