جمعه 15/نوامبر/2024

ابومازن کو کیسے دھوکہ دیا گیا؟

ہفتہ 2-اکتوبر-2010

فلسطینی صدر محمود عباس دنیا کے بدترین مذاکرات کار کا ایوارڈ پانے کے مستحق ہیں ۔ اس وقت دو امکانات میں سے ایک صورت حال کا سامنا کر سکتے ہیں ۔ یا تو مذاکرات معطل کر دئیے جائیں گے یا یہودی آبادکاروں کیلیے تعمیرات کو معطل کر دیا جائے گا۔اس شریف آدمی کیلیے میری تحسین کے باوجود انہوں نے فلسطینی عوام کے مطالبے کو سادہ انداز میں پیش کر کے ایک غلطی کی ہے اور انہوں نے ایک بڑے مطالبے کو ایک سادہ درخواست میں تبدیل کر دیا کہ تمام یہودی بستیوں کی تعمیرات منجمد کر دی جائیں۔ یہ اب ان کی سب سے بڑی خواہش بن چکی ہے ۔ اس عمل میں محمود عباس نے دو فریقوں کو ممنون کیا ہے ۔ ایک انتہا پسند اسرائیلی اور دوسری فلسطینی تنظیم ”حماس” کو جو کسی بھی قسم کے مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کی خواہاں ہیں اور جن کے وہ فریق بھی نہیں ہے۔

صدر محمود عباس نے جائز مطالبات کو ایک ایشو میں تبدیل کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیرات منجمد کر دی جائیں۔ یہ سب یہودیوں کا ایک غیر قانونی عمل ہے ، کیونکہ غیر قانونی بنیادوں پر جو کچھ بھی تعمیر کیا جا رہا ہے وہ غیر قانونی ہی رہے گا۔ چنانچہ یہود کی آبادکاری کے لیے تعمیرات کا خاتمہ ان کی سب سے بڑی خواہش بن چکا ہے۔چہ جائیکہ وہ مقبوضہ علاقوں کی آزادی ، فلسطینی مہاجرین کی واپسی کے حق، بیت المقدس کو مجوزہ فلسطین ریاست کا دارالحکومت بنانے اور آزاد اسر خود مختار فلسطینی ریاست سے قیام کیلیے بات کریں۔

اب محمود عباس خوشی کی نیند سو سکتے ہیں کیونکہ انہیں علم ہو کہ مذاکرات انکے اصرار کی وجہ سے منجمد ہونے کو ہیں ۔ یقینا ایسا ہو گا اور جب محمودعباس چین کی ننید سو رہے ہوں گے تو یہودیوں کیلیے تعمیرات جاری رہیں گی۔ کوئی بھی یہ اعتماد سے کہ سکتا ہے کہ وہ ایک سال کے وقفے کے بعد مذاکرات کی جانب لو ٹ آئیں گے اور تب اسرائیلی ہزاروں مکانات تعمیر کر چکے ہوں گے اور اپنی بستیوں کو مزید توسیع دے چکے ہوں گے اور امریکی صدر باراک اوباما آئندہ صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی تیاری کر رہے ہوں گے۔

اب یہودی آبادکاری کے مطالبے کو منجمد کرنے کی کیا اہمیت ہے اس کا نہ تو یاسر عرفات نے مطالبہ کیا تھا اور نہ شام نے گولان کی پہاڑیوں پر مذاکرات کے وقت ذکر کیا تھا۔

اسرائیلی آبادکاروں نے تعمیرات کا عمل شروع کرے سے قبل محمود عباس کے الٹی میٹیم پر خوشی سے بغلیں بجائی ہیں اور ان کے اخلاقی موقف پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے ۔ جہاں تک عام فلسطینی کا تعلق ہے تو وہ اس موقع کی جانب دیکھ رہا ہے کو بظاہر ہوتا نظر آ رہا ہے اور اس سے مایوسی ہی میں اضافہ ہو گا۔عا م فلسطینی اس معاملے میں حساس ہے کہ اس کے لیڈر کسی کم تر پر بعد میں کوئی معاملہ کر گزریں گے اور 1948کے بعد رونما ہونے والے المیوں ہی کا اعادہ کیا جائے گا۔

فلسطینی صدر نے خود کو ایک مشکل کونے میں مقید کر لیا ہے اور وہ اس سے راہ فرار کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں ۔ انہوں نے امریکی صدر باراک اوباما کا وقت ضائع کیا ہے اور امریکیوں کا معاملہ کاری کا موقع بھی گنوا دیا ہے جس کو وہ زیادہ اہمیت کے حامل ایشوزکیلیے استعمال کر سکتے تھے۔

یہ بہت ہی حیران کن بات ہے کہ محمودعباس اس بات پر زیادہ ہی مشوش تھے کہ یہودی آبادکاری کا عمل دوبارہ شروع ہونے والا ہے لیکن انہیں اس بات پر خوش ہونا چاہیے کہ انہوں نے کچھ حاصل بھی کر لیا ہے اور مذاکرات کے ثالث کا صدر باراک حسین اوباما نے مذاکرات کے نظام الاوقات کو دو سال سے کم کر کے ایک سال کر دیا ہے۔یہ کامیابی یہودیوں کیلیے تعمیرات کو منجمد کرنے سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔

مذاکرات کیلیے ایک سال کے وقت سے معاملات ملتوی ہو سکیں گے۔اس سے سنجیدہ مذاکرات کو جلا ملے گے اور یہودی آبادکاروں کیلیے تعمیرات کا وقت مختصر ہو جائے گا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ اوباما کے پاس2012ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے سے قبل ایک سال کا وقت ہو گا۔

اگر نیتن یاہو یہودی آبادکاروں کیلیے تعمیرات ایک مرتبہ پھر منجمد کردیتے ہیں تو یہ علامتی پسپائی ہو گی اور تعمیرا ت کی معطلی مزید تین ماہ کے لیے برقرار رہے گی۔اگر مزید نوے دن کیلیے تعمیرات پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے تو فلسطینی وفد اس سے کیا حاصل کرے گا؟

یہی وہ وجہ ہے کہ میں نے محمود عباس کو دنیا میں بدترین مذاکرات کار کا ایوارڈ دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ حتی کہ ان کی جانب سے یہودی بستیوں کی تعمیر منجمد ہونے کی صورت میں مذاکرات جاری رکھنے کے اصرار پر کسی نے ان کا شکریہ ادا نہیں کیا۔

حماس کا دعوی ہے کہ ان پر یہ موقف اس نے مسلط کیا ہے ۔ اسرائیل ابھی تک انہیں چیلنچ کر رہا ہے کہ وہ یہودی بستیوں کو منجمد کر دے یا اس کو جاری رکھے۔چنانچہ یہودی بستیوں کی کہانی ہر کسی کے لبوں پر موجود رہے گی ۔ کون پوچھتا ہے : کارروانوں کو یہودی بستیوں میں شمار کیا جائے گا؟کیا ایک گھر میں غسل خانے میں توسیع کوسیٹلمنٹس کی توسیع سمجھا جائے گا؟ کیا ایک سکول کی تعمیر کو یہودی بستیوں کی تعمیر کا حصہ قرار دیا جائے گا؟یہودی بستیاں ایک اسٹوری بن چکی ہیں لیکن فلسطینی اراضی ،القدس اور مہاجرین کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے ؟

لینک کوتاه:

کپی شد