اسلامی تحریکمزاحمت ’حماس‘ نے کہا ہے کہ جماعت غزہ کی پٹی میں حتمی جنگ بندی اور قابض افواج کےمکمل انخلاء کی ضمانت دینے والے "کسی بھی معاہدے” پر بات چیت کے لیے تیارہے۔
حماس کا کہنا ہےکہ مزاحمت کے زیر حراست امریکی قیدیوں کی رہائی کے بارے میں حالیہ بات چیت ہی ہو گی۔جنگ بندی کے لیے اسرائیل پر بیرونی دباؤ کی ضرورت ہے کیونکہ صہیونی انتہا پسندحکومت فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی جنگ روکنے کے لیے تیار نہیں۔
حماس کے پولیٹیکلبیورو کے سربراہ کے میڈیا ایڈوائزر طاہر النونو نے بدھ کو مرکز اطلاعات فلسطین سےگفتگو ایک میڈیا انٹرویو میں کہا کہ غاصب صرف ایک نکتے پر بات کر رہے ہیں، جو کہجزوی یا مکمل عمل ہے۔ قیدیوں کے تبادلے کا عمل لازمی طور پر جارحیت کے مکمل خاتمےاور غزہ کی پٹی سے انخلاء کا باعث نہیں بنے گا۔حماس صرف قیدیوں کی رہائی کی بات کومسترد کرتی ہے۔
حماس کے رہ نما کاکہنا تھا کہ معاہدے کے معاملے پر پیش رفت کا مسلسل اعلان میڈیا کی خبریں ہیں۔ فیالحال اس حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ قابض حکومت جارحیت کا جزویخاتمہ چاہتی ہے یا عارضی جنگ بندی، اور جزوی تبادلے کا معاہدہ، یہ سب صرف میڈیا کیباتیں ہیں۔ان کا مقصد امریکی انتخابات سے متعلق اسرائیل اور امریکہ کے اندر میڈیامہمات کا حصہ بننا ہے۔
انہوں نے نشاندہیکی کہ امریکی انتظامیہ نے حالیہ پیشکشوں کے دوران امریکی قیدیوں کی رہائی کامطالبہ کیا تھا اور یہ صرف غزہ کے خلاف جارحیت روکنے اور پٹی سے مکمل طور پرانخلاء کے لیے قابض پر دباؤ ڈال کر کیا جائے گا۔
ایک اور سیاق وسباق میں حماس رہ نما نے کہا کہ "تحریک انتہائی مشکل حالات سے گذری۔ اس کےپاس ایک قیادت اور ایک نظام تھا۔ یہ قیادت اور نظام موجود ہے۔ وہی قیادت مذاکرات کیذمہ دار ہے‘‘۔