اسلامی تحریکمزاحمت ’حماس‘ کے پولیٹیکل بیورو کے رُکن حسام بدران نے کہا ہے کہ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے حالیہ بیانات کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ وہم کی مارکیٹنگ کیکوشش کررہے ہیں، جب کہ نیتن یاہو جان بوجھ کر اس جنگ کے خاتمے کے لیے کسی معاہدےتک پہنچنے کی کسی بھی کوشش میں رکاوٹ ڈال کر جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے۔
بدران نے امریکیوزیر خارجہ کے قابض اسرائیلی ریاست کی طرفسے ترمیم شدہ تجویز کی منظوری کے بارے میں بیانات اور حماس سے اس کی منظوری کے مطالبے پر تبصرہ کرتے ہوئےاسے "ایک قسم کا دھوکہ اور وہم کی مارکیٹنگ” قرار دیا۔
حماس کے سیاسی بیوروکےرُکن نے ایک ٹیلی ویژن انٹرویو کے دوران اس بات کی تصدیق کی کہ یہ بیانات اسرائیلیموقف کی واضح عکاسی کرتے ہیں، کیونکہ امریکی وزیر کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کوقابض ریاست نے قبول نہیں کیا۔ اس کے برعکس نیتن یاہو نے اپنی شرائط اور مطالبات کابار بار اعلان کیا ہے جو کہ کسی بھیمطالبے تک پہنچے اور دو جولائی کو طے پائی تجاویز کے برعکس ہیں۔
بدران نے وضاحت کیکہ امریکی وزیر خارجہ نیتن یاہو کی جانب سے بات کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جب کہتمام اشارے یہ بتاتے ہیں کہ نیتن یاہو کسی بھی معاہدے تک پہنچنے میں سب سے بڑیرکاوٹ ہیں اور اس بات کی تصدیق خود صیہونی وزیر دفاع کے بیانات سے ہوتی ہے۔
جب ان سے مذاکراتمیں خلا کو پر کرنے کے ممکنہ آپشنز کے بارے میں پوچھا گیا تو بدران نے وضاحت کی کہفلسطینی مطالبات ہمیشہ واضح اور مخصوص ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے استجویز پر اتفاق کیا جو 2 جولائی کو پیش کی گئی تھی اور ثالثوں نے اس وقت عہد کیاتھا کہ وہ اسرائیل سے اس کی منظوری کرائیں گے۔ اگر امریکہ جنگ بندی کے حصول یامعاہدے تک پہنچنے میں سنجیدہ ہے تو اسے اس بات پر عمل کرانا ہوگا تاہم صہیونیحکومت نے دو جولائی کی طے شدہ تجاویز کو مسترد کردیا۔
حسام بدران نے کہاکہ امریکہ اس تنازعے میں صرف ثالث نہیں ہے، بلکہ فلسطینی عوام کے خلاف جنگ میں ایکحقیقی شراکت دار ہے۔کیونکہ وہ صہیونی ریاست کو فلسطینیوں کی نسل کشی کے لیے اسلحہ،طیارے اور بم فراہم کررہا ہے۔
بدران کا کہناتھا کہ امریکی وزیر خارجہ امریکی انتظامیہ کے اندر فلسطینی عوام کے لیے سب سے زیادہدشمنی اور نفرت رکھنے والی شخصیات میں سے ایک ہے اور وہ غزہ کے خلاف جارحیت کےآغاز سے ہی ایک مخالفانہ رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے بیاناتحیران کن نہیں ہیں، لیکن بلکہ اس بات کی تصدیق کہ امریکہ جارحیت کی حمایت کرتا ہےاور اس میں حصہ لیتا ہے، اور کسی بھی صورت میں ایماندار ثالث نہیں ہے۔
حسام بدران نےنشاندہی کی کہ صلاح الدین محور کمپلیکس جنگ بندی کے معاہدے تک پہنچنے میں رکاوٹوںمیں سے ایک ہے۔ یہ واحد رکاوٹ نہیں ہے۔ سابقہ تجاویز میں دونوں فریقین نے نیٹزارم اورصلاح الدین محور سے قابض فوج کے انخلاء کے معاملے پر مکمل طور پر اتفاق کیا تھا۔ مگر نیتن یاہو بہ ضد ہےکہ وہ ان دونوں مقامات سےفوج نہیں نکالے گا۔
بدران نے مزیدکہا کہ یہ اصرار قابض ریاست کے جارحیت کو جاری رکھنے اور کسی حتمی معاہدے تک نہپہنچنےمیں عدم دلچسپی کے ارادے کی عکاسی کرتا ہے۔
بدران نے اس باتپر زور دیا کہ فلسطینی مزاحمت نیتن یاہو کو مذاکرات کے خالی دوروں میں جوڑ توڑ کاموقع نہیں دے گی۔ مزاحمت اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کے ساتھ فلسطینی عوام کادفاع کرتی رہے گی۔