غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی کی جنگ شروع ہونے سے پہلے، معذور افراد کی تعداد کل آبادی کا تقریباً 2.6 فیصد یعنی 20 لاکھ سے زیادہ تھی۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد اس میں 10000 کیسوں کا اضافہ ہوا ہے، اور خدشہ ہے کہ یہ تعداد زیادہ ہوسکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق،گذشتہ 23 جولائی تک غزہ کے زخمیوں میں سے کم از کم ایک چوتھائی، یا 22500 زخمی، ایسے زخموں کا شکار ہیں جس سے ان کی زندگی کا رخ بدل گیا ہے اور انہیں اب اور آنے والے سالوں کے لیے بحالی کی خدمات کی ضرورت ہے۔
احمد ابو شعبان ان ہزاروں زخمیوں میں سے ہیں جن کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل چکی ہے۔
فلسطینی یونیورسٹی میں فن تعمیر کی تعلیم حاصل کرنے والے پرجوش نوجوان کے لیے، جولائی 2024 کا موسم گرما ایسا تھا جس کی اسے توقع نہیں تھی۔
احمد اور ان کے خاندان کو جبری انخلاء کے احکامات پر غزہ کی پٹی کے جنوب میں اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور وہ ہزاروں دوسرے خاندانوں کی طرح مواصی خان یونس میں آباد ہو گئے۔ کیمپ میں زندگی مشکل اور سخت تھی، لیکن احمد نے اپنے اہل خانہ کے دلوں میں امید برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
تغطية صحفية: طفلة من ذوي الإعاقة نزحت مع والدها، واعتقل الاحتلال والدها وبقيت وحدها في مستشفى شــهداء الأقصى وسط قطاع غزة. pic.twitter.com/DUIOfvld0X
— شبكة قدس الإخبارية (@qudsn) November 14 2023
ایک بھیانک دن جب احمد ایک لمبی سڑک سے پانی لیے واپس آرہے تھے تو اچانک اسرائیلی میزائلوں کے حملے کا نشانہ بن گئے اور اس کے ساتھ ہی ان کی زندگی کا دھارا بدل گیا۔
کئی دنوں تک بے ہوش رہنے کے بعد ہوش آنے پر انہیں احساس ہوا کہ ان کے پاؤں اور دایاں ہاتھ غائب تھا۔
یہ صدمہ بیان سے باہر تھا احمد نے اپنا نیا جسم دیکھنے سے انکار کر دیا۔ گزرتے وقت کے ساتھ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں تشویش میں مبتلا ہے اور نہیں جانتا کہ اپنی زندگی معمول کے مطابق کیسے جئے گا؟
روزمرہ زندگی میں، وہ پوری طرح سے اپنی وہیل چیئر پر اور بہت سے معاملات میں اپنے گھر والوں کی مدد کے محتاج ہو گئے ہیں۔
"أعيروني أقدامكم”.. الفتاة "إيمان أبو صبحة” من ذوي الاحتياجات الخاصة، تعاني من هشاشة العظام وانحناء العمود الفقري، تدهورت حالتها الصحية عقب العدوان على غزة لانقطاع الأدوية التي تحتاجها، "أبو صبحة” تناشد للمساعدة في السفر لاستكمال علاجها. pic.twitter.com/zfhcE6Eaca
— #القدس_ينتفض (@MyPalestine0) September 14 2024
بے گھر لوگوں سے بھرے کیمپ کے اندر منتقل ہونا زخمی نوجوان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ خاص افراد کی ضروریات کے لیے ایسی جگہیں موزوں نہیں۔ وہ اپنے بائیں ہاتھ سے چمچ پکڑنے کی سخت کوشش کرتے ہیں مگر ناکام رہتے ہیں۔ پھر ان کا چھوٹا بھائی، ان کا دایاں بازو بن کر روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے میں مدد کرتا ہے۔۔۔
عالمی ادارہ صحت کی طرف سے جنگ کے نتیجے میں ہونے والے زخموں کی اقسام کے تجزیے سے معلوم ہوا ہےکہ سب سے زیادہ شدید چوٹیں بازو اور ٹانگوں پہ لگی ہیں۔ اندازے کے مطابق، 13455 سے 17550 کے درمیان ایسے زخمی ہیں۔ بہت سے مریض ایک سے زیادہ چوٹوں کا شکار ہوتے ہیں۔
12 ستمبر 2024 کو جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق ہاتھ اور ٹانگ کٹ جانے والے زخمیوں کی تعداد 3105 سے 4050 کے درمیان پہنچ گئی۔ ریڑھ کی ہڈی کی چوٹوں، دماغی تکلیف دہ چوٹوں اور شدید جلنے کی زخموں میں نمایاں اضافہ زندگی بدل کے رکھ دینے والے زخمیوں کی کل تعداد میں اضافہ کرتا ہے۔ ان میں ہزاروں خواتین اور بچے شامل ہیں۔
الجزيرة ترصد تفاقم معاناة ذوي الإعاقة خصوصا الصم والبكم جراء الحرب الإسرائيلية على قطاع #غزة
تقرير: إسماعيل الغول pic.twitter.com/kaPmBd0DsE
— إسماعيل الغول – Ismail Alghoul (@ismail_gh2) May 15 2024
مہلک ہتھیار
