جمعه 15/نوامبر/2024

اسرائیل کی خفیہ جوہری جنگ

اتوار 9-ستمبر-2007

  ’’امینہ فطور کی عمر چودہ برس ہے – اس نے فلسطینی مقبوضہ شہر’’حیفا‘‘ کے ایک گنجان ﺁباد علاقے’’ تل سالم‘‘ میں ایک غریب گھرانے میں ﺁنکھ کھولی- ساتویں جماعت میں زیر تعلیم امینہ ایک دن کمرہ جماعت میں اچانک بے حوش ہو گئی- سکول کی انتظامیہ نے اسے اٹھایا اور ایک مقامی ہسپتال میں داخل کرا دیا- جہاں ڈاکٹروں نے امینہ کا چیک اپ کیا تو معلوم ہوا کہ اسے ہیپاٹائٹیس سی جیسا مہلک مرض لاحق ہے- چنانچہ اس کے والدین کو مطلع کیا گیااور امینہ کو اس کے علاج کے لیے خون کی ضرورت پیش ﺁئی- چنانچہ اس کے والد یوسف حمد جن کا بلڈ گروپ امینہ کے بلڈ گروپ کے مطابق تھا، نے اپنا خون بلیڈ کرایا ، تو ڈاکٹروں نے وہ خون یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ اس خون میں بھی ہیپا ٹائٹس سی کے جراثیم موجود ہیں- چنانچہ ان کے ایک قریبی عزیز نے اپنا خون دیا تو اس کے بارے میں پتہ چلا کہ اسے کینسر کا مرض لاحق ہے-

اس طرح جب مسلسل تین افراد کے خون کا معائنہ کیا گیا تو شہر میں یہ بات عام ہو گئی کہ ’’حیفا‘‘ میں کینسر اور ہیپاٹائٹس سی کے امراض پھیل رہے ہیں- چنانچہ امینہ کا معاملہ تو ایک طرف رہا لوگوں نے اپنے خون کے معائنے کے لیے ہسپتالوں میں ﺁنا شروع کر دیا- بیسیوں لوگوں کے خون کا معائنہ کیا گیا تو معلوم ہواکہ بیشتر لوگ اسی طرح کی مہلک امراض اپنے اندر پال رہے ہیں- کچھ لوگوں میں محض علامات موجود ہیں جبکہ بعض ایسے بھی ہیں جنہیں کینسر اور ہیپاٹائیٹس سی کا مرض ابتدائی نوعیت سے ﺁگے بڑھ چکا ہے-

امینہ کو یہ موذی مرض تین سال قبل لاحق ہوا ، اب یہ مرض اس کے جسم میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے- اگرچہ امینہ اقوام متحدہ فلسطینی پناہ گزینوں کے امدادی ادارے ’’اونروا‘‘ کے ہسپتال میں زیرعلاج ہے، تاہم اس کی حالت پہلے سے کہیں خراب ہے- امینہ کے والد بھی چونکہ اسی مرض میں مبتلا ہیں لہذا ان کا بھی علاج جاری ہے – اس طرح امینہ کے خاندان اور قریبی عزیزوں میں ایک درجن کے قریب افراد ایسے ہیں جو اسی طرح کی مہلک امراض کا شکار ہیں-

’’حیفا‘‘ میں کینسر اور ہپیا ٹائیٹس کی وبا کی خبر عام ہونے پر فلسطین میں کام کرنے والے ایک انسانی حقوق کے ادارے نے علاقے میں بین الاقوامی ڈاکٹرو ں کی ایک ٹیم بھیجی تاکہ تیزی سے پھیلتے ہوئے ان امراض کی حقیقت کا سراغ لگایا جائے اور ان کی وجووہات تلاش کی جائیں- عالمی طبی امدادی ٹیم نے ایک ہفتے میں اپنا سروے مکمل کر کے سروے کی رپورٹ جاری کر دی- رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ اسرائیل کی ایٹمی تنصیبات ،ایٹمی مواد تیار کرنے والے کارخانوں سے نکلنے والی تابکار شعائیں اور فاضل زہریلے مادے کے ﺁبادی میں پھینکے جانے سے اس طرح کی موذی امراض جنم لے رہے ہیں‘‘-

