چهارشنبه 30/آوریل/2025

آخری عظیم صلیبی جنگ کی تیاریاں

منگل 27-اپریل-2010

اس وقت عالم اسلام کے دو حصے عظیم جنگوں کے سائے میں ہیں- ایک حصہ افغانستان اور پاکستان پر مشتمل ہے جہاں نو سال سے مہلک جنگ جاری ہے  اور دوسرا حصہ عالم اسلام کا قلب یعنی مشرق وسطی کے ممالک پر مشتمل ہے جن پر "Coming events cast their shadows before” کے انداز میں تیسری عالمی جنگ کے سائے پڑ رہے ہیں جسے انجیل کی آخری کتاب یعنی مکاشفات یوحنا میں "Armagodon”اور حدیث نبوی علی صاحبہ الصلوة والسلام میں ’’الملحمة العظمی‘‘ یا الملحمة الکبری‘‘ قرار دیا گیا ہے-

یہ جنگ کس کی ہے  اور کس کے خلاف ہے، اور اس کے اہداف کیا ہے، ان کو سمجھنے کے لیے قدرے تفصیل کی ضرورت ہے- اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے کے لیے قدرے تفصیل کی ضرورت ہے-اس کے تاریخی پس منظر کو سمجھنے کے لیے اولاً یاد کیجئے کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد کافی عرصہ تک یہ کہا جاتا رہا تھا کہ یورپ نے بیسویں صدی میں دو عالمگیر جنگوں کے نتیجے میں کروڑوں جانوں کا ضیاع اور پورے یورپ کی عبرتناک تباہی کا بوجھ برداشت کیا ہے، اب تیسری عالمگیر جنگ ایشیا میں ہوگی-

مزید برآں گزشتہ صدی تاریخ کے عظیم ترین فلسفی ٹائن بی نے اپنے تصنیف "Civilization on Trial” میں 1950ء میں لکھا کہ ’’اکیسویں صدی کی اصل جنگ کمیونزم اور کیپٹلزم کے مابین نہیں ہوگی اس لیے کہ کمیونزم اس وقت تک اپنے آپ کو قائم نہیں رکھ سکے گا  اس کی بجائے یہ جنگ عیسائیوں اور مسلمانوں کے مابین ہوگی!‘‘  ادھر نبی اکرم نے چودہ سو سال قبل الملحمة العظمی کے بارے میں پیش گوئی دے دی تھی کہ ’’مسلمانو! عیسائی (رومی) تم پر اسی (80) علم لے کر حملہ آور ہوں گے اور ہر علم کے نیچے بارہ ہزار فوج ہوگی اور اس میں ہلاکتوں کا عالم یہ ہوگا کہ اگر ایک باپ کے سو بیٹے ہوں گے تو ننانوے ہلاک ہو جائیں گے اور صرف ایک زندہ بچے گا!‘‘
 
ادھر گزشتہ صدی کے اواخر میں جبUSSR تحلیل ہوگیا  لیکن لوگوں نے دیکھا کہ امریکی اور یورپی الائنس نیٹو کو نہ صرف از سر نو منظم کرنے  بلکہ مزید توسیع دینے کے لیے کوشاں ہے تو کسی نے نیٹو کے چیف سے پوچھا کہ: ’’آپ کا دشمن تو ختم ہو چکا، اب یہ نئی تیاریاں کس کے لیے ہیں؟‘‘ تو اس نے صفائی سے جواب دیا ’’اب ہمیں مسلم فنڈامنٹلزم سے نپٹنا ہے!‘‘ چنانچہ گزشتہ پندرہ بیس سال سے امریکا کے جملہ تھنک ٹینکس اس مسئلے پر غور کر رہے تھے کہ USSR کے خاتمے کے بعد ’’سول سپریم پاور آن ارتھ‘‘ کی جو پوزیشن امریکا کو حاصل ہوگئی ہے اسے اکیسویں صدی میں برقرار رکھنے کے لیے کیا اقدامات ضروری ہیں؟ 

