چهارشنبه 30/آوریل/2025

خصوصی مضامین

مشرق وسطی کا منظر بدل سکتا ہے

مشرق وسطی میں اسرائیل نے دریافت انسانی تاریخ کی طویل خونریز جنگ لڑنے ، لاکھوں انسانوں کو ہلاک ، زخمی اور بے گھر کرنے ، ان کی زمینوں پر بزور قوت قبضہ کرنے ، گھروں ، بازاروں ، اسکولوں کو بلڈوز کرنے

عرب ممالک کے آبی وسائل اسرائیل کے قبضے میں

صہیونی مملکت اسرائیل کی حکمت عملی پورے عالم عرب اور بالخصوص وہاں کے آبی وسائل کے سلسلے میں انتہائی خطرناک اور سنگین اساس و بنیاد پر قائم ہے-

’’نکبہ‘‘ فلسطینیوں کا ھولو کاسٹ ہے

مارچ 2007ء میں جرمن بشپ کریگرماریہ فزاز ھانک نے کہا تھا کہ ’’ایک صبح ہم نے یادو الشم میں وار سائے انسانی باڑوں کی تصاویر دیکھیں اور اسی شام رام اللہ میں ہم نے انسانی باڑے دیکھے-‘‘

بش کا مایوس کن خطاب

اسرائیلی پارلیمنٹ میں بش کی تقریر نے دنیا کے امن پسندوں کو مایوس کردیا ہے- اسرائیلی مملکت کے قیام کے 60 سالہ جشن کے موقع پر خود ان کا اسرائیل کا دورہ امریکہ کے ثالثی کے رول کو جہاں مشتبہ بنادیتا ہے

کینیڈا کا ناواقف وزیراعظم

کینیڈا کے وزیراعظم سٹیفن ہاربر نے فلسطینیوں کی حالت کے بارے میں ناپسندیدہ کلمات کہے ہیں- ان کا کہناہے کہ اسرائیل کی ’’نسلی صفائی ‘‘ کی پالیسیوں کے خلاف بیانات دینے اور ان کی مخالفت کرنے کا مطلب ’’یہود مخالفت‘‘ ہے-

باطل سانحے کی یاد کیوں منائیں

معتدل ذہن رکھنے والے لوگوں کی طرح معتدل قومیں ان دنوں کی کی یاد نہیں مناتیں جن سے ان کے برے اعمال وابستہ ہوں- حقیقتاً ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان دنوں سے نجات حاصل کرلیں-

اسرائیل ڈوب جائے گا

ساٹھ برس قبل اسرائیل نے انسانی لاشوں پر جس ناجائز مملکت کی بنیاد رکھی تھی - اس اندوہناک واقعے کی یاد ساٹھ برس بعد صہیونی فلسطینیوں کا خون بہا کرمنا رہے ہیں-

بیساکھیوں پر کھڑا اسرائیل

14مئی کو اسرائیلی اپنے قیام کا جشن منا رہا ہیں اور فلسطینی اس سانحے کا ماتم کررہے ہیں،امریکہ کے صدر بش نے اسرائیلیوں کے جشن میں شریک ہونے کے لیے چھ روزہ دورے کا اعلان کیا ہے وہ 13مئی کو اسرائیل پہنچ کر جشن کی رونق کو دوبالا کریں گے

فلسطین سے مسلمانوں کے خاتمے کی مہم

دبئی کی حکومت نے مغربی کنارے میں آبادکاری کے توسیعی منصوبے کے لیے سرمایہ فراہم کرنے والے ایک یہودی کو اجازت دی ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات میں زیورات کے دوسٹور قائم کر لے-

مسئلہ فلسطین کا قابل قبول حل کیسے ممکن ہے؟

امریکی حکومت کی گزشتہ نصف صدی سے یہ خواہش چلی آرہی ہے کہ وہ اس کے حل کا کریڈٹ حاصل کرے، لیکن اس کی عملی صورت یہ ہو کہ اس کے حل کے لیے اسرائیل کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہ اٹھانا پڑے