مشرقی وسطی امن مذاکرات کے امریکی فریب کی تاریخ کافی پرانی ہے- امریکا 1970ء سے اسرائیل- فلسطین امن مذاکرات میں مبینہ طور پر سر گرم رہا ہے اس کے نتیجہ میں امریکا اب تک فلسطینی اتھارٹی کے سابق صدر یاسر عرفات سے کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کے تحت اسرائیل کو تسلیم کرا چکا ہے-وہ اسرائیل کی بقا کی کوشش کے تحت اسرائیل کے مصر اور اردن سے امن مذاکرات کے فریب کے دوران ہی فلسطینی سرزمین پر قبضہ کیا ہے-1987ء میں فلسطین کے مجموعی علاقوں میں سے 22فیصد خطہ میں عرب آبادی تھی جبکہ1995ء میں عربوں کی آبادی محض دس فیصد رہ گئی –
یہ سب بالکل اسی طرح ہوا کہ کچھ ڈاکو کسی گھر پر حملہ کر کے قبضہ کر لیں اور بعد میں ان ہی ڈاکوئوں میں سے کچھ افراد بظاہر ہمدرد بن کر گھر کے مالک اور ڈاکوئوں کے درمیان مذاکرات کا ڈھونگ کریں- اس اثناء میں گھر کے کچھ افراد کو ڈرا دھمکا کر اور نفسیاتی دبائوڈال کر مہاجرکیمپوں میں بھیج دیں اور ڈاکووں کو گھر کے مزید حصوں پر قبضہ جمانے کا موقع فراہم کر دیاجائے – مشرق وسطی امن مذاکرات دنیا میں ایسے پہلے مذاکرات ہیں جہاں صرف ایک ہی فریق اسرائیل کو فائدہ پہنچایا گیا ہے-
فلسطین ایسی مظلوم سرزمین ہے کہ جہاں 1917ء میں صرف 2.5فیصد یہودی رہتے تھے- 1947ء جنگ عظیم دوم کے نتیجے میں جب اسرائیل کا قیام عمل میں آیا ، اس وقت فلسطین کے 44 فیصد علاقہ پر عرب آبادی تھی جو 1948ء میں سرزمین فلسطین پر محض دس فیصد عرب رہ گئے- البتہ 2006ء میں عرب آبادی کے تناسب میں اضافہ ہوا اور ان کی تعداد13فیصد ہو گئی-
امریکا نے اسرائیل-فلسطین مبینہ مذاکرات کو ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق پسندیدہ افراد کے ذریعے جاری رکھنے کا ڈرامہ کیاہے- ایک زمانے میں فلسطینی تنظیم آزادی(پی ایل او)کے رہنما یاسر عرفات کو مغربی میڈیا خاص اہمیت دیتا تھا- ان کے ذریعے فلسطین کے موقف کو کمزور کرا کے امریکا کی جانب سے اسرائیل کو روز بروز مضبوط کرنے کی کوش کی گئی-
ایک لمبے عرصہ تک یاسر عرفات کو بین الاقوامی رہنما کے طور پر پیش کیا جاتا رہا لیکن بعد میں یاسر عرفات نے محسوس کر لیا کہ انھیں اسرائیل کے حق میں استعما ل کیا جا رہا ہے، یاسر عرفات نے کچھ حساس موضوعات پر اپنا ذاتی نظریہ دنیا کے سامنے رکھنا شروع کر دیا- اس کے بعد جس طرح یاسر عرفات کی موت واقع ہوئی ہے اور شک کے دائرہ میں ہے- ان کے بعد فلسطین میں محمود عباس عرف ابو ماذن کو صدربنایا گیا- محمود عباس کو بھی یاسر عرفات کی طرح ہی استعمال کیا جا رہا ہے- انھیں بار بار اسرائیل کے حکام سے ہاتھ ملاتے ہوئے دکھایا جاتا رہا ہے تاکہ دنیا یہ سمجھ سکے کہ اسرائیل – فلسطین مذاکرات حقیقی ہیں-
امریکا اور اسرائیل کی جانب سے جاری امن مذاکرات کے فریب کو اس وقت برا جھٹکا لگا جب جنوری 2006ء میں فلسطینی انتخابات میں حماس کو کامیابی ملی- فلسطینی قوم اتھارٹی کی 132ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ میں حماس کو 74نشستوں پر کامیابی ملی جبکہ محمود عباس کی الفتح پارٹی کو محض 45نشستیں ملیں-
ان انتخابات کے نتیجے میں حماس حکومت کے قیام پر امریکا کو اس قدر پریشانی تھی کہ اس نے آج تک حماس حکومت کو یہ کہتے ہوئے تسلیم نہیں کیا کہ بہ قول اس کے حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اس لئے وہ اس حکومت سے کوئی رابطہ نہیں رکھے گا- اب حماس حکومت کے رہنما اور وزیر اعظم اسماعیل ھنیہ ہیں جبکہ محمود عباس صدر کے عہدے پر فائز ہیں- 2006ء سے پہلے فتح تحریک 88میں 68نشستوں پر قابض تھی-
202006ء انتخابات کے بعد سے امریکا نے حماس حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے اور اس کا دعوی ہے کہ جلد اسرائیل- فلسطین مذاکرات شروع ہوجائیں گے- ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی حکومت کو مجوزہ مذاکرات میں شریک کئے بغیر امن مذاکرات بلامعنی نہیں ہو سکتے ْ- ابھی تک حماس حکومت کی جانب سے مجوزہ مذاکرات میں نمائندگی کرنے کی اطلاع سامنے نہیں آئی ہے-
اس پس منظر میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی جانب سے اسرائیل-فلسطین مذاکرات کے جلد شروع کئے جانے سے کسی خاص نتیجہ کی امید نہیں کی جا سکتی – گذشتہ مارچ کے مہینے میں مذاکرات کے امکان اس وقت ختم ہو گئے تھے جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں یہود ی بستیوں کی تعمیر کو نہ روکنے کا اعلان کیا تھا- اس وقت امریکا کے نائب صدر جوزف بائیڈن خطہ کے دورہ پر تھے-