دوسری جانب امریکی حکومت پر یہودی صہیونی لابی اور ان کے عام یہودیوں سے بھی بڑھ کر حمایتی اور مددگار یعنی Prtotestants)WASP  اور ان کے بھی زیادہ جوشیلے عناصر، جو Evenglists اور Born Acain Chrisfans کہلاتے ہیں اور جنہیں اب خود امریکا میں برملا ’’کرسچین زائسٹ‘‘ کہا جارہا ہے، کا دباؤ بڑھ رہا تھا کہ ایک پانچ نکاتی مذہبی ایجنڈے پر عمل شروع کیا جائے  اور چونکہ اس کے لیے فنڈز کی بے تحاشا ضرورت ہوگی جس کی امریکا کے عوام اور اس کے سیاسی اداروں یعنی کانگرس اور سینٹ سے منظوری ضروری ہوگی لہذا کوئی ایسا اقدام کیا جائے کہ پوری امریکی قوم غضب ناک ہو جائے اور کسی بھی حدتک جانے کو تیار ہو جائے  چنانچہ اس خیال کا حامل ایک مقالہ شائع کیا گیا یعنی دوسری جنگ عظیم کے دوران جبکہ یورپ بری طرح تباہ ہو رہا تھا یورپ کی حکومتوں خصوصاً برطانیہ نے پورا زور لگالیا تھا کہ امریکا بھی اس جنگ میں کود پڑے لیکن امریکا ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا  البتہ جب جاپانیوں نے پرل ہاربر کے امریکی اڈے پر تباہ کن حملہ کیا تو امریکی شیر چنگھاڑتا ہوا اپنی کھچار سے نکلا اور جنگ میں کود گیا جس سے جنگ کا پانسہ پلٹ کر رہ گیا تھا  چنانچہ اس مقصد کے لیے امریکی سی آئی اے، اسرائیلی موساد اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کے نیو کانز نے خود نیویارک کے میناروں کے جوڑے (Twin Towers) کو گرایا  اور سابق صدر بش نے اس کی پوری ذمہ داری القاعدہ اور طالبان افغانستان پر ڈال کر خوفناک جنگ کا آغاز کر دیا-

یہ بات اپنی جگہ بالکل واضح ہے کہ یہ کام امریکا اور اسرائیل نے خود کیا- یہ دوسری بات ہے کہ غم و غصے میں پاگل پن کی حدتک پہنچ جانے کے بعد امریکی رائے عامہ اپنی حکومت کے مؤقف کو مانے چلی جارہی ہے  حالانکہ (1) امریکا کی Planned Association کا کہنا ہے کہ یہ ناممکن ہے کہ چڑیوں کے سائز کے چھوٹے چھوٹے جہازوں پر ٹریننگ حاصل کرنے والے نوجوان اتنا عظیم کام کرسکتے- (2) ادھر امریکا ہی کے انجینئرز کا کہنا ہے کہ یہ ٹاورز جہازوں کے ٹکرانے سے ہرگز نہیں گر سکتے تھے  یہ تو صرف Planned Implosionاور  Demolition  Plannedہوسکتی ہے-
 
(3) پھر سوال یہ ہے کہ جب اس بات کی تحقیق کا دائرہ ایک حد سے آگے بڑھنے لگا تو اسے روک کیوں دیا گیا؟  (4) جو جہاز تباہ ہوئے نہ کبھی ان کے مسافروں کی فہرست شائع کی گئی نہ ہی پسماندگان کو کوئی زر تلافی ادا کیا گیا  اور (5) سب سے بڑھ کر یہ کہ پہلے بتایا گیا تھا کہ آٹھ ہزار انسان ہلاک ہوئے بعد میں یہ تعداد 3800 رہ گئی  یہ بقیہ 4200 کہاں گئے؟  عام خیال یہ ہے کہ یہ تعداد ان یہودی کارکنوں کی ہے جو اس روز کام پر آئے ہی نہیں تھے! اس لیے کہ انہیں معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور (6) مزید برآں یہ جب ٹاورز گر رہے تھے اور آگ لگی ہوئی تھی تو ایک قریبی بلڈنگ کی چھت پر کچھ یہودی جمع ہو کر جشن کیوں منارہے تھے اور ویڈیو کیوں تیار کررہے تھے؟ وقس علی ذالک!  بہر حال امریکا نے 9/11 کا ڈرامہ رچانے کے بعد تیسری عالمی جنگ کا بالفعل آغاز کرادیا  اور سابق صدر بش نے اسے ’’کروسیڈ‘‘ قرار دیا- جس پر بعد میں معذرت کرلی! لیکن ہر شخص جانتاہے کہ ’’نل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں – فقیہہ مصلحت ہیں وہ رندہ ہادہ خوار اچھا !‘‘  اس امر کا ایک نہایت اہم اور بین ثبوت کہ ’’یہ آخری صلیبی جنگ ‘‘ کا آغاز ہے، اس سے ملتا ہے کہ فلاڈلفیا (امریکا )سے ’’Evengelists‘‘کا ایک نہایت کثیر تعداد (کروڑوں) میں شائع ہو کر مفت تقسیم ہونے والے ماہنامہ The “Trumptet”Philadelphia  کی اشاعت باب اگست 2001ء میں (نوٹ کرلیجئے …