خان یونس میں ناصر میڈیکل کمپلیکس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ناہض ابو طعیمہ کا کہنا ہے کہ ہاتھ پاؤں زائل ہونے والے زخمیوں میں نمایاں اضافہ قابض افواج کی جانب سے نئے قسم کے ہتھیاروں کے استعمال کی وجہ سے ہے جو ان سنگین زخموں کا باعث بنتے ہیں۔ ہسپتالوں میں روزانہ زخمیوں کی آمد نے زخمیوں کے لیے مستقل معذوری کے امکانات کو دوگنا کر دیا ہے، کچھ زخمیوں کو ہسپتالوں میں لے جانے میں تاخیر کے باعث زخم بگڑ رہے ہیں اور طبی ٹیموں کے لیے ان سے نمٹنا مشکل ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ طبی مراکز تک رسائی اکثر عدم تحفظ، حملوں اور بار بار جبری انخلاء کے احکامات کی وجہ سے نہیں ہو پاتی۔
خنازير صهيونية إرهابية تستهدف شابا فلسطينيا من ذوي الاحتياجات الخاصة أثناء سيره على معبر لذوي الاحتياجات الخاصة في دير البلح وسط قطاع غزة pic.twitter.com/nfibeg6PBO
— غزة الآن – Gaza Now (@nowgnna) August 28 2024
غزہ میں اعضاء کی تعمیر نو اور بحالی کا واحد مرکز ناصر میڈیکل کمپلیکس میں واقع ہے۔ یہ سپلائی کی کمی کی وجہ سے دسمبر 2023 سے بند ہے۔ پہلے عملے کی حفاظت کے خوف سے چھوڑنے پر مجبور کیا گیا تھا، اور پھر فروری 2024 میں ایک حملےمیں اس مرکز کو تباہ کر دیا گیا تھا۔
رپورٹس بتاتی ہیں کہ 10 مئی تک 39 فزیو تھراپسٹ مارے گئے۔
ڈاکٹر ناہض کہتے ہیں کہ بحالی کی خدمات اور زخموں کے لیے مصنوعی اعضاء کی تنصیب کی سہولت اب دستیاب نہیں ہے، کیونکہ زخمی افراد کی تعداد جنہیں امدادی آلات کی ضرورت ہے، غزہ کی پٹی کے تمام مراکز میں دستیاب آلات سے کہیں زیادہ ہے۔
بحالی کی خدمات میں خلل
مقبوضہ فلسطینی علاقے میں عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر رچرڈ پیپرکورن کا کہنا ہے کہ صحت کے نظام کی جاری تباہی کے ساتھ بحالی کی ضروریات میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ طبی آلات کی خستہ حالی اور کمی، ادویات اور ایندھن کی کمی کی وجہ سے غزہ میں 36 میں سے صرف 17 ہسپتال جزوی طور پر اپنے کام انجام دے رہے ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں: "مریضوں کو وہ دیکھ بھال نہیں مل سکتی جس کی انہیں ضرورت ہے۔ شدید بحالی کی خدمات میں شدید خلل پڑتا ہے، اور پیچیدہ زخموں میں مبتلا افراد کے لیے خصوصی دیکھ بھال دستیاب نہیں ہے، جس سے مریضوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
"عندما يحدث القصف لا أعرف أين أتجه”.. محمود أبو ناموس من ذوي الإعاقة السمعية دُمّر منزله ونزح 6 مرات منذ بداية العدوان على غزة ويعاني من أجل تأمين الخبز لعائلته pic.twitter.com/u9VqP7PSeo
— الجزيرة مصر (@AJA_Egypt) January 28 2024
بحالی کے میدان میں بہت زیادہ ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فوری اور طویل مدتی مدد کی فوری ضرورت ہے،” انہوں نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "غزہ میں بحالی کے شعبے سے وابستہ عملے کا ایک بڑا حصہ اب بے گھر ہو چکا ہے۔”
جبری نقل مکانی کی مشکلات
ایک ایسے وقت میں جب ہر کوئی اپنے بقا کی کوشش کر رہا ہے، نقل و حرکت میں دشواری اور دوسروں کی مدد کی ضرورت کی وجہ سے معذور افراد کو بار بار جبری نقل مکانی میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ذہنی معذوری یا آٹزم کے شکار بچوں کے لاپتہ ہونے کے درجنوں کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
ان میں سے ہزاروں افراد کو مناسب پناہ گاہ تلاش کرنے، پانی، خوراک، ادویات اور معاون آلات جیسے کہ وہیل چیئر، واکر، سماعت کے آلات وغیرہ حاصل کرنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے، جن کی انہیں اشد ضرورت ہے۔ بجلی کی بندش کے باعث اونچی عمارتوں سے معذور افراد کو نکالنے میں بھی شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
#حملة علاج فانزات الضيف والسنوار وابو عبيدة #العلاج_بالصدمة #أصوات_من_غزة pic.twitter.com/U38t050x4X
— محمدأبوفراس (@abuferas__) October 16 2024
معذور افراد کی بحالی کے لیے کام کرنے والی فلسطینی این جی اوز نے غزہ کی پٹی میں بڑھتی ہوئی اور جاری اسرائیلی جارحیت کے خطرناک اثرات کے بارے میں انتباہ کیا ہے کہ یہ بے مثال انسانی تباہی معذور افراد کی زندگیوں کو ہر سطح پہ متاثر کر رہی ہے.
گذشتہ 29 جون کو شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق، غزہ میں سینکڑوں معذور افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، ہزاروں معذور افراد نقل مکانی کی مشکلات سے دوچار ہونے کے علاوہ شدید نفسیاتی مسائل کا بھی سامنا کر رہے ہیں۔
نیٹ ورک کے ڈائریکٹر امجد الشوا کہتے ہیں کہ قابض فوج کی جانب سے بنیادی ڈھانچے، اہم سڑکوں، رہائش گاہوں اور بحالی کے شعبے میں کام کرنے والی تنظیموں کے ہیڈ کوارٹرز کی تباہی نے معذور افراد کی نقل و حرکت اور اہم خدمات تک رسائی کی صلاحیت کو بھی محدود کر دیا ہے۔
اس کے علاوہ، وہ بار بار بے گھر ہونے کی وجہ سے اپنے امدادی آلات سے محروم ہو گئے ہیں۔
اہم تعداد
فلسطینی سینٹرل بیورو آف سٹیٹسٹکس کی رپورٹ کے مطابق جنگ شروع ہونے پر غزہ کی پٹی میں معذور افراد کی تعداد تقریباً 58000 تک پہنچ گئی ہے جو کل آبادی کا 2.6 فیصد بنتی ہے۔ یاد رہے کہ 18 سال اور اس سے زیادہ عمر کے بالغوں میں معذوری کی شرح 3.9 فیصد ہے۔
معذوری کا پھیلاؤ شمالی غزہ کی گورنری میں سب سے زیادہ تقریباً 5 فیصد تھا، اس کے بعد دیر البلح گورنری میں، 4.1 فیصد ہے۔
أصحاب الاحتياجات الخاصة في قطاع #غزة يتخطى عددهم 100 ألف شخص، حيث يعيشون مع أهاليهم ظروف الهرب من القصف وحالات النزوح بشكل مضاعف الصعوبة#أصوات_من_غزة pic.twitter.com/zWkwxCglvO
— قناة الجزيرة (@AJArabic) July 21 2024
ایجنسی کے مطابق، سال 2023 میں 2 سے 17 سال کی عمر کے معذور بچوں کی تعداد تقریباً 98 ہزار بچوں تک پہنچ گئی، جن میں 2 سے 4 سال کی عمر کے تقریباً 6 ہزار بچے بھی شامل ہیں، اور 5 اور 17 سال کی عمر کے گروپ میں تقریباً 92 ہزار بچے معذور ہیں۔
دوسری طرف، غزہ کی پٹی میں 2 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں سیکھنے کی مشکلات سب سے عام معذوری ہیں، اور ان کی تعداد 2023 میں تقریباً 21200 بتائی گئی ہے۔
خیال ہے کہ جںگ کے دوران نفسیاتی صدمات کی وجہ سے یہ تعداد بڑھے گی۔
بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی
معذور افراد کے موجودہ حالات اور مہلک ہتھیاروں کا استعمال، جس نے معذور افراد کی تعداد کو دوگنا کردیا ہے، بین الاقوامی انسانی قانون اور مسلح تنازعات میں معذور افراد کے حقوق کے قانون کی صریح خلاف ورزی ہیں۔
معذور افراد کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کا کنونشن، جس کی اسرائیل نے 2012 میں توثیق کی، کہتا ہے کہ رکن ممالک کو، تنازعات میں "معذور افراد کے تحفظ اور حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔”
اسی طرح، بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت، متحارب فریقوں کو عام شہریوں کو پہنچنے والے نقصان کو کم سے کم کرنے کے لیے تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں، جیسا کہ "آبادی والے علاقوں میں دھماکا خیز ہتھیاروں کے استعمال سے گریز سے متعلق اعلامیہ”، جس پر 83 ممالک نے دستخط کیے ہیں۔ اسی طرح بڑے پیمانے پر دھماکہ خیز ہتھیار اور گنجان آبادی والے علاقوں میں اندھا دھند کی بھی ممانعت ہے۔