مطالعے میں کہا گیا ہے کہ بہترین حالات میں دن میں صرف 10 یا 12 گھنٹے بجلی دستیاب ہے۔ یہ مسئلہ آبادی کی صحت اور فلاح و بہبود کے لیے زیادہ خطرہ بن جاتا ہے خاص طور پر درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کے ساتھ بجلی کی کم دستیابی مشکلات میں اضافہ کرتی ہے۔
مطالعے کے شرکاء کی بھاری اکثریت نے اس بات پر زور دیا کہ وہ ریفریجریٹر میں کھانا بھی نہیں رکھ سکتے کیونکہ بجلی کی صورتحال سیوریج کے نظام کو ناکام بنا دیتی ہے۔
مطالعہ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ غزہ میں دائمی قلت اور بجلی کی مسلسل رکاوٹ ، غزہ کے باشندوں کو بھاری نفسیاتی نقصان کا باعث بنتی ہے۔
سروے کرنے والوں میں سے 94 فیصد نے بتایا کہ ان کی ذہنی صحت اس صورتحال سے متاثر ہوئی ہے۔
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے وضاحت کی کہ مئی میں غزہ پر آخری جارحیت انفراسٹرکچر کی تباہی کا باعث بنی۔ اہم بجلی کے نیٹ ورکس کے ذریعے سپلائی کی نمایاں کمی ہوئی اور آبادی کو چوبیس میں س چار یا پانچ گھنٹے بھی بجلی دستیاب نہیں تھی۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں کم از کم پانچ لاکھ لوگ ہیں جو کہ جنریٹروں کے ذریعے اضافی بجلی کی فراہمی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔وہ اپنے دن کا بیشتر حصہ بجلی کے بغیر گزارنے پر مجبور ہیں۔
مطالعے کے اہم ترین نتائج کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ 94 فیصد افراد کی ذہنی صحت ان کی مسلسل بجلی نہ ملنے کی وجہ سے خراب ہوئی۔