یعنی 9/11سے صرف ایک ماہ قبل ) اس کے ایڈیٹر نے جلی حروف میں لکھا ہے کہ ’’بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صلیبی جنگ ماضی کا قصہ تھیں ، جو ہمیشہ کے لیے ختم ہوچکی ہیں- لیکن ان کی رائے غلط ہے …..واقعہ یہ ہے کہ اس وقت آخری صلیبی جنگ کے لیے تیاریاں ہور ہی ہیں جو سب سے زیادہ خونریز ہوگی!یہ شہادت الفاظ قرآنی ’’فشھد شاھد من ااھلھا‘‘کے عین مطابق ہے ! اور اس کے یہ الفاظ نہایت قابل توجہ ہیں کہ ’’اس وقت تیاریاں ہو رہی ہیں ‘‘واضح طور پر جان لینا چاہیے کہ جیسے کہ اوپر بیان کیا جاچکاہے اس آخری اور عظیم ترین صلیبی جنگ نے امریکا کے اہداف دوگونہ ہیں- (1)- اپنی ’’سول سپریم پاور آن ارتھ ‘‘ کی پوزیشن برقرار رکھنااور اس کے لیے وسائل کی فراہمی کے لیے دنیا کے ’’عضو ضعیف ‘‘یعنی عالم اسلام پر قبضہ کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی ، اقتصادی اور سماجی نظام کی حفاظت کے لیے کہیں کوئی دوسرانظام سراٹھاتا نظر  آئے تو اسے ’’Nip the Evil in the Bud‘‘کے سے اندازمیں کچل کر رکھ دینا خاص طور پر وہ واحد نظام جو مقابلے میں  آنے کے لیے پر تول رہا ہے یعنی اسلامی نظام اسے کہیں بھی کسی قیمت پر ابھرنے سے روکنا ..اور (2)صہیونیت (یہودی +عیسائی )کے پانچ نکاتی ایجنڈے کی تکمیل ، یعنی (i)جلد از جلد  آرمیگاڈان کا انعقاد (ii)اور اس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل کاقیام – (iii)-مسجد اقصی اور قبةالصخرہ کو منہدم کرنا – (v)-ان کی جگہ قدیم ہیکل سلیمانی کے نقشے پر تھرڈ ٹمپل تعمیر کرنا …..اور اس میں حضرت داؤد کا تخت لگا کر رکھنا (جو فی الوقت برطانیہ کی پارلیمنٹ سے ملحق گرجا Westminster Abbeyمیں رکھا ہے !)تاکہ (v)-اسکے بعد یہودیوں کے نزدیک ان کاموعودہ مسیحا ظاہر ہو کر اور عیسائیوں کے نزدیک حضرت عیسی آسمان سے نازل ہو کر اس تخت پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت کریں !!!اس سلسے کا آغاز افغانستان سے کیا گیا- اس لیے کہ (1)وہاں معدنیات اور تیل کے عظیم ذخائر موجود ہیں (2)وسطی ایشیا کے ممالک سے بھی تیل خلیج فارس تک لانے کے لیے بہترین راستہ وہیں سے گزرتا ہے ….اور سب سے بڑھ کر (3)وہاں طالبان کی حکومت نے بعض شرعی احکام نافذ کرکے یہ معجزہ کر دکھایا کہ افغانستان کے نوے فیصد عاقے میں کامل امن قائم ہو گیا اور امیرالمؤمنین ملا عمر کے ایک فرمان کے نتیجے میں افیون کی کاشت بالکل ختم ہو گئی-