ہلیری کلنٹن نے اسرائیل کے سخت رخ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل نے مشرق یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے کی بات کہہ کر امریکا کی بے عزتی کی ہے لیکن بعد میں امریکا کے مبینہ طور پر تبدیلی کے خواہاں صدر اوباما نے کہا کہ امریکا -اسرائیل تعلقات کسی ایک واقعہ سے متاثر نہیں ہو سکتے اور یہ کہ امریکا اسرائیل کے تحفظ کا پابند ہے-
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ذریعہ امریکا کی بے عزتی کئے جانے کے باوجود اس وقت امریکا اسرائیل-فلسطین مذاکرات صرف اس لئے شروع کرنا چاہتا ہے تاکہ 2006ء میں حماس کے ہاتھوں ناکام ہونے والے اسرائیل کی میڈیا کے ذریعہ امن پسند ملک کی شبیہ بنائی جا سکے- حال ہی میں اسرائیل نے واشنگٹن میں منعقد ہونے والی ایٹمی اسلحہ مخالف کانفرنس میں شرکت نہ کر کے ایک بار پھر واضع کیا ہے کہ وہ نہ تو خطہ میں امن کا خواہاں ہے اور نہ ہی وہ بڑے تباہی والے ہتھیار کم کرنے کو تیار ہے- اس کے علاوہ اسرائیل بار بار ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرنے کی دھمکیاں دیتا رہتا ہے جبکہ آج تک ایسے ثبوت سامنے نہیں آسکتے ہیں کہ ایران ایٹمی توانائی سے بجلی کی پیداوار کے علاوہ ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے-
اسرائیل-فلسطین مذاکرات کی بحالی سے پہلے امریکا کے کہنے پر کچھ عرب ممالک کے وزرائے خارجہ نے فلسطین کے صدر محمود عباس کے ذریعے مذاکرات شروع کرنے کی تجویر کی منظوری دی ہے- عرب وزرائے خارجہ کے اجلاس سے پہلے کویت کے وزیر خارجہ شیخ محمد الصباح نے واشنگٹن میں ہلیری کلنٹن سے ملاقات کے بعد کہا کہ آخر کار ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہ راست مذاکرات شروع ہوں-
امریکا کی جانب سے مشرقی وسطی کے لئے خصوصی ایلچی جارج مچل دو ہفتے میں دو بار پھر خطہ کا دورہ کر چکے ہیں- پہلے دورہ کے موقع پر اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنے کی بات دہرا کر انھیں ناکام واپس کیا تھا-
امریکا اسرائیل سے حرکتیں کرا رہا ہے جس سے دنیا کو محسوس ہوا کہ وہ اپنے محسن امریکا کی بھی نہیں سن رہا- اس سے عرب ممالک ، ایران اور دیگر ملکوں کو محسوس ہوگا کہ اسرائیل مزید مضبوط ہوگیا ہے یا پھر اس سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کریں گے، اگر ان کی سازش کامیاب ہوگئی تو شام اور ایران بہ قول اسرائیل کے حزب اللہ اور حماس کو امداد دینا بند کردیں گے- اسی پس منظر میں اسرائیل فلسطین مذاکرات کا ڈرامہ بھی رچا جائے گااور پھر سے کسی حساس موقع پر اسرائیل سے مذاکرات سے الگ ہونے کا موقع دوہرایا جائے گا-
اس موقع پر فلسطینی عوام کے حقوق پر پھر سے ڈاکا ڈالا جائے گا اور وہاں کے بے گناہ عوام کو لاچار اور مظلوم فلسطینی مزید مظلومیت کے شکار ہوں گے اور ظالم اسرائیل مزید ظلم کرے گا- ان تمام سرگرمیوں سے امریکا کا اسرائیل کو تحفظ دینے کا مقصد بھی حاصل ہوگا اور عرب ممالک پر امریکا کی گرفت بھی مضبوط ہوگی- امریکی نظریہ میں امن مذاکرات کو خطرہ جمہوری طور پر منتخب ہونے والی حماس حکومت کی طرف سے ہے جو ان مذاکرات کے عمل سے اسرائیل کے مظالم میں حصہ نہیں لے رہی-
اب تک کے تجربات کی روشنی میں ہر بار امن مذاکرات کے عمل سے اسرائیل کے مظالم میں اضافہ اور فلسطینی مفادات کو نقصان ہی ہوا ہے- امریکا کی خواہش کے مطابق ہونے والے مذاکرات میں خطے کی تمام غیر جمہوری حکومتیں حمایت کر رہی ہیں جبکہ تمام جمہوری عناصر ان مذاکرات کے خلاف ہیں- دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا بھر میں جمہوریت کی حمایت کرنے والا امریکا اور اس کے اتحادی اس خطے میں غیر جمہوری سیاسی لیڈر شپ کو نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ مضبوط کرتے ہیں- انھیں فلسطین ، لبنان ، عراق اور ایران میں قائم ہونے والی جمہوری حکومتوں کے ساتھ کام کرنے میں پریشانی ہوتی ہے جبکہ اپنے مفادات کیلئے تمام عرب بادشاہوں اور غیر جمہوری رہنمائوں کو تقویت پہنچانے میں انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی