ایک سابق اسرائیلی فوجی اہلکار نے قابض صہیونی حکومت کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاھو کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی معاشرے کو ایک تزویراتی سانحے کی طرف لے جا رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کو قلیل مدتی جنگوں کےتصور کی طرف لوٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔
اسرائیلی ملٹریانٹیلی جنس کے سابق سربراہ آموس یادلین نے کہا کہ غزہ میں متعدد کھلے محاذوں کےدرمیان تباہی کی جنگ کا جاری رہنا "اسرائیل” کو ایک طویل جنگ میں گھسیٹلے گا۔ بینجمن نیتن یاہو کی مکمل فتح کی حکمت عملی جنگ کے ذریعے اسرائیل کو کچلنے کی”ایران کےمقصد کو پورا کرتی ہے۔
یادلین نے اسرائیلی”چینل 12″ کی ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون میں لکھا کہ نیتن یاہو نے”محمد الضیف، اسماعیل ہانیہ اور حزب اللہ کے سینیر کمانڈرفواد شکر کے قتل کےبعد اسٹریٹجک فتح کے بارے میں اپنی گفتگو میں ذکر نہیں کیا۔ ان کی اخلاقی ذمہ داریہے کہ مغوی افراد کو واپس کیا جائے، کیونکہ یہ ان کی سیاسی بقا سے متصادم ہے۔
انہوں نے مزیدکہاکہ "اسرائیلیوں کو احساس ہے کہ ان کا وزیر اعظم انہیں دو میں سے ایک راستےپر ایک اسٹریٹجک تباہی کی طرف لے جا رہا ہے جو ایران کے مفاد میں ہے یا حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کے ہاتھ میں ہے۔
یادلین نے غزہ کیپٹی میں تباہی کی جنگ کے جاری رہنے کی طرف اشارہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ غزہ میںاسرائیلی جنگ طول پکڑتے ہوئے علاقائی جنگ کی شکل اختیار کر رہی ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "دو راہداریوں میں محدود قوتیں” غزہ میں حماس کی تباہی کا باعثنہیں بنیں گی بلکہ یہ ایک طویل المدتی جنگ اور دوسرے میدانوں میں متوازی محاذوں پرجنگ چھڑنے کا باعث بنے گی۔
یادلین نے نشاندہیکی کہ "اسرائیلی قیدی فلسطینی مزاحمتی سرنگوں میں مریں گے۔ اسرائیل خود کو ایکطویل جنگ میں پھنسا ہوا پائے گا۔ اسرائیلی معیشت بدستور خراب ہوتی رہے گی، دنیا میںہماری حیثیت ایک نئی پستی پر گر جائے گی اور عالمی عدالتوں میں ہمارے خلاف جنگ جاریرہے گی۔
انہوں نے کہا کہ یہحکمت عملی "اسرائیل کو امریکہ کے ساتھ تصادم کی طرف بھی لے جائے گی، جو جنگکے خاتمے کے لیے اپنی پوری طاقت کے ساتھ کوشش کر رہا ہے اور یرغمالیوں کے معاہدےکوآگے بڑھانے کے حوالے سے ہم سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے کا انتظار کر رہا ہے”۔
انہوں نے خبردارکیا کہ غزہ جنگ کے طول پکڑنے سے نیتن یاھو کا مشن پورا نہیں ہوسکتا بلکہ غزہ،لبنان، ایران، شام، یمن، عراق اور دیگرفلسطین کے مغربی کنارے میں ہمارے خلاف جنگکے میدان لگیں گے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ "اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ یہ ایک کثیر رقبہ والی علاقائی جنگکو جنم دے گا اور یہ ایک خطرناک راستہ اور ایک ایسا منظر نامہ ہے جس کے خلاف اسرائیلنے کوئی حکمت عملی اور متعلقہ جنگی مقاصد تیار نہیں کیے ہیں۔ فی الحال ان تماممحاذوں پر کم شدت کی لڑائی ہو رہی ہے۔ جنگ نے طول پکڑا تو ان محاذوں سےحملے تیزہوجائیں گے۔