گویا شیطان العین اور اسکے ایجنٹوں کا قدیم اندیشہ کہ ع ’’ہونہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں!‘‘سامنے  گیا- لہذاتاریخ انسانی کی عظیم ترین کولیشن کے ذریعے حملے اور ڈیزی کٹر جیسے مہلک بموں کے استعمال سے طالبان کی حکومت کو کچل کے رکھ دیا گیا- یہاں معاملہ چونکہ مذہبی بھی تھا لہذایورپ اور NATOنے بھی امریکا کا بھرپور ساتھ دیا- افغانستان کے بارے میں بھی ٹائن بی کا یہ بیان لائق ذکر ہے ..کہ افغانستان میں بنیادی اسلامی تہذیب کی جڑیں بہت گہری ہیں اور وہیں سے اسلامی تہذیب دوبارہ ابھرے گی – ‘‘

یہ بات ٹائن بی نے 1930ء میں کہی تھی (حوالہ کے لیے دیکھئے بریگیڈ (ر) مستنصرباللہ کی تالیف ’’ آپریشن خلافت 1996ء )-اسکے بعد عراق پر حملہ کیاگیا- عام خیال یہ ہے کہ امریکا نے وہاں صرف تیل کے لالچ میں حملہ کیا- لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس میں تیل کے لالچ پر مستزاد مخفی ایجنڈا بھی تھا ، چنانچہ عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے فوراً بعد اسرائیل کے اس وقت کے وزیراعظم ارئیل شیرون لعنت اللہ علیہ کے اس بیان نے بھانڈا پھوڑ دیا کہ عنقریب عراق پر ہمارا قبضہ ہو گا اور پہلے تو ہم صرف دریائے فرات تک کے علاقے کا مطالبہ کرتے تھے اب ہمارا مطالبہ دریائے دجلہ تک کے علاقے کا ہے …..گویا یہ گریٹر اسرائیل کی طرف پہلا قدم تھا !اگر چہ وہاں امریکا کی توقعات کے برعکس صورت حال پیش  گئی اور امریکا وہاں پھنس کر رہ گیا …یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ چونکہ عراق کے معاملے میں افغانستان کے برعکس اسلام دشمنی والا عنصر موجود نہیں تھا لہذا یورپی ممالک اس میں شریک نہیں ہوئے !….. آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات بھی ذہن میں تازہ کرلیں کہ نیویارک ٹائمز نے 2005ء میں لکھاتا کہ بش نے سعودی عرب اور پاکستان پر حملے کاحکم بھی جاری کر دیا تھا لیکن اسے امریکی افواج نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ’’We are already over stretched‘‘ اور یہ اس امرکا بین ثبوت ہے کہ یہ اصلاً  خری صلیبی جنگ ہی کانقطہ آغاز تھا !

بہرحال گیارہ ستمبر 2001ء کے فوراًبعد طبل جنگ بجا کر امریکا کے صدر یا وزیرخارجہ نے ہمارے سابق صدر پرویز مشرف سے فون پر دھمکی آمیز انداز میں بات کی ….اور ہمارا نام نہاد کمانڈو صدر ایک ہی دھمکی میں بتاشے کی طرح بیٹھ گیا- ع ’’دھمکی میں مر گیا کہ نہ باپ نبرد تھا اور ان کے جملہ مطالبات تسلیم کرکے عالم یہودیت عیسائیت کی شروع کردہ اس ’’جیوڈ و کرسچین کروسیڈ ‘ میں پاکستان کو جھونک دیا گیا ..یہ سب کچھ کرنے کے بعد اس نے رائے عامہ کو ہموار کرنے کی غرض سے سوسائٹی کے مختلف طبقات سے متعلق لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا- چنانچہ 16ستمبر کی سہ پہر کو ایک اجتماع ’’علماء اور مشائخ ‘‘ کا تھا …جس میں مجھے نہ معلوم کیسے بلا لیا گیا …حالانکہ میرا شمار نہ علماء میں ہے نہ مشائخ میں- بہرحال اس اجلاس میں پہلے صدرمشرف نے اپنے فیصلے کے حق میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ امریکا سے تعاون کا فیصلہ ملک کے بہترین مفاد میں کیا گیاہے انہوں نے کہا کہ ہماری سوچ کی بنیاد سب سے پہلے پاکستان ہونا چاہیے- پاکستان کے مفاد کے حوالے سے انہوں نے چار نکات کا خصوصی ذکر کیا –

