غزہ شہر کے وسطیمحلے الدرج میں ہفتے کی صبح التابعین سکول میں پناہ گزین شہری نماز فجر ادا کررہےتھےکہ ان کے سروں پریکےبعد دیگرکئی خوفناک میزائل گرے۔ میزائل گرتے ہی ہر طرف خون اورلاشوں کے انبار تھے اور زخمیوں کے کراہنے اور پناہ گزین بچوں اور خواتین کی آہبکاء کلیجہ چیر رہی تھی۔
اسرائیلی فوج کیاس بربریت میں سیکڑوں فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے تھے اور ہرطرف خون کی ندیاں بہہرہی تھیں۔ شہید اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر بچے اور خواتیں تھیں۔
فلسطینیوں کی بڑیتعداد اسرائیلی فوج کی طرف سے جبری بے دخلی کے احکامات کے بعد اس سکول میں پناہگزین تھی اور اسرائیلی فوج ہی نے فلسطینیوں کو اس سکول میں جانے کی ہدایت کی تھی۔قابض اور دھوکے باز بزدل فوج کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا تھا کہ التابعین سکول بےگھر خاندانوں کے لیے ’محفوظ‘ مقام ہے، مگر بہت سے دیگر ایسے ہی دھوکہ دہی کے ذریعےکیےگئے قتل عام کی طرح وہاں بھی خون کی ہولی کھیلی گئی۔
یہاں یہ سوالپیدا ہوتا ہے کہ آیا قابض صہیونی فوج بار بار محفوظ قرار دیے گئے مقامات میںموجود نہتے لوگوں پر بمباری کرکے ان کا قتل عام کیوں کرتی ہے؟ کیا اس نے محفوظہونے کے معانی ہی کو کچل دیا ہے اور اس کے نزدیک محفوظ ہونے کا مطلب ایسی جگہ ہےجہاں قتل عام کرنا ناگزیر ہے؟۔
التابعین سکولمیں کسی فلسطینی مزاحمت کار کی پکارنہیں تھی بلکہ اذان کے بعد تکبیر تحریمہ کےساتھ جیسے ہی فجر کی جماعت کھڑی ہوئی۔آسمان میں صہیونی نازی فوج کو فراہم کردہجنگی طیاروں کی آوازیں سنائی دیں۔ اگلے ہی لمحے نمازیوں کے سروں پر تین امریکیساختہ بم گرائے گئے جن میں سے ہرایک بم کا وزن دو ہزار پاؤنڈ تھا۔
بم گرتے ہی سکولکی مسجد خون کے تالاب میں میں بدل گئی۔ نہتے اور معصوم نمازیوں کے چھیتڑے اڑ گئےاور ان کے اعضا دور جا گرے۔ یہ جاننا بھی مشکل تھا کون سا کٹا ہوا عضو کس شہید کےجسد خاکی کا ہے۔
غزہ کی پٹی کا ایکانچ بھی قابض اسرائیلی دشمن کی بربریت سے محفوظ نہیں رہا۔ امریکہ اور مغرب کے عطاکردہ میزائلوں اور مہلک بموں سے کوئی گھر محفوظ ہے اور نہ سکول، ہسپتال نہ مسجد اور نہ گرجا گھر۔ ہر طرف اور ہرجگہ بموںکے گرنے خطرہ منڈلاتا ہے اور لوگ اسی خوف میں دن رات بسر کرتے ہیں۔
غزہ کی آبادی کوبے گھر کرنا جنگ کے آغاز سے ہی قابض دشمن کا ایک سٹریٹجک ہدف تھا، لیکن دشمن کو اسمکروہ اور خونی ہدف کے حصول کے لیے خواتین اور بچوں کی لاشوں کےانبار لگانا پڑےاور اس نے بے دریغ قتل عام کیا۔ اس قتل عام سے دشمن یہ ثابت کرنا چاہتا ہےغزہ میںکوئی بھی محفوظ مقام نہیں۔
یہی وجہ ہےکہ اس نے ہر جگہ اور ہر پناہ گاہ کونشانہ بنایا۔ اس عرصے میں بے گھر فلسطینی خاندانوں کے لیے مختص 183 مقامات کواسرائیلی بمباری سے نشانہ بنایا گئا جن میں اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی ’انروا‘ کے 162 سکول بھی شامل ہیں۔
