منگل کے روز قابضاسرائیلی ریاست کی نام نہاد فوجی عدالت نے غزہ کی پٹی سے تعلق رکھنے والے فلسطینیقیدی پر’سدی تیمان‘ نامی بدنام زمانہ عقوبت خانے میں جنسی بربریت کے مقدمے میں مرتکبدرندوں کو رہا کردیا۔ دوسری طرف قیدی کی اسرائیلی میڈیکل رپورٹس حقیقت کو مسخ کرکےجنسی زیادی کے مجرموں کو سزا سے بچانےکی مذموم کوشش کی گئی ہے۔
واقعہ کی حقیقتکو مسخ کر دیا۔
قابض فوج نےاعلان کیا کہ وہ ملٹری پراسیکیوشن کے ساتھ ایک معاہدے پر پہنچ گئی ہے، جس کے مطابقتحقیقات مکمل ہونے تک فوجیوں کو گھر میں نظر بند کر دیا جائے گا۔
دریں اثنا اسرائیلیمیڈیکل رپورٹس میں قیدی پر جنسی تشدد کےحقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا اور دعویٰ کیا کہ قیدی نے خود کو نقصان پہنچایاہے۔ معاہدے کے مطابق فوجیوں کو تحقیقات مکمل ہونے تک "گھر میں نظربند” رکھاجائے گا۔
فوجی داری کیس میںحملہ آور فوجیوں کے وکلاء نے کیس کے فریم ورک کے اندر گہرائی سے جانچ کی درخواست کیاور دعویٰ کیا کہ الزام ثابت کرنے کے لیے تحقیقات میں مشکلات ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ تشدد کرنے والے ریزرو فوجی ہیں اور ان کے خاندان اس سے متاثرہوئے ہیں۔ انہیں ایسےلوگوں کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے جو عوام کے لیے خطرہ بنتے ہیں”۔
سچائی کو جھوٹاثابت کرنے کے لیے اسرائیلی حکام حراست میں لیے گئے فوجیوں کے وکلاء کی ٹیم کیدرخواست پر طبی رپورٹس کی حمایت کرتے ہوئے ان الزامات کو فروغ دے رہے ہیں کہ حراستیکیمپ میں فلسطینی قیدی نے خود کو نقصان پہنچا کر جنسی زیادتی کا الزام عاید کیا تھا۔
فوجی عدالت میںبحث کے دوران، طبی رائے کی ایک دستاویز سامنے آئی جس میں دعویٰ کیا گیا کہ اس باتکا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ سدی تیمان کیمپ میں زیر حراست شخص، جس کے بارے میں قابضفوج کا دعویٰ ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ سے تعلق رکھتا ہے کے ساتھ زیادتی کیگئی ہے یا زبردستی کوئی چیز اس کے جسم میں داخل کی گئی ہے۔ جعلی دستاویز میں الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق قیدی پر الزام تھوپا گیا ہے کہ اس نے خود ہی کوئیایسی حرکت کرکے فوجیوں کو بدنام کیا ہے۔
خیال رہے کہ چندروز قبل اسرائیل کے بدنام زمانہ حراستی مرکز سدی تیمان میں ایک قیدی کو جنسی تشددکا نشانہ بنائے جانے کی ویڈیو سامنے آنے کے بعد بڑے پیمانے پر شدید مذمت اور اسمجرمانہ دردندگی کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