اسرائیلی اخبار معاریف نے رپورٹ کیا ہے کہ اندرونی سلامتی کے وزیر بین گویر نے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے ساتھ ملاقات پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔ اس سے پہلے اسیران کے ساتھ ملاقات کی انتہائی محدود اجازت باقی رکھی گئی تھی۔ جس کا فائدہ اٹھا کر غزہ جنگ سے پہلے کبھی کبھی اسیران کے اہل خانہ جیل میں ملنے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ لیکن اب اس کی اجازت بھی ختم کر دی گئی ہے۔
بتایا گیا ہے کہ یہ اسیران کے خلاف سختیوں اور پابندیوں کو بڑھانے کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس کا اہتمام بین گویر نے اس وقت کیا ہے جب 15 اگست سے غزہ میں جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات کے نئے دور کی اطلاع سامنے آئی ہے۔
بین گویر کی طرف سے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں پر عاید کی گئی پابندیوں اور سختیوں میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ فلسطینی اسیران کو اسرائیلی جیل حکام کی طرف سےعام طور پر سخت انتقامی اور تعذیبی کارروائیوں کا سامنا رہتا ہے۔
یہاں تک کہ ان کے کھانے پینے کے معاملات میں بھی انہیں انتقام اور اذیت کا سامنے کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی فلسطینی قیدی کسی وقت بیمار یا زخمی ہوجائے تو اس کے ساتھ انتقامی اقدامات کرنے کے اسرائیلی فورسز کو مزید مواقع مل جاتے ہیں۔ فلسطینی قیدیوں کو ادویات اور علاج کی سہولت سے محروم رکھنا اسرائیلی ہتھکنڈوں میں ایک نمایاں طریقہ ہے۔ اسرائیلی جیلوں میں تعذیب و تادیب کے دوسرے ہتھکنڈے اور تشدد اس کے علاوہ ہیں۔
فلسطینی قیدیوں اور نظر بندوں سے متعلق امور کو دیکھنے والی تنظیموں، اداروں اور وکلاء کا کہنا ہے کہ بن گویر کے نئے احکامات سےاسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کے لیے پائی جانے والی پہلے سے خراب تر صورت حال اب بد ترین میں بدل جائے گی۔
یاد رہے اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کو پانی و بجلی سے محروم کر دینا ، بیت الخلا کے استعمال کے لیے مختص وقت کو کم کردینا اور قیدیوں کے نہانے پر پابندیاں تک عاید کی جاتی ہیں۔ یہ تمام تر پابندیاں بیماریوں کے پھیلاؤ، خاص طور پر جلد کے انفیکشن کا باعث بنتی ہیں۔