مسجد اقصیٰ کا ایک دیرینہ نمازی اور قبلہ اول کا محافظ الشیخ غسان یونس ابوایمن ‘ابوھریرات الاقصیٰ’ کرونا کی وبا کے نتیجے میں تین ماہ بستر علالت پر رہنے کے بعد دم توڑ گیا۔ الشیخ ابو ھریرات کی وفات سے بالعموم پورے فلسطین بالخصوص بیت المقدس میں گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ان کا شمار مسجدا قصیٰ کے دیرینہ نمازیوں اور حرم قدسی کے محافظوں میں ہوتا تھا۔ وہ ہمیشہ صہیونی فوج اور پولیس کا مقابلہ کرتے ہوئے مسجد میں نماز کے لیے آتے۔ تین ماہ قبل الشیخ ابو ھریرات کرونا کا شکار ہوگئے تھے۔ وہ جاں بر نہ ہوسکے اور گذشتہ روز دم توڑ گئے۔
مسجد اقصیٰ کی خاتون مرابطہ ھنادی الحلوانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ’ فیس بک’ پر الشیخ ابو ھریرات کی وفات پر گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ مسجد اقصیٰ آج ایک دیرینہ محافظ سے محروم ہوگئی۔ مرحوم ہمیشہ مسجد اقصیٰ میں نماز کی ادائی کے لیے پیش پیش رہتے حالانکہ ان کا گائوں عارہ مقبوضہ فلسطین میں مسجد اقصیٰ سے کافی فاصلے پر تھا۔
انہوں نے بتایا کہ الشیخ ابو ھریرات تین ماہ پیشتر کرونا کا شکار ہوگئے تھے۔ گذشتہ روز اللہ نے انہیں اپنے پاس بلالیا۔ ان کی ہمدردی، شفقت اور مسجد اقصیٰ سے محبت مثالی تھی۔ وہ نہ صرف انسانوں سے محبت کرتے بلکہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں گھومنے والی بلیوں اور پرندوں سے بھی پیار کرتے اور ان کے سامنے کھانا ڈالتے۔

مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق الشیخ یونس ابو ھریرات الاقصیٰ 71 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انہوں نے 50 سال سے زاید عرصے سے مسجد اقصیٰ کے ساتھ اپنا تعلق قائم کررکھا تھا۔ انہیں اکثر مسجد اقصیٰ کے صحن میں چلتے پھرتے دیکھا جاتا۔ وہ یہودی آباد کاروں کے قبلہ اول پر بلوئوں کو روکنے اور مقدس مقام کے دفاع کے لیے پیش پیش رہے۔ پیرانہ سالی کے باوجود وہ مسجد اقصیٰ سے دور نہ رہتے۔ انہیں کئی بار اسرائیلی پولیس اور یہودی آباد کاروں کی طرف سے تشدد کا بھی نشانہ بنایا گیا مگر انہوں نے ایک لمحے کے لیے بھی مسجد اقصیٰ کو ترک نہیں کیا۔
وہ ہر روز اپنے گھر سے اپنے کندھے پرایک بیگ اٹھا کر لاتے جس میں بلیوں کے لیے گوشت اور پرندوں کے لیے دانے ہوتا۔ وہ مسجد اقصیٰ کے صحن میں موجود بلیوں اور پرندوں کو خوراک دیتے۔ وہ جیسے مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہوتے تو بلیاں اور پرندے ان کے گرد جمع ہوجاتے۔ وہ ان کے ساتھ بہت زیادہ مانوس ہوچکے تھے۔ وہ ان میں وقفے وقفے سے انہیں خوراک دیتے رہتے اور رات کا اندھیرا ہوجانے کے بعد اپنے گائوں عارہ لوٹتے۔ عارہ شمالی فلسطین میں واقع ہے اور مسجد اقصیٰ سے کافی فاصلے پر ہے۔
وفات سے قبل ایک موقعے پر الشیخ ابو ھریرات نے بتایا تھا کہ وہ اپنے گھر سے روزانہ نہ صرف پرندوں اور بلیوں کے لیے خوراک کا ایک بیگ لاتے تھے بلکہ وہ اپنی جیب میں مھٹائیاں بھی لاتے۔ وہ جب مسجد اقصیٰ کے کسی دروازے پر بیٹھ جاتے تو وہ آنے جانے والوں میں وہ مٹھائیاں تقسیم کرتے اور انہیں اپنا تعارف کراتے اور یہ بھی بتاتے کہ وہ مسجد اقصیٰ سے دور ایک گائوںعارہ سے آئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ روزانہ صبح سات بجے اپنے گائوں عارہ یا عرعر ے مسجد اقصیٰ کے باب الحطہ کی طرف روانہ ہوتے۔ کئی بار بلیاں میرے ساتھ ساتھ چلتیں اور میں ان کے ہمراہ مسجد اقصیٰ میں پہنچ جاتا۔ وہاں اور بلیاں بھی جمع ہوجاتیں اور میں ان کے سامنے گوشت ڈالتا۔ وہاں پر موجود تمام بلیاں مجھ سے مانوس ہوگئی تھیں اور انہوں نے مجھے اچھی طرح پہچان لیا تھا۔ میرا اور ان بلیوں کا تعلق بہت گہرا ہوگیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے مجھے’الشیخ ابوھریرات الاقصیٰ’ کے نام سے پکارنا شروع کر دیا۔
الشیخ ابو ھریرات الاقصیٰ کی وفات پر سوشل میڈیا پر فلسطینی شہریوںنے گہرے دکھ اور افسوس کا ااظہار کیا ہے۔