کل‘ سات اکتوبر کو‘ غزہپر صہیونی جارحیت اور دہشت گردی کو ایک سال ہو جائے گا۔ اس ایک سال کے دوران42ہزار سے زائد شہادتیں بھی فلسطینیوں کے جذبۂ ایمانی کی حرارت مدھم نہیں کرسکیں۔ وہ اپنے رہنماؤں کو کھونے کے بعد بھی اسرائیل کی درندگی کے سامنے برسرپیکار ہیں۔ غزہ میں رونما ہونے والے سانحات کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے۔ انہولناک واقعات پر بحیثیت انسان کوئی بھی خاموش نہیں رہ سکتا۔ حزب اللہ کے قائد ورہبر حسن نصراللہ بھی شہید ہو گئے اور بے بسی اور بے کسی کی مجسم تصویر بنے اسلامیممالک گوشۂ عافیت میں بیٹھ کر ان حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ حسن نصراللہ شہیدکوئی فوجی یا سیاسی رہنما نہیں روحانی مجاہد تھے۔ اسرائیل نے جب جب فلسطینیوں پرظلم و ستم ڈھایا حسن نصراللہ ایسے مردِ مجاہد ثابت ہوئے جو اُن کیلئے ہمیشہ سینہسپر رہے اور شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔ اُن کی شہادت کے بعد بھی صہیونیت کےخلاف ان کا مشن کمزور نہیں پڑا۔ حسن نصراللہ کو نشانہ بنانے کیلئے بنکر بسٹر بماستعمال کیے گئے۔ یہ امریکی فوج کے سب سے بڑے بنکر بسٹر بم تھے۔ جنیوا کنونشن کےتحت گنجان آباد علاقوں میں ان بموں کا استعمال ممنوع ہے۔
حزب اللہ جدید ترین میزائلوں اور اسلحہ سے لیس ایکانتہائی منظم جماعت ہے جو لبنان کے جنوبی اور اسرائیل کے شمالی علاقوں میں کافیمضبوط پوزیشن میں ہے جہاں حزب اللہ نے اسرائیل کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اورلبنان کا جنگی محاذ اسرائیل پر بھاری پڑ سکتا ہے۔ شہید حسن نصراللہ 1992ء سے حزباللہ کی قیادت کررہے تھے۔ انہوں نے اس تنظیم کو سیاسی اور عسکری طاقت میں بدلنےمیں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حسن نصراللہ کی شہادت اس بات کا اعلان ہے کہ مشرقِوسطیٰ میں جنگ کا محاذ باضابطہ طور پر گرم ہو چکا ہے۔ معاملہ اب غزہ تک محدود نہیںرہا‘ اسرائیل نے لبنان میں بھی جنگ کے شعلے بھڑکا دیے ہیں۔ حسن نصراللہ کو نشانہبنانے سے پہلے اسرائیل نے لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی حملے کرکے متعدد افراد کوشہید کر دیا تھا۔ اسرائیل نے پہلے حماس کو ختم کرنے کیلئے غزہ میں تباہی مچا دیاور اب لبنانیوں کی نسل کشی جاری ہے اور اقوام عالم مشرقِ وسطیٰ میں بارود کی بارشکو تماشائی بن کر دیکھ رہی ہیں۔
بہ شکریہ روزنامہ دنیا
مسلم ممالک نے سات اکتوبر 2023ء سے آج تک اسرائیل کےخلاف ہر عالمی فورم پر آواز اٹھائی ہے۔ لبنان کے تازہ حالات پر بھی مسلم ممالکفکر مندی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی غزہ میں جنگ بندی کی اپیل سمیتاسرائیل کو مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کے پھیلاؤ سے باز رہنے کا انتباہ جاری کر چکا ہےلیکن اقوامِ متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان سمیت فلسطین اور لبنان کے حامی ممالککی کوششوں کے باوجود حالات تبدیل ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ سلامتی کونسل کا ہنگامیاجلاس بھی نشستند‘ گفتند اور برخاستند کے سوا کچھ نہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کیچنگاریاں بھڑک اٹھی ہیں۔ اسرائیل‘ امریکہ اور یورپ پھر سے اس خطے میں جنگ واپس لےآئے ہیں۔ غزہ کے بعد انہوں نے لبنان پر چڑھائی کر دی پھر شام کی باری بھی آ سکتیہے۔شام کی سرحدیں ترکیہ سے ملنے کی وجہ سے یہ جنگ ترکیہ کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔اسرائیل‘ امریکہ اور یورپ اس پورے خطے کے نقشے کو تبدیل کرنے پر کا م کر رہے ہیں۔اگر عرب ممالک اس صورتحال میں خاموش تماشائی بنے رہے تو اُن کی باری بھی آ سکتیہے۔ اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ اس جنگ میں ایران کو بھی گھسیٹ لیا جائے اور اگریہ جنگ ایران تک پہنچی تو ہم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔اگر غزہ کی طرحلبنان اور شام بھی اپنا تحفظ نہ کر سکے تو اناطولیہ کا کوئی حصہ اس جنگ سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