1- پاکستان کی سلامتی اور سیکورٹی کا تحفظ یقینی ہوجائے گا –

2- پاکستان کی معاشی حالت بہتر بلکہ مستحکم ہوجائے گی-
3- امریکا کشمیر کے مسئلے کے حل کے لئے مدد کرے گا-
4- پاکستان کے ایٹمی اثاثہ جات کا تحفظ یقینی ہوجائے گا-
بہرال وہاں پر موجو دستر اسی علماء اورمشائخ نے ایک بات متفقہ طور پر،اور پورے زور کے ساتھ کہی کہ تاحال نہ کوئی جرم اسامہ بن لادن کا ثابت ہوا ہے نہ طالبان افغانستان کا تو اس صورت میں انہیں سزا دینا عدل وانصاف کے مسلمہ اصولوں کے خلاف ہے- ہمیں اس میں امریکا کا ساتھ ہرگز نہیں دینا چاہیے !جب مجھے بات کرنے کا موقع ملا تو میں نے عرض کی کہ عین ممکن ہے کہ ان نکات کے حوالہ سے جو پ نے بیان کیے ہیں پاکستان کو وقتی اور ظاہری طور پر کچھ فائدہ حاصل ہوجائے لیکن جلد ہی پاکستان کو بھی عراق اور افغانستان کی طرح امریکی جارحیت کا سامنا کرنا پڑے گا- یعنی ہماری باری بھی آجائے گی- اس لیے اس کی پشت پر اصل کردار یہود اور یہود نواز نیوکان عیسائیوں کاہے ….جن کا اصل ہدف پاکستان ہے گویا اس مجلس کے جملہ شرکاء نے کہاکہ ہمارا یہ یوٹرن عدل و انصاف کے بنیادی تقاضوں کے منافی ہے-
 
امریکا افغانستان یا القاعدہ پر لگائے گئے الزامات کے ثبوت فراہم کے وگرنہ سمجھا جائے گا کہاس کے مقاصد کچھ اور ہیں- میں نے زور دے کر کہاکہ صرف اس بنیاد پر کہ امریکا طاقتور اورزبردست ملک ہے ایک اسلامی برادر ملک کے خلاف کفار کی جارحیت کی حمایت کرنا قومی غیرت اور حمیت کے بھی منافی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ اللہ سے بغاوت ہے کہ ایک مسلمان ملک کے خلاف ایک غیر مسلم حکومت کا ساتھ دیا جائے اور وہ بھی جبکہ اس غیر مسلم طاقت کا موقف بالکل باطل ہواور دوسری جانب ہم نے ابھی تک افغانستان کو تسلیم کیاہوا اور اس کے سفیر ملا ضعیف خود اسلام آباد میں موجود ہیں-

لیکن افسوس کہ ہم سب کی صدانقار خانے میں طوطی کی آواز کی طرح گم ہوگئی- بہرحال افغانستان میں طالبان حکومت کریش کردی گئی اور ملا عمر نے کمال حکمت سے کام لیتے ہوئے طالبان کو منتشر ہو کر اپنے اپنے قبائل میں روپوش ہونے کا حکم دے دیا- لیکن اب مسئلہ پیدا ہوا ان غیر ملکی مجاہدین کا جنہیں خود امریکا اور اس وقت کے اس کے حواری (اسامہ بن لادن سعودی، عمر بن عبدالرحمن مصری اور عبداللہ عزام فلسطینی ) ’’جہاد فی سبیل اللہ ‘‘ کے نام پر مختلف عرب اور غیر عرب ممالک سے لائے تھے کہ وہ کس قبیلے میں پناہ لیں – افغانستان میں ایسی کوئی جگہ نہ پا کر وہ پاکستان کے ملحقہ آزاد قبائلی علاقے باجوڑ اور وزیرستان میں پناہ گزین ہوگئے- اس کے بعد امریکا بہادر تو مطمئن ہو کر ’’شادم از زندیگ خویش کہ کارے کردم ‘‘کے مصداق واپس چلاگیا- لیکن پھر تاریخ نے اپنے آپ کو دہرایا یعنی جیسے کہ برٹش دورمیں بھی کئی دفعہ ہواتھا-
 