رواں ماہ کے آغازسے اب تک قابض فوج نے 12 سکولوں کو بمباری کرکے ان میں قتل عام کیا ہے جس سے 178افراد شہید اور سیکڑوں زخمی ہوئے ہیں۔ جب کہ جنگ کے آغاز سے اب تک سکولوں کے اندرشہید ہونے والوں کی تعداد 1190 سے زیادہ ہے۔
قابض صہیونی فوجکا یہ وطیرہ ہے کہ وہ بےگھر افراد سے بھرے مجمعے نشانہ بنانے کے بعد فورا اپنےجرم کوچھپانے کے لیے نشانہ بنائے گئے مقام پر فلسطینی ’عسکریت پسندوں‘ کی موجودگی کاگمراہ کن لیبل لگاتا ہے۔
مگردوسری طرفتمام فلسطینی دھڑوں نے بار بار اور واشگاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ مزاحمت کاراور مجاھدین عام شہریوں کی صفوں میں نہیں ہوتے۔ دشمن فوج صرف فلسطینیوں کی نسل کشیکے جرم کے تسلسل کے لیے بے گھر افراد میں مجاھدین کی موجودگی کا دعویٰ کرکےان کاقتل عام کرتی ہے۔
زمینی حقائق بھی صہیونیدشمن فوج کے جھوٹ کو صاف ظاہر کرتے ہیں کیونکہ اسرائیلی فوج نے اب تک جتنے ایسےمقامات کو مزاحمت کاروں کی موجودگی کی آڑ میں نشانہ بنایا وہاں پر عام شہریوں کیلاشیں ملیں جن میں زیادہ تر بچے اورخواتین ہوتے تھے۔
حماس کے سیاسیشعبے کے رکن سامی ابو زہری نے قابض فوج کے اس بیان پر طنز کیا جس میں اس نے کہا تھا کہ’التابعین سکول میں بےگھر ہونے والے افراد میں 19 فلسطینی مزاحمت کار مارے گئے تھے‘۔ انہوں نے کہا کہ”اگر گرائے گئے میزائل سمارٹ تھے تو ان سے 100 لوگوں کوکیون شہید کیا گیا؟ یہ سب صرف ایک بہانہہے ورنہ صہیونی فوج زیادہ سےزیادہ عامشہریوں کے قتل عام کی پالیسی پرعمل پیرا ہے‘۔
ابو زہری نے الجزیرہنیٹ ورک کے ساتھ ایک انٹرویو میں مزید کہا کہ "اگروہاں مزاحمت کار تھے توانکے ہتھیار کہاں ہیں؟” یہ کون جنگجو ہیں جن کی اسرائیل بات کر رہا ہے؟ اگرجنگجو تھے تو کیا شہید ہونے والے 100 جنگجو تھے؟ کیا بچے اور خواتین جنگجو ہیں؟کون سا بین الاقوامی قانون اس قابض دشمن ے کو اتنی تعداد میں عام شہریوں کے قتلعام کی اجازت دیتا ہے؟۔
حماس کے رہ نمانے زور دیا کہ قابض ریاست ہمارے زیادہ سے زیادہ فلسطینی شہریوں کو ختم کرنے، قتل کرنے اور فلسطینی کاز کوکچلنےکے لیے جبری بے گھر ہونے والوں کا قتل عامکررہی ہے۔
غزہ کی پٹی کےہسپتال بھی محفوظ نہیں رہے۔ وہاں پر پناہ لینے والوں کو بھی بار بار نشانہ بنایاگیا۔ انہوں نے جنگ کے آغازسے ہی سینکڑوں بے گھر افراد کو پناہ دے رکھی تھی۔اسرائیلی بمباری میں تباہ ہونے والے درجنوں ہسپتالوں میں سے صرف 4 کو جزوی طوپربحال کیا گیا ہے جب کہ صہیونی فوج نے گذشتہ سال 7 اکتوبر سے اب تک 36 ہسپتالوں اورتقریباً 160 صحت کی دیکھ بھال کے مراکز کو نشانہ بنایا ہے۔
ہسپتالوں میں بےگھر افراد کے قتل عام کی بات کی جائے تو گذشتہ برس نومبر میں قابض فوج نے سب سےزیادہ قتل عام غزہ کے المعمدانی ہسپتالمیں کیا جس میں تقریباً 500 شہری شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔
اس کے علاوہ غزہکے سب سے بڑے طبی مرکز الشفاء ہسپتال پر قابض فوج نے کئی بار بمباری کی اور وہاںبھی سیکڑوں بے گھر افراد کو شہید کیا گیا۔