گذشتہ دو دہائیوں کے دوران بین الاقوامی برادری کی جانب سے مسئلہ فلسطین کے لیے یکجہتی میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جب کہ اسرائیل کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی بڑھتی جارہی ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کے دفاع کے لیے کھڑی ہونی والی آوازوں کو تشدد سے دباتا ہے اور فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے والوں کو نشانہ بنانے، حتی کہ، قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔
ستمبر کے مہینے میں اسرائیلی فوج کی گولیوں سے ترک نژاد امریکی کارکن عائشہ نور کی شہادت، فلسطینی کاز کے ساتھ ہمدردی رکھنے والوں کو نشہانہ بنانے کا کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا۔ اسرائیل کے جرائم کی فہرست لمبی ہے۔
اسرائیل کے حملوں کے کا نشانہ بننے والے سب سے نمایاں متاثرین میں سے ایک تھے جرمن معالج ہیرالڈ فشر۔
جرمن معالج ہیرالڈ فشر
68 سالہ ہیرالڈ فشر ایک ریٹائرڈ فزیو تھراپسٹ تھے۔ وہ بیت جالا میں 22 سال سے مقیم تھے، جہاں ان کی شادی فلسطینی نورمہ ایسٹیفن سے ہوئی تھی۔ ان کے تین بچے تھے۔
الاقصیٰ انتفاضہ کے آغاز میں اسرائیلی فوج نے 2 نومبر 2000 کو بیت المقدس کے قریب بیت جالا قصبے پر حملہ کیا جہاں ڈاکٹر فشر اور ان کے اہل خانہ قصبے پر وحشیانہ بمباری کے دوران سیڑھیوں کے نیچے چھپ گئے۔ تاہم، انہوں اپنے فلسطینی پڑوسیوں کی مدد کے لیے یہ پناہ گاہ چھوڑ دی جو انہیں مدد کے لیے بلا رہے تھے۔ جس کے بعد وہ اسرائیل کا نشانہ بن گئے۔
ان کی بھابھی نے بتایا کہ "فشر” کو گولے سے نشانہ بنایا گیا تھا اور وہ فوری طور پر مارا گیا تھا۔ ایجنسی فرانس پریس کے نمائندے جس نے لاش کو دیکھا تھا کہات ہے کہ ان کی بائیں ٹانگ کا زیادہ تر حصہ اور اس کے بائیں ہاتھ کا کچھ حصہ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا۔
ان کا مردہ جسم، جس پر جلنے کے نشانات تھے، ایمبولینس پہنچنے سے پہلے تقریبا دو گھنٹے تک سڑک پر پڑا رہا۔
اطالوی فوٹو جرنلسٹ رافیل سیریلو
اطالوی فری لانس فوٹوگرافر رافیل سیریلو (42 سال) دوسرے فلسطینی انتفاضہ کی کوریج کے لیے مغربی کنارے کے شہر رام اللہ میں تھے۔
ان کے ایک ساتھی اطالوی صحافی امیڈیو ریکیچی جو اس وقت وہاں موجود تھے نے صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی کو بتایا کہ وہ اور ان کا کیمرہ مین سیریلو کے ساتھ فلسطینی عسکریت پسندوں کے ایک گروپ کے قریب تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علاقہ پرسکون تھا او فلسطینی پناہ گزین کیمپ جہاں تصادم ہو رہا تھا ان سے تقریباً 500 میٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔
وہ اور ان کے ساتھی ایک گلی کے سامنے ایک عمارت کے اندر کھڑے تھے اور کچھ ہی دیر بعد تقریباً 150 میٹر دور گلی کے ایک سرے پر ایک ٹینک نمودار ہوا۔ جب سیریلو ٹینک کی تصویر لینے کے لیے عمارت سے نکلے تو انہیں بغیر کسی وارننگ کے چھ گولیاں ماری گئیں، اور اس کے فوراً بعد 13 مارچ 2002 کو وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔
اسرائیلی حکومت کے پریس آفس کے ایک اہلکار نے بوسٹن گلوب پر اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ اس فاصلے سے فوجیوں کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ شخص اس حالت میں تھا جیسے وہ گولی مارنے ہی والا ہو۔
تاہم، عبرانی اخبار ہارٹز کے مطابق اسرائیلی فوج نے فوٹوگرافر کی طرف کسی بھی طرح کی فائرنگ کی تردید کی۔
برطانوی امدادی کارکن ایان ہک
ایان ہک (54 سال) اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی برائے فلسطینی پناہ گزینوں (انروا) سے وابستہ امدادی ٹیم کے ڈائریکٹر تھے، جس کا مقصد مغربی کنارے میں جنین کیمپ کی تعمیر نو میں مدد کرنا تھا۔
