انسانی حقوق کیتنظیموں نےاسرائیلی ریاست کے بدنام زمانہ عقوبت خانے عوفر میں قید غزہ کے 222 قیدیوںکے نام شائع کیے،جن میں 21 ایسے قیدی بھی شامل ہیں جن سے یکم سے 10 اکتوبر کے درمیانملاقات کی گئی۔ سینکڑوں اب بھی جبری گمشدگی کا شکار ہیں۔
قیدیوں کے امور کیاتھارٹی اورفلسطینی کلب برائے اسیران نے سوموار کے روز ایک بیان میں کہا کہ غزہ کےقیدیوں سے ملاقات کےدوران عوفر جیل، نقب جیل، جیل اور سدے تیمان کیمپ شامل ہیں،جبکہ قیدیوں کے ادارے اس لمحے تک، نفحہ، ریموند، عسقلان اور مجد جیلوں میں غزہ کےقیدیوں سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
بیان میں زیرحراست افراد میں سے ایک کی طرف سے ایک مختصر گواہی پیش کی گئی۔
قیدی نے کہا کہ”مجھسے بہت سخت پوچھ گچھ کی گئی اور تشدد کیا گیا، میرے پورے جسم کو لوہے سے مار کر چورکردیا گیا۔ تشدد کے نتیجے میں زخمی ہونے کے بعد سرجری کی گئی۔ پھر مجھے وہیل چیئرپر پوچھ گچھ کے لیے واپس لایا گیا جب کہ میں بالکل برہنہ تھا”۔
اس نے کہا کہ”میںایک ماہ تک اسی حالت ہی رہا۔ پھر مجھے مشکل اور المناک حالات میں کئی مہینوں تک قیدتنہائی میں ڈال دیا گیا‘‘۔
قیدی نے یاد دلایاکہ قابض دشمن نے زمینی جارحیت کے دوران غزہ کی پٹی سے ہزاروں شہریوں کو گرفتار کیا،جن میں درجنوں خواتین، بچے اور طبی عملے کو نمایاں طور پر نشانہ بنایا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بات پر زور دیا کہ غزہکے سینکڑوں قیدی اب بھی جبری گمشدگی کا شکار ہیں، جن میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جنہیںجیلوں اور کیمپوں میں شہید کیا گیا تھا،