تھوڑ ے ہی وقفے کے بعد طالبان نے اپنی پناہ گاہوں سے نکل کر نیٹو اور امریکا کی افواج اور کابل کی کٹھ پتلی کرزئی حکومت کے خلاف چھاپہ مار جنگ شروع کردی …..جس کے لیے پاکستان میں پناہ گزین عرب اور بعض دوسرے ممالک سے  ئے ہوئے مجاہدین نے بھی بارڈر پار کرکے طالبان افغانستان کی مدد شروع کردی- اس لیے کہ وہ تو اسی مقصد کے ساتھ اپنے اپنے ملک کو چھوڑ کر اور گھروں کی آسائشوں کو تج کر افغانستان  آئے تھے ….اس دوران میں پاکستان بھر میں بالعموم اور سرحدی صوبے اور قبائلی علاقوں میں بالخصوص ’’طالبان افغانستان ‘‘ کے حامی اور ہم خیال ’’طالبان پاکستان ‘‘ بھی وجود میں آگئے-
 
اس پر امریکا کی جانب سے پاکستان پر دباؤ ڈالا گیا کہ ان جملہ قوتوں کو خود کچل کر رکھ دو ورنہ ہمیں اجازت دوکہ ہم پاکستان میں داخل ہو کر یہ کام سرانجام دیں- پاکستان نے اولاً طالبان افغانستان کی جانب سے تو صرف نظر کیے رکھا البتہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے بیرونی مجاہدین کو اولاً تو پکڑ پکڑ کر امریکا کے حوالے کرنا شروع کرکیا..(اور اس کے عوض خطیر رقوم بھی وصول کیں، جو نہ معلوم کن تجوریوں میں جمع ہوئیں!)اور بعدمیں خود بھی قتل کرنا شروع کردیا …..لیکن امریکا کا ایک جانب تو پاکستان سے ’’Do More‘‘کا مطالبہ بہ شدت و تکرار ہوتارہا، دوسری جانب امریکا نے پہلے عام میزائلوں اور پھر ڈرون ہوائی جہازوں سے داغے جانے والے  میزائلوں سے حملے شروع کردیے ….صوبہ سرحد کی حکومت کے بعض سنجیدہ اور محب وطن عناصر نے معاملہ کو مذاکرات اور مصالحتوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی تو ایسی ہرکوشش پر امریکا نے ناراضگی کا اظہار کیا اور اس مقام پرمیزائل برسا کر صلح کو سبوتاژ کردیا اور حکومت پاکستان ایسی کسی بھی کوشش کاخاتمہ تو کیا کرتی اس پر احتجاج بھی نہ کرسکی !چنانچہ طالبان اور ان کے حامی عناصر میں یہ خیال جڑ پکڑتا چلا گیا کہ حکومت پاکستان امریکا کی ’’طفیلی حکومت ‘‘ہے اور پاکستان کی فوج امریکا کی ’’مرسزی فوج ‘‘ ہے ….اور اس طرح حکومت اور افواج پاکستان اور دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان کے مابین حالت جنگ پیدا ہوگئی-
 
ادھر دوسری جانب مالا کنڈایجنسی میں جو تحریک 1980ء کی دہائی کے آخری سالوں میں ’’تحریک نفاذ شریعت اسلامی‘‘ کے نام سے مولوی صوفی محمد صاحب کی سرکردگی میں شروع ہوئی تھی اور آغاز میں بالکل پر امن تھی، اور جس سے دوبارمطالبہ مان لینے اور اس پر عمل درآمد کرنیکا وعدہ کرکے خلاف ورزی کی گئی تھی، 1999ء میں پرویز مشرف نے صوفی محمد صاحب کو جیل میں ڈال کر ان کے داماد مولوی فضل اللہ کی قیادت میں عسکری تحریک میں بدل دیا ….اس معاملے میں بھی سرحد کی صوبائی حکومت نے تحریک کے مطالبات کو سرکاری طور پر تسلیم کرتے ہوئے ایک صلح نامہ پردستخط کیے ….لیکن صدر پاکستان کی طرف سے اس کی توثیق کو دو ماہ تک تعویق میں ڈالے رکھاگیا اور جب صوبہ سرحد کی حکومت نے کو لیشن سے علیحدہ ہونے کی دھمکی دی، جس پر پاکستان کی پارلیمنٹ نے اسے منظور کرلیا تو بادل نخواستہ توثیق کی گئی …لیکن اس کے ساتھ ہی بغیر پارلیمنٹ حتی کہ کیبنٹ سے مشورہ لئے بغیر بھرپور فوجی آپریشن شروع کردیاگیا …جوکہ 9/11کے پرویز مشرف کے U turnسے بھی زیادہ بڑی غلطی تھی-
 