اوپر بیان کردہ واقعہ اسرائیلی کثیر الاشاعتی روزنامے ’’معاریف‘‘ میں شائع ہونے والی ایک تازہ رپورٹ ہے- جس سے اسرائیل کے جوہری پروگرام کے مضر اثرات اور انسانی زندگی پر اس کی تباہ کاریوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے-

اسرائیل نے اپنے ایٹمی مراکز کے لیے فلسطین کے ایسے علاقوں کا انتخاب کیا ہے جوعرب ﺁبادی کے گنجان ﺁباد علاقے سمجھے جاتے ہیں- مثال کے طور پر ’’صحرائے نقب‘ کفر زخاری، الخلیل اور حیفا‘‘ وغیرہ- بادی کے بالکل قریب ایٹمی تنصیبات اور ایٹمی اسلحے کی تیاری کے لیے لگائے گئے کارخانے بلاشبہ فلسطینی زندگی پر انتہائی مضر اثرات مرتب کر رہے ہیں -حال ہی میں اسرائیلی روزنامے ’’یدیعوت احرونوت‘‘ نے ’’اسرائیلی جوہری پروگرام کے ماحول پر اثرات‘‘کے عنوان سے ایک طویل اور مفصل رپورٹ شائع کی- رپورٹ میں جاری کردہ اعدادو شمار کے مطابق ’’حیفا‘‘ عرب ﺁبادی کا ایسا شہر ہے جو اسرائیلی جوہری پروگرام سے بری طرح متاثر ہوا ہے- جریدے نے اعتراف کیا ہے کہ اسرائیلی کارخانہ دار اور حکام ایٹمی کارخانوں سے نکالا جانے والا فاضل زہریلا مادہ ﺁبادی کے درمیان کھلے کھیتوں میں پھینک دیتے ہیں-’’حیفا‘‘ میں جوہری تنصیبات کے قیام کو اب سات برس ہونے کو ہیں- اس دوران وہاں موجود ﺁبادی میں کینسر، ہیپاٹائٹس سی، جلدی امراض کے علاوہ بچوں میں نفسیاتی امراض پھیلنا شروع ہو گئے ہیں- ایک اندازے کے مطابق حیفا کا ہر چھٹا شہری مذکورہ امراض میں سے کسی ایک یا زیادہ امراض کا شکار ہے- حیفا اور اس کے گرد و نواح کے ہسپتالوں میں موجوﺪ 60 فیصد مریضوں کا تعلق اسی نوع کی بیماریوں سے ہے-

حیفا کے بعد جو علاقہ اسرائیلی ایٹمی تابکاری سے سب سے زیادہ مسموم ہوا غرب اردن کا شہر الخلیل ہے- الخلیل فلسطین کا ایک تاریخی شہر ہے، اس شہر میں بھی مسلمانوں کے کئی اہم تاریخی مقامات ہیں- اس کے علاوہ یہ علاقہ بھی عرب ﺁبادی کا ایک گڑھ سمجھا جاتا ہے- قیام اسرائیل کے بعد الخلیل کو دو حصوں میں تقسیم کرنے سازش کی گئی تھی- ایک حصے میں باہر سے یہودیوں ﺁباد کاری اور الخلیل کے جنوبی حصے کو فاضل کیمیائی مادے سے زہر ﺁلود کرنے کی سازش جاری رہی- چنانچہ منصوبے کے تحت الخلیل کے جنوبی حصے کو’’ دیمونا ایٹمی پلانٹ کا کوڑا دان ‘‘بنا دیا گیا- ہر قسم کا فاضل کیمیائی مادہ جنوبی علاقے میں زیر زمین دفن کیا جاتا یا کھلے عام کھیتوں میں پھینکا جاتا رہا ہے- اسرائیل کی اس غیر مرئی جارحیت سے الخلیل کا بیشتر حصہ کینسر اور عورتوں میں بانجھ پن جیسی بیماریوں کی ﺁماجگاہ بن چکا ہے-

