اردن میں اسٹیٹ سیکورٹی کورٹ نے فتنہ کیس کے مرکزی ملزم باسم عوض اللہ کو 15 سال جیل کی سزا سنائی ہے۔ وہ شاہی دیوان کے سابق سربراہ اور ملک کے سابق وزیرخزانہ بھی رہ چکے ہیں۔ یہ بات العربیہ نیوز چینل کے نمائندے نے آج پیر کے روز بتائی ہے۔ باسم عوض اللہ پر اردن میں سماجی عدم استحکام اور انتشار پیدا کرنے کا الزام ہے۔ فتنہ کیس کے دوسرے اہم ملزم شریف حسن بن زید کو ایک سال جیل اور 1000 دینار جرمانے کی سزا سنائی گئی ہے۔ بن زید پر منشیات کے معاملے میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ بن زید اردن کے فرماں روا شاہ عبداللہ الثانی کے رشتے دار ہیں۔
فتنہ کیس میں ملزمان کو سزا سنائے جانے کے بعد اب دفاعی فریق کورٹ آف کیسینیشن سے رجوع کرے گا۔
اردن کی اسٹیٹ سیکورٹی کورٹ کے مطابق فتنہ کیش کے ملزمان کے درمیان دوستی کا تعلق ہے۔ وہ ریاست اور فرماں روا کے خلاف افکار کے حامل ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم باسم عوض اللہ نے فرماں روا کے خلاف اشتعال انگیزی اور اکسانے کا کام کیا۔ اسی طرح دونوں ملزمان (باسم عوض الله اورشريف حسن بن زيد) نے انارکی اور شاہ عبداللہ کے خلاف اشتعال انگیزی پھیلا کر اپنے ریاست مخالف افکار اور نظریات پر عمل درامد کی کوشش کی۔
عدالت کے سربراہ نے ٹی وی پر براہ راست نشر ہونے والی کارروائی کے دوران میں کہا کہ فتنہ کیس کے دونوں ملزمان نے ملک میں انارکی پھیلانے کے لیے اردن اور اطراف کے علاقے کو درپیش اقتصادی، سماجی اور سیاسی حالات سے فائدہ اٹھایا۔
دوسری جانب فتنہ کیس کے مرکزی ملزم باسم عوض اللہ کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی جان کے حوالے سے خطرہ ہے۔ یہ بات ملزم کے امریکی وکیل مائیکل سیلون نے بتائی۔ سیلون کے مطابق ان کے مؤکل کے ساتھ ناروا سلوک برتا جا رہا ہے اور اردن کی سیکورٹی اسٹیٹ کورٹ کے اندر بند دروازوں کے پیچھے منعقد ہونے والی عدالتی کارروائی "مطلقا غیر منصفانہ” ہے۔