اس وقت مشرقِ وسطیٰ میں دو محاذ گرم ہیں‘ ایک بیرونیحملہ آور کے ساتھ ہے اور دوسرا مزاحمت کاروں کے ساتھ۔ مغربی فوجی مہم جوئی نےعراق‘ شام‘ مشرقی بحیرۂ روم اور Aegean Sea سمیتپورے علاقے کو ہدف بنا رکھا ہے۔ آج بیروت پر بم گرائے جا رہے ہیں کل کو یہ بمدمشق پر بھی گرائے جا سکتے ہیں اور اس کے بعد تہران بھی بموں کی زد میں آ سکتاہے۔ یہ بم استنبول پر بھی گرائے جا سکتے ہیں۔ Aegean Sea کے تمام جزائر‘ یونان‘ جنوبی شام‘ لبنان اور بحیرۂ روم میں اسوقت غیر معمولی حالات کا سامنا ہے۔ مسلم ممالک فوری طور پر اسرائیل کی بڑھتیجارحیت کو روکیں کیونکہ جتنی دیر ہوتی جائے گی اتنی ہی مشکل بڑھتی جائے گی۔ ایراننے یکم اکتوبر کی رات اسرائیل پر 200میزائل داغ کر مسلم اُمہ کے جذبات کی ترجمانیکی۔در حقیقت اقوام متحدہ میں امریکہ کا اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے مشرقِ وسطیٰ میںصورتحال بگڑتی چلی گئی اور اب یہ خطہ بدترین انسانی المیے سے دوچار ہے۔ اسرائیل کیخواہش ہے کہ جس طرح امریکہ اُس کی پشت پناہی کر رہا ہے‘ اقوام متحدہ بھی کرے۔اسرائیل کا اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ناپسندیدہ شخصیت قراردینا قابلِ مذمت ہے۔ اسرائیل کی طرف سے جنگ کو وسعت دینے کے باوجود امریکہ کااسرائیل کی مسلسل فوجی اور مالی امداد کا اعلان بڑا مضحکہ خیز ہے۔ امریکہ اوربرطانیہ کی جانب سے انسانیت کو تاراج کر نے کیلئے اسرائیل کومہلک ہتھیاروں کیسپلائی جاری ہے۔ مغربی دنیا کی منافقت بھی عیاں ہو چکی ہے۔ انہیں یوکرین کے جنگزدہ افراد تو نظر آتے ہیں مظلوم فلسطینی اور لبنانی نظر نہیں آتے۔ اگر اسرائیلکو اپنے دفاع کا حق ہے تو ایران‘ یمن اور لبنان کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ امریکہ کھلکر اسرائیلی جارحیت کی حمایت کر رہا ہے اور اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں پرعملدرآمد میں ناکامی اگر یونہی اسرائیل کا حوصلہ بڑھاتی رہی تو وہ دن دور نہیں جبیہ خطرناک صورتحال مشرقِ وسطیٰ ہی نہیں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی‘ جسکے نتائج عالمی سطح پر تصور سے کہیں زیادہ برُے ہوں گے۔
امریکہ کا نیا صدر کون ہو گا؟ وہاں اگلی حکومت کس پارٹیکی ہو گی؟ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کیلئےامریکہ کو اسرائیل کی ضرورت ہے اور اس کیلئے جو بائیڈن نے بطور امریکی صدر جوخدمات انجام دی ہیں وہ ساری دنیا کے سامنے ہیں۔ صہیونی حکومت نے ایک برس میںفلسطین میں نسل کشی کے ساتھ اب اس جنگ کو لبنان تک پھیلا دیا ہے اور اس جنگ کامرکز تیزی سے شمال کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔ اب خطے کے دیگر ممالک کو اس جنگ سےبچنے کیلئے غیر معمولی تیاری کی ضرورت ہے کیونکہ یہ جنگ غزہ اور لبنان تک محدودنہیں رہے گی۔ آنے والے دنوں میں کچھ بھی متوقع ہے۔ بلاشبہ حزب اللہ کے لیڈرکیشہادتوں نے خطے پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ نیتن یاہو نے غزہ پر حملے کے نتیجےمیں کھلم کھلا قتلِ عام کیا اور ہر قسم کا تشدد اختیار کیا۔ اب یہ تشدد ایک بڑےپیمانے پر دہشت گردی میں بدل چکا ہے۔ مسلم ممالک کو مل کر مغربی حملہ آوروں کےخلاف اُٹھ کھڑا ہونا چاہیے جو ان کی جغرافیائی حدودپر حملہ آور ہیں‘جنہوں نے عراقمیں دس لاکھ لوگ مار دیے‘افغانستان کو تباہ وبرباد کیا اور دنیا کے ہر کونے میںخفیہ تشدد کے طریقے پھیلا رکھے ہیں اور آج سب کچھ اس خطے میں پھر سے دہرایا جارہا ہے۔ مسلم اقوام کو بلا جھجک اسرائیل کے ہر حملے کا جواب دینا ہے۔مغرب صدیوں سےہمارے باہمی اختلافات اور اندرونی کمزوریوں کا فائدہ اٹھا کر مسلمانوں کو نیستونابود کر رہا ہے ۔وہ مسلمانوں کی زمین ،ذخائر اورمستقبل چرا رہا ہے۔اب لوگوں اورملکوں کو خطے کے تحفظ کیلئے بیدار ہونا پڑے گااور صدیوں سے قائم نو آبادیاتی تسلطسے نجات حاصل کرنا ہو گی۔اگر ایسا نہ ہوا تو ہماری نسلیں بے وطن اور بے گھر ہونےکے ساتھ ساتھ ا پنے قدرتی ذخائر اور آزادی بھی کھو دیں گی۔