اس کے بعد سے جو دن بھی گزر رہاہے ….حالات زیادہ سے زیادہ خوفناک اور ابتر ہوتے چلے جارہے ہیں اور عمل اور اس کے ردعمل …پھر اس کے مزید ردعمل اور پھر اس کے بھی مزید ردعمل پر مبنی ایک شیطانی (Vicious circle)ہے جس کے بھنور میں پاکستان کی کشتی مزید پھنستی نظر   آ رہی ہے !چنانچہ ایک جانب تو تحریک طالبان پاکستان،امریکا اور حکومت پاکستان سے انتقام کے جذبے کے تحت بھرپور تخریبی کارروائیاں کررہی ہے اوراس سلسلے میں یہاں بھی وہ افغانوں کی روایتی اسٹرٹیجی اختیار کرلی گئی ہے کہ ایک بار آرمی نے علاقہ خالی کرلیا لیکن چند روز بعد وہاں پھر کارروائیاں شروع ہو گئیں !مزید بر ں ان کا بھیس اختیار کرکے بہت سے جرائم پیشہ لوگ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں ….

لیکن دوسری جانب امریکا کی پاکستان کے خلاف جنگ کا دوسرا حصہ (Prong)یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ’’را ‘‘ اور ’’موساد ‘‘ اور خو دنیٹو کے ایجنٹوں کے ذریعے بم دھماکے اور خودکش بمباری کے سلسلے میں شدت پیدا کر دی جائے تاکہ پاکستان میں بد امنی مزید شدید ہوجائے اور پھر وہ Destabliseہوجائے تاکہ یہ جواز پیدا ہو جائے کہ مشرق سے بھارت، اور مغرب سے امریکا اور نیٹو کی افواج قیام امن کے بہانے پاکستان میں داخل ہو کر یا تو اس کے حصے بخرے کردیں، یا کم ازکم اس کے ایٹمی دانت توڑ ڈالیں تاکہ پھر پاکستان پوری طرح بھارت کے رحم وکرم پر ہو کہ وہ جو چاہے اس کے ضمن میں فیصلہ کرے (واضح رہے کہ امریکا کی سابقہ وزیرخارجہ کنڈو لیزارائس نے اپنے بھارت اور پاکستان کے  آخری دورے سے واپسی پر امریکا میں بیان دی اتھا کہ ’’پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ امریکا اور بھارت مل کرکریں گے ‘‘بہرحال پاکستان کی سلامتی اورسیکورٹی کی حالت جتنی آج تشویشناک ہے پہلے کبھی نہ تھی- بھارت میں چھوٹا ساحادثہ ہوجائے تو وہ ہم پر چڑھ دوڑتاہے اور پوری دنیاان کی ہم نوابن جاتی ہے اور ہمارے حکمران اس کے سامنے صفائیاں پیش کرنے لگتے ہیں-
 
پاکستان کی معاشی حالت ناگفتہ بہ ہے- اندرونی اور بیرونی قرضوں سے ہماری کمر ٹوٹ چکی ہے- مسئلہ کشمیر اب بھولی بسری کہانی ہے کسی پاکستانی کی زبان پر کشمیر کا ذکر بھی  جائے تو بھارت ناراض ہوجاتا ہے – ہمارے ایٹمی اثاثہ جات یوں محسوس ہوتاہے جیسے سرراہ پڑے ہیں اور ہمارے قومی ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر کو عالمی مجرم بنادیاگیاہے- ہم نے امریکا کا اتحادی بن کر برادر اسلامی ملک جو ہماراہمسایہ بھی ہے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی-

یاد رہے کہ افغانستان پر پاکستان کی سرزمین اور ہوائی اڈوں سے پانچ ہزارسات سو فضائی حملے ہوئے تھے – ہم نے بدترین سفارتی روایت قائم کرتے ہوئے افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو ٹھوکریں مارتے ہوئے امریکاکے حوالے کیا- ہم نے کئی ملکی اور غیرملکی مجاہدین گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیے یہاں تک کہ عافیہ صدیقی جیسی کئی پاکستان کی بیٹیاں امریکا کے قدموں میں ڈال دیں- اس ضمن میں امریکا کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہاس نے ہمیں باور کرادیا ہے کہ یہ امریکا کی نہیں ہماری اپنی جنگ ہے چنانچہ ہم امریکا کی جنگ کو اپنی جنگ بنا کرافغانستان سے پاکستان گھیسٹ لائے- علاوہ ازیں ہم نے قائد اعظم کے قول کی خلاف ورزی کی اور فوج کو قبائلی علاقوں میں بھیج دیا –
 
