ایران کی اعلیٰ عدلیہ نے میڈیا میں آنے والی افواہوں کو رد کر دیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں حماس کے قائد اسماعیل ھنیہ کو شہید کیے جانے سے متعلق کیس میں متعدد عہدیداروں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
اسلامی جمہوریہایران کے عدلیہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسلا،ی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہ نمااسماعیل ہنیہ کے تہران میں اکتیس جولائی کو بہیمانہ قتل میں شواہد اکٹھے کرنے کاعمل ابھی بھی جاری ہے اور حکام نے جاری تحقیقات کے حصے کے طور پر آج تک کسی کوگرفتار نہیں کیا ہے۔
آج منگل کو جوڈیشلاتھارٹی کے ترجمان اصغر جہانگیر نے قاتلانہ حملے میں اسماعیل ھنیہ کی شہادت کےسلسلے میں افسران اور اہلکاروں کی گرفتاریوں کے بارے میں بعض عہدیداروں کی گرفتاریکی خبروں کی تردید کی۔
انہوں نے ایرانیٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ اس سلسلے میں آج تک کوئیگرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔
ایرانی عدلیہ کےعہدیدار نے وضاحت کی کہ واقعے کے فوراً بعد ملٹری پراسیکیوٹر آفس نے مسلح افواج کیعدلیہ کے سربراہ کی ہدایات کی بنیاد پر تحقیقات کا آغاز کیا اور شواہد اکٹھے کرنےکا عمل تاحال جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہضروری انکوائری اور تحقیقات مکمل ہونے کے بعد نتائج کا اعلان کیا جائے گا۔
گذشتہ ہفتے اسرائیلیقابض ریاست نے حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل کو تہران میں ان کی رہائشگاہ پر میزائل حملے میں شہید کردیا تھا۔ ھنیہ ایران کے نومنتخب صدر مسعود پزشکیان کیحلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے تہران میں سرکاری مہمان کے طور پر موجود تھے۔
ھنیہ اور لبنانیحزب اللہ کے دوسرے اہم ترین رہ نما فواد شکر کی قابض فوج حملوں میں شہادتوں کے واقعاتنے علاقائی جنگ کے خدشات کو مزید بڑھا دیاہے۔
خیال رہے کہ تہرانمیں اسماعیل ھنیہ کی بزدلانہ صہیونی حملے میں شہادت کے بعد چند ذرائع ابلاغ نےخبریں شائع کی تھیں کہ ھنیہ کی شہادت میں سہولت کاری میں ملوث ہونے کے شبےمیںگرفتار کیا ہے تاہم ایران نے سرکاری سطح پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی تھی۔