امریکی بلومبرگ نیوز ایجنسی نے کہا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج افرادیقوت کی کمی کا شکار ہے اور سات اکتوبر 2023ء سے غزہ کی پٹی پر جاری نسل کشی کی جنگکی روشنی میں ریزرو فورسز تھکن کا شکار ہیں۔
ایجنسی نے جمعےکو اپنی ایک رپورٹ میں مزید کہا کہ ریزرو فورسز کے تقریباً 350000 فوجی غزہ پرجنگ میں فوج کی باقاعدہ افواج کی مدد کے لیے یا حزب اللہ کی طرف سے لبنان سے داغےگئے میزائلوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جنگ میں شامل تھے۔
اسرائیل ایک بارسوچتا تھا کہ وہ تین محاذوں پر لڑ سکتا ہے لیکن اس جنگ میں اسے حیرت ہوئی کہ اس کیزیادہ تر باقاعدہ فوج اور اس کی دو تہائی ریزرو فورسز ایک محاذ میں الجھ گئیں۔ اسےصرف غزہ میں چھ فوجی ڈویژن تعینات کرنے پرمجبور ہونا پڑا۔ جبکہ اسے اکتوبر 1973ء کی یوم کپور جنگ میں ان میں سے نصف افواجکو استعمال کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔
ایجنسی نے وضاحتکی کہ ان کے کندھوں پر رکھے گئے کاموں کا بوجھ اسرائیل کی مسلح افواج کی صفوں کو مضبوط کرنے کےلیے مصائب کی حد کو ظاہر کرتا ہے، جبکہ وہ افرادی قوت کی کمی کو معیشت کو نقصانپہنچانے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے۔
اخبار نے نشاندہیکی کہ یہ انکشاف قابض ریاست کے اندر بڑھتے ہوئے عدم اطمینان کے دورمیں سامنے آیاہے کیونکہ "حریدی” یہودی فرقے نے حکام کی جانب سے فوجی خدمات میں شاملہونے کے مطالبات کا جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔
قابض فوج کے پاس10 ملین افراد کی کل آبادی میں سے تقریباً 170000 باقاعدہ فوجی ہیں، جو کہ آبادیکے مقابلے میں اسے ایک بڑی فوج ہے۔ مگر اسرائیل جس طرح خطرات میں گھرا ہوا ہے توموجودہفوج کے حجم کے مقابلے میں یہ اب بھی بہت چھوٹی فوج ہے۔
امریکی ایجنسی نےنشاندہی کی کہ یہ بات سات اکتوبر2023ء کو اس وقت واضح ہوئی جباسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے عسکری ونگ القسام بریگیڈزنے غزہ کی پٹی سے ملحقہبستیوں میں فوجی مقامات پر حملہ کیا۔
ایجنسی کا کہناہے: "ایسا لگتا ہے کہ ایک چھوٹی اور ہوشیار فوج کا نعرہ، جس پر اسرائیل کبھیلوگوں کی طاقت پر اعلیٰ ٹیکنالوجی کو ترجیح دینے کی وجہ سے فخر کرتا تھا، آج ایکپرانا نعرہ بن چکا ہے”۔