برطانوی تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق ‘ہُک’ دیگر ملازمین کے ایک گروپ کے ساتھ جنین میں اقوام متحدہ کے ایک کمپاؤنڈ میں موجود تھے، جب ایک اسرائیلی سنائپر نے انہیں جان بوجھ کر گولی مار دی، یہ 22 نومبر 2002 کی بات ہے۔
ہُک کے ساتھی پال وولسٹین ہولم نے جو فائرنگ کے وقت کمپاؤنڈ میں موجود تھے، کہا کہ اسرائیلی سپیشل فورسز کے سنائپر کو معلوم تھا کہ ہک فلسطینی نہیں اور "یہ غلط شناخت کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ انہیں دانستہ نشانہ بنایا گیا تھا۔”
قابض حکام نے اس وقت دعویٰ کیا تھا کہ اسنائپر نے غلطی سے "ہک” کے موبائل فون کو بندوق سمجھ لیا تھا۔
امریکی کارکن ریچل کوری
23 سالہ "ریچل کریگ کوری” کا تعلق ایک امریکی یہودی خاندان سے تھا۔ وہ امن سے محبت کرنے اور فلسطینیوں کے لیے فلسطینی ریاست کے موقف کے لیے جانی جاتی تھیں۔
ریچل 2003 میں دوسری فلسطینی انتفاضہ کے دوران بین الاقوامی یکجہتی تحریک کے ایک وفد کے ہمراہ غزہ کی پٹی گئیں، جہاں وہ فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے سے روکنے کے لیے کام کر رہی تھیں۔
16 مارچ 2003 کو، "ریچل”، نارنجی رنگ کا کوٹ پہنے ہوئے، رفح شہر کے السالم محلے میں پہنچیں۔ یہاں ایک گھر کو مسمار کرنے اور کسانوں کی زمین کو بلڈوز کرنے سے روکنے کی کوشش میں، وہ ایک اسرائیلی بلڈوزر کے پاس پہنچی، اور "انسان بنو” کا نعرہ لگایا۔
وہ ایک لاؤڈ اسپیکر پکڑے بلڈوزر کے سامنے کھڑی تھی اور اسرائیلی فوجیوں کو مسمار کے عمل کو روکنے کے لیے کہہ رہی تھی، اور اس کا خیال تھا کہ ان کا غیر ملکی ہونا اسرائیلی بلڈوزر کو اس پر حملہ کرنے سے روکیں گی۔
تاہم، ڈرائیور نے جان بوجھ کر بلڈوزر ان کے اوپر چلا کر انہیں مار ڈالا۔
2013 میں، اسرائیلی عدالت نے ریچل کوری کے قاتل کو بری کر دیا، اور ان کے ورثاء کی طرف سے اسرائیل کے خلاف دائر کیے گئے ایک دیوانی مقدمے کو مسترد کر دیا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ” بلڈوزر ڈرائیور کی طرف سے کوئی غفلت نہیں ہوئی، اور اس نے بلڈوزر چلاتے ہوے سامنے آنے والی خاتون کو نہیں دیکھا۔”
ویلش ڈائریکٹر جیمز ہنری ملر
34 سالہ جیمز ملر "غزہ میں موت” کے عنوان سے دونوں طرف کے بچوں کے بارے میں ایک دستاویزی فلم بنانے کے لیے غزہ کی پٹی پہنچے تھے۔
اپنی فلم بندی کی تکمیل سے پہلے، غزہ میں قیام کے آخری ایام میں، ملر کو ایک اسرائیلی بکتر بند گاڑی نے گولی مار دی، جس کی وجہ سے 2 مئی 2003 کو ان کی موت واقع ہو گئی۔
اسرائیلی واقعے کی ذمہ داری سے انکار کرتا رہا۔ ان کی موت کے بعد، برطانوی حکام اور ان کے اہل خانہ نے قتل کی تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالا، اور اسرائیلی فوج کو اس کے قتل کی "اندرونی تحقیقات” کرنے پر مجبور کیا گیا۔
تحقیقات کے نتائج سے یہ بات سامنے آئی کہ گولی اسرائیلی بکتر بند گاڑی سے چلائی گئی تھی اور اسے مارنے والے فوجی انہیں جانتے تھے اور انہوں نے سفید جھنڈا بھی دیکھا تھا جسے وہ اٹھائے ہوئے تھے
برطانوی کارکن ٹام ہرنڈل
انسانی حقوق میں دلچسپی رکھنے والے 22 سالہ برطانوی فوٹو جرنلسٹ ٹام ہرنڈل نے بین الاقوامی یکجہتی تحریک میں شمولیت اختیار کی، جس کی بنیاد 2001 میں اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی موقف کی حمایت کے لیے رکھی گئی تھی۔
انہوں نے غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں ہونے والے بہت سے مظاہروں میں شرکت کی اور اپنے کیمرے کے ذریعے نہتے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی جرائم کے بارے میں بہت سے حقائق کو دنیا تک پہنچایا۔