طیاروں کے ذریعے بمباری کرکے اور بڑی توپوں کے گولوں سے سوات، ملاکنو شمالی اور جنوبی وزیرستان میں خون کی ندیاں بہادیں- ہزاروں معصوم جانیں ہمارے ظلم وستم کی نذز ہوگئیں،بستیاں ویران ہوگئیں، آبادیاں کھنڈرات کانقشہ پیش کرنے لگیں- لوگ بے گھر ہوگئے لیکن امریکا اورمغربی دنیا ہم سے راضی نہ ہوئی Do More Do Moreکی آواز سن کر ہمارے کان پک چکے ہیں- یہ حالات نو سال سے یونہی چل رہے ہیں-ہم ہر قدم پر اس کی مخالفت کرتے آئے ہیں –
 
ہم حکمرانوں سے گزارش کرتے ہیں کہ ہماری نہ سنو اللہ اور اس کی کتاب کی پکار تو سنو، اللہ فرماتاہے :ترجمہ ’’اے ایمان والو! تم مومنوں کو چھوڑکر کافروں کو دوست مت بنائو -‘‘(النساء :144)پھر المائدہ 51میں فرماتاہے :’’اے ایمان والو!تم یہودو نصاری کو دوست مت بنانا وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں‘‘- ہم محسوس کرتے ہیں کہ 2001ء کی طرح امریکا ایک بار پھر ہمیں دھوکہ دے رہاہے- وہ یہ کہ ہم تمہاے دشمن بھارت کو افغانستان کے معاملات سے الگ کردیتے ہیں اور تمہیں مشرقی سرحدوں پر مکمل امن وامان کی ضمانت دیتے ہیں- تم ہمارے ساتھ مل کر طالبان افغانستان کے راہنمائوں کی پہلی صف کو مکمل طورپر ختم کردو یا ہمارے حوالے کردو- ملا عمر کے وفادار طالبان کو مکمل شکست یا انتہائی کمزور کردینے میں نئے عزم کے ساتھ ہماری مدد کرو – ہم افغانستان خالی کرنے کے بعد یہاں پاکستان دوست حکومت قائم کرنے میں تمہاری پوری پوری مدد کریں گے – یعنی ایک بار پھر امریکا چھڑ ی اور گاجر دونوں کا استعمال کر رہا ہے-

حالات و واقعات سے ظاہر ہوتاہے کہ ہمارے حکمران ایک بار پھرا مریکا کے جھانسے میں آگئے ہیں- ہم حکومت پاکستان کو انتباہ کرتے ہیں کہ پہلا دھوکہ کھانے کے بعد  آج ہم خاک و خون میں غلطاں ہیں- بار دیگر دھوکہ سے خاکم بدہن ہم اس پیارے وطن سے مکمل طور پر بھارت کے دست نگر نہ ہوجائیں- ہماری پشت دیوار سے لگ چکی ہے مزید پسپائی اب ہماری موت کا باعث بن سکتی ہے- افغانوں کو شکست دینے کے حوالہ سے ہم حکمرانوں کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ جس قوم کا بچہ گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں پیدا ہو جہاں ماں بچوں کو جنگی ترانے سنا کر لوری دے اور جو قوم اسلحہ کو روٹی پر ترجیح دے اسے شکست نہیں دی جاسکتی – امریکا تو سات سمندر پار واپس چلاجائے گا ہم ہمسایہ کس طرح بدلیں گے – ہمارے نزدیک افغان کامسئلہ صرف یہ حل ہے کہ غیر ملکی فوجیں وہاں سے نکل جائیں اور افغانوں کو خود اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے دیں- ہمیں یقین ہے کہ افغان قوم اپنے معاملات کو سنبھالنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے- بصورت دیگر ہمیں اندیشہ ہے کہ پاکستان بھی عظیم سلطنت عثمانیہ اور عظیم تر یوایس ایس آر کے مانند تاریخ کے اوراق میں گم ہو کر رہ جائے …..اعاذنا اللہ من ذلک !
 

لینک کوتاه:

کپی شد