پنج شنبه 08/می/2025

رپورٹس

مسلسل گرفتاریوں نے فلسطینی طالب علم کی صحت اور کیریئر تباہ کر دیے

فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے رہائشی 25 سالہ نوجوان اورجامعہ بیرزیت کے طالب علم عبدالرحمان حمدان 8 سال سے بار بار گرفتاریوں کی وجہ سے نہ صرف کئی بیماریوں کا شکار ہیں بلکہ ان کا مستقبل بھی تاریک کیا جا رہا ہے۔

السوارکہ خاندان کا قتل عام،اسرائیل عالمی عدالت کے شنکنجے میں آئے گا؟

قابض صہیونی ریاست نے نومبر کے وسط میں فلسطین کےعلاقے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ جارحیت مسلط کی تو حسب معمول بے گناہ فلسطینیوں کے قتل عام کا سلسلہ شروع کردیا۔ اس دوران کئی فلسطینی خاندانوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔

دیوارفاصل فلسطینی اراضی پر فوجی قبضے کا صہیونی ذریعہ!

فلسطینی اراضی پرغاصبانہ قبضہ صہیونی ریاست کا دل پسند مشغلہ ہے اور آئے روز فلسطینیوں کی املاک اور ان کی اراضی کو مختلف حیلوں بہانوں سے غصب کرلیا جاتا ہے۔

مجرم صہیونیوں نے صحافی کی آنکھ میں گولی کیوں ماری؟

معاذ العمارنہ ایک فلسطینی صحافی اور فوٹو گرافر ہے۔ اس کا مشن فلسطینی قوم پر اسرائیلی ریاست کے مظالم کو بے نقاب کرنا اور اپنے کیمرے کی مدد سے دنیا کو صہیونی جرائم سے آگاہ کرنا ہے۔ اس کا یہ مشن اور مقصد صہیونی دشمن کے لیے ناقابل برداشت ہے۔ کوئی فلسطینی جب بھی میدان عمل میں اتر کرصہیونی ریاست کا مقابلہ کرنے یا ان کے جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی بھی طریقہ اختیار کرتا ہے تو صہیونی دشمن اس کا تعاقب شروع کردیتی ہے۔

‘صہیونی زندانوں کی سلاخوں کے پیچھے 29 سال’

قارئین کرام اگرآپ تصور کریں کہ کوئی شخص انتہائی مشکل اور نا مساعد حالات میں زندگی کے مسلسل 29 سال دشمن کی قید میں گذار دے دراں حالیکہ وہ اپنے عزیزواقارب کو بھی نہ دیکھ سکے۔ دوسری طرف دشمن قیدی کی رہائی کے بجائے اور اس کی موت کے لیے حالات سازگار بناتے ہوں تو ایسے قیدی کی زندگی کیسے گذرتی ہوگی۔

السوارکہ خاندان کا اجتماعی قتل عام صہیونی بربریت کا ثبوت

منگل سے جمعرات کے درمیان قابض صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی پر وحشیانہ بمباری کی جس کے نتیجے میں دکھ اور الم کی ان گنت داستانیں سامنے آئیں۔

والد، دو بچے اور تین حقیقی بھائی جن کے جنازے ایک ساتھ اٹھے

قابض صہیونی ریاست نہتے فلسطینیوں کے خلاف طاقت کےاندھا دھند استعمال میں دنیا کے تمام بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی پامالی کو اپنا پسندیدہ مشغلہ سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قابض صہیونی فوج نے منگل کی صبح سے جمعرات 14 نومبر کی صبح تک جس بے رحمی کے ساتھ وحشیانہ بمباری کی اس کی نظیر نہیں ملتی۔ اس وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں بچوں اور خواتین سمیت 35 فلسطینی شہید اورایک سو سے زاید زخمی ہوگئے۔

‘کمانڈر ابو عطاء کی شہادت اسرائیل کے لیے پیغام موت ہوگی’

منگل 12 نومبرکو علی الصباح قابض صہیونی فوج نے غزہ کی پٹی میں ایک بارپھر جارحیت اور بزدلی کا مظاہرہ کرتے کرتے ہوئے سینیر فلسطینی کمانڈر بہاء ابو عطاء کو جنگی طیاروں سے بم برسا کر اس کی اہلیہ سمیت شہید کردیا۔

یاسرعرفات کے قاتلوں کیوں بے نقاب نہ کیا جا سکا

سوموار 11 نومبر سنہ 2019ء کو فلسطینی لیڈر یاسر عرفات (ابو عمار) کی وفات کی 15 ویں سالگرہ منائی جاتی ہے۔ یاسر عرفات ایک پراسرار اس بیماری سے فرانسیسی دارالحکومت پیرس کے ایک اسپتال میں فوت ہوگئے تھے۔ماہرین نے ان کی وفات کے بعد تحقیقات کی اور اس نتیجے پر پہنچے کے انہیں ایک مہلک زہر دی گئی تھی۔

‘فیس بک’ اور ‘ٹویٹر’ فلسطینیوں کے خلاف صہیونی آلہ کار!

ارض فلسطین پرقابض صہیونی ریاست نے فلسطینی قوم کے ساتھ جاری کشمکش کے دوران نہ صرف ان کی باعزت زندگی جینے کا ان سے حق چھین رکھا ہے بلکہ انہیں اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی اجازت نہیں۔ بدقسمتی سے عالمی ابلاغی ادارے بالخصوص سوشل میڈیا کی بڑی ویب سائٹس بھی صہیونی اور یہودی لابی کے زیراثر ہیں جو نعرہ توآزادی اظہار رائے کا لگاتی ہیں مگر حقیقی معنوں میں سب سے پہلے وہی خود ہی اپنی بنائی پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔ فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے صہیونی ریاست کے مظالم کو بے نقاب کرنے پر فلسطینیوں کے خلاف مہمات چلائی جاتی ہیں۔ ایسے سوشل صفحات بند کیے جا رہے ہیں جن پر صہیونی ریاست کے جرائم کو تصاویر، ویڈیوز اور اعدادو شمار کی تفصیلات کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔یوں سوشل میڈیا صہیونی ریاست کی طرف سے فلسطینی قوم کے خلاف اسرائیل کی نیابت میں پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