2003 میں انہوں نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ غزہ کی پٹی کا سفر کیا۔ ان کا پہلا پڑاؤ رفح شہر میں تھا، جہاں انہوں نے فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دی۔
11 اپریل 2003 کو "ہرنڈل” اور دیگر یکجہتی کارکنوں نے رفح کی ایک سڑک پر امن مہم چلائی تاکہ اسرائیلی ٹینک گشت کو شہر میں داخل ہونے سے روکا جا سکے، لیکن قابض فوج کے اسنائپرز نے مظاہرین پر گولیاں برسانا شروع کر دیں۔
ٹام نے تین فلسطینی بچوں کو خوف کے عالم میں گولیوں کی زد میں کھڑے دیکھا، وہ رضاکارانہ طور پر ان کی حفاظت کے لیے پہنچے لیکن ایک اسرائیلی سنائپر نے ان کے سر پر گولی مار دی۔
ٹام ہرنڈل کوما میں چلے گئے اور بعد میں انہیں علاج کے لیے لندن کے ایک اسپتال میں منتقل کر دیا گیا جہاں 13 جنوری 2004 کو ان کا انتقال ہوگیا۔
ان کے خاندان اور برطانوی وزیر خارجہ کے دباؤ کے نتیجے میں اس وقت کے اسرائیلی اٹارنی جنرل نے ان کے قتل کی تحقیقات کا حکم دیا اور اسرائیلی ریکروٹ تیسیر ھاییب کو 2005 میں ساڑھے 11 سال سزا سنائی گئی۔ لیکن 6 سال بعد رہا کر دیا گیا۔
فریڈم فلوٹیلا کے کارکن
2010 میں، "فریڈم فلوٹیلا” مہم کے تحت یکجہتی کے نمائندے انسانی امداد اور ادویات لے جا رہے تھے۔ چھ کشتیوں پہ مشتمل اس بیڑے میں 37 ممالک سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے تقریباً 750 افراد سوار تھے، جن میں اکثریت ترک باشندوں کی تھی۔
31 مئی 2010 کو ایک اسرائیلی کمانڈو ٹیم نے غزہ کی پٹی پر مسلط کردہ اسرائیلی محاصرہ توڑنے کی کوشش میں ترک بحری جہاز پر حملہ کیا جو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر چھ کشتیوں پر مشتمل فلوٹیلا کا حصہ تھا۔ اسرائیلی حملے میں 10 افراد ہلاک اور 56 زخمی ہوئے۔
اس واقعے نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان ایک سنگین سفارتی بحران کو جنم دیا جو چھ سال تک جاری رہا یہان تک کہ مہینوں کے خفیہ مذاکرات کے بعد معاہدہ ابراہیم طے پا گیا، جس کے تحت اسرائیل نے مرنے والوں کے لواحقین کو 20 ملین ڈالر معاوضہ ادا کیا، اس کے بدلے میں دونوں فریقوں نے کسی بھی اسرائیلی شہری یا اسرائیلی حکومت کے کسی نمائندے کو جوابدہ نہ ٹھہرانے پر اتفاق کیا۔
ترک نژاد امریکی کارکن عائشہ نور ایگی
فلسطین میں اپنی آمد کے دو دن بعد، ترک نژاد امریکی کارکن عائشہ نور ایگی (26 سال) نے فلسطینی کسانوں کے تحفظ کے لیے "فضہ” مہم میں حصہ لیا ، جہاں انہیں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا۔
بیتا قصبے سے تعلق رکھنے والے ایک عینی شاہد نے یکجہتی کارکن ایگی کے زخمی ہونے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہا کہ “ہفتہ وار اینٹی سیٹلمنٹ مارچ میں قصبے کے لوگوں کے ساتھ متعدد غیر ملکی یکجہتی کارکنوں نے شرکت کی۔ قابض فوج نے اسنائپرز کو قریبی پہاڑیوں پر متعین کیا تھا۔ یہ اس جگہ سے تقریباً 200 میٹر دور ہے جہاں عائشہ زخمی ہوئی تھیں۔”
گواہ نے وفا ایجنسی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا: ’’آدھا گھنٹہ بھی نہیں گزرا تھا کہ قابض فوجیوں نے شرکاء پر زہریلی گیس کے گولے برسائے۔ یکجہتی کارکن "عائشہ” اپنے ایک ساتھی سے بات کر رہی تھیں، تو قابض فوجیوں نے دو گولیاں ان پہ چلائیں۔ جن میں سے ایک ان کے سر میں لگی.دوسرے کے چھرے ساتھ کھڑے نوجوان کو لگے، اور اس کے بعد میں نے فوجیوں کو خوشی سے ناچتے دیکھا۔”
عینی شاہد بتاتے ہیں کہ "یکجہتی کارکن عائشہ سے قابض فوجیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں تھا، کیونکہ وہ پہاڑ کے دامن میں کھڑی تھی، جب کہ وہ قریبی بلندیوں اور مکانات پر بندوقیں تھامے کھڑے تھے۔”
"عائشہ” چھ ستمبر 2024 جمعہ کو نابلس کے ہسپتال پہنچنے کے فوراً بعد انتقال کر گئیں۔