بچوں کے حقوق کےلیے کام کرنے والی دو بڑی تنظیموں ’یونیسیف‘ اور ’سیو دی چلڈرون‘نے غزہ کی پٹی میںبچوں کے خلاف تشدد کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ بچوں کےلیےکوئی "محفوظ جگہ” نہیں ہے۔
اقوام متحدہ کےبچوں کے فنڈ (یونیسیف) نے غزہ کی پٹی کے وسطی علاقے دیر البلح میں الاقصی شہداء ہسپتالکے صحن میں بے گھر افراد کے خیموں پر اسرائیلی جارحیت پر اپنے رد عمل میں کہاکہ "ہماری اسکرینیں ایک بار پھر بچوں کی تصویروںسے بھر گئیں۔ وہ بے رحمی سے مارے جا رہے ہیں اور جلائے جا رہے ہیں۔ ان خاندانوں کیتصویریں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے جو خیموں سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مارے جا رہےہیں۔
اس تناظر میں سیودی چلڈرن نے کہا کہ غزہ کی پٹی کو نسل کشی کی جنگ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہرروز بچوں اور خاندانوں پر حملے "جہنم کی گہرائیوں کی طرح ہیں، کوئی محفوظ جگہنہیں ہے”۔
مشرق وسطیٰ میںتنظیم کے علاقائی ڈائریکٹر جیریمی سٹونر نےزور دے کر کہا کہ شمالی غزہ کے رہائشیدو ہفتوں سے خوراک سے محروم ہیں۔ ایسے علاقے میں بمباری کی جا رہی ہے جہاں سے وہنہیں جا سکتے۔ ان کے لیے کسی طرف انخلاء بھی خطرے سے کم نہیں۔
انہوں نے استفسارکیا کہ اتنے بڑے پیمانے پر عام شہریوں کے قتل کا کیا فوجی مقصد ہو سکتا ہے؟۔ بچوںکے متوقع قتل کا جواز پیش کرنے کے لیے کولیٹرل ڈیمیج کا تصور استعمال نہیں کیاجانا چاہیے۔
اسٹونر نے نشاندہیکی کہ تنظیم نے غزہ کی پٹی کے وسط میں دیر البلح میں پولیو کے قطرے پلانے کا دوسرادور شروع کیا، جب کہ اس کی ٹیم صرف 500 میٹرکے فاصلے پر قابض اسرائیلی فوج کی بمباری کا سامنا کررہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہپہلے سے کہیں زیادہ واضح ہے کہ یہ بچوں کے خلاف جنگ ہے۔ جنگ بندی کے بغیر یہ ویکسینبچوں کی تکلیف دور نہیں کرسکتی۔
خیال رہے کہ کلسوموار کی صبح وسطی غزہ کے الاقصیٰ شہداء ہسپتال کے صحن میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوںکے خیموں پر اسرائیلی بمباری میں چار فلسطینی شہید اور تقریباً 40 زخمی ہوگئے۔ اسبمباری میں ایک بڑی آگ بھڑک اٹھی جس سے تقریباً 30 خیمے جل کرراکھ ہوگئے۔