الخلیل کے جنوب میں واقع’’ بیت جالا‘‘ ہسپتال کے چائلڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹر محمود سعادہ کا کہنا ہے حالیہ چند برسوں میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے- ان کا مزید کہنا ہے کہ ’’دیمونا ایٹمی پلانٹ‘‘ اور اس کے فاضل مادے سے اہل علاقہ میں بانجھ پن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے- حاملہ خواتین کے حمل ضائع ہو جاتے ہیں جبکہ مردوں کا مادہ تولیدتولیدی خصوصیات کھو رہا ہے- ڈاکٹر سعادت نے بیت جالا ہسپتال میں موجود ایسی کئی خواتین کی مثال دی جنہوں نے معذور بچوں کو جنم دیا تھا- انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں پیدا ہونے والے نومولود بچوں کے چہرے مسخ شدہ ہوتے ہیں- کئی جسمانی لحاظ سے مکمل طور پر مفلوج جبکہ اکثر ماں باپ کے کینسر کے مریض ہونے کے باعث بچوں میں بھی وہی اثرات منتقل ہو جاتے ہیں- ڈاکٹر سعادت کا کہنا ہے کہ’’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اسرائیل نے ایک خفیہ ایٹمی جنگ فلسطینیوں کے رحم مادر کے خلاف شروع کر رکھی ہے‘ کیونکہ فلسطین کے بیشتر شہر ایسے ہیں جہاں خواتین بانجھ پن کا شکار ہیں- کئی خواتین کے حمل پانچ پانچ دفعہ اس غیر مرئی جنگ میں ضائع ہو چکے ہیں‘‘- بعض پورے کے پورے خاندان ہی کینسر جیسے موذی مرض کا شکار ہیں- کینسر کے علاوہ یہ تابکار شعاعیں اور زہریلا فاضل مادہ بانجھ پن، جلدی امرض، جریان خون ، مردوں میں جنسی کمزوری، اور خواتین میں سر کے بال گرنے جیسی بیماریاں پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں-

اسرائیلی دارلحکومت تل ابیب میں قائم ’’ھداسا‘‘ ہسپتال کے ایک یہودی سرجن میخائیل شابیرا کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ﺁنے والے کینسر کے مریض دراصل تابکار شاعوں کے مریض ہیں- ایسی تابکار شعاعیں جو کنیسر کا باعث بنتی ہیں- انہوں نے کہا کہ ان کی تجویز ہے کہ ان خطرناک تابکار شعاعوں کو ’’تابکار شعاعیں ‘‘کہنے کے بجائے’’کینسر کی شعاعیں‘‘ کہنا چاہیے-

 الخلیل کے جنوبی علاقے ’’بلدیہ یطا‘‘ کے چیئر مین بلدیہ ( مذہبا عیسائی)سامی شینور نے حال ہی میں علاقے میں بڑھتی ہوئی تابکاری کے حوالے سے ایک پریس کانفرنس منعقد کی اور بتایا کہ تابکاری کے باعث شہر کی ساٹھ فیصد خواتین میں بانجھ پن کی بیماری پھیل رہی ہے-

 اگرچہ اسرائیلی ایٹمی پروگرا م کے زیادہ تر منفی اثرات فلسطین مسلمان باشندوں پر پڑ رہے ہیں تاہم کسی حد تک یہودی ﺁبادیوں کے قریب ہونے کی وجہ سے یہودی بھی متاثر ہو رہے ہیں- اسرائیلی حکام نے یہودیوں کو تابکاری سے محفوظ رکھنے کے لیے بڑی تحقیق کے بعد’’الیوڈ‘‘ اور ’’ایلگل‘‘ کے نام سے ایک خاص قسم کی دوائی فراہم کر رکھی ہے- کیپسول کی صورت میں یہ اینٹی تابکاری دوائی ہر یہودی خاندان کو باقاعدگی کے ساتھ فراہم کی جاتی ہے- اس دوائی کے استعمال سے تابکاری کے مضر اور مہلک اثرات زائل ہو جاتے ہیں- بچوں کو تابکاری کے مہلک اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے مذکورہ ادویات سیرپ کی صورت میں بھی فراہم کی گئی ہیں- واضح رہے یہ دوائی بازار میں دستیاب نہیں- اسرائیلی حکام ہر ماہ ایک خاص مقدار میں یہ دوائی یہودی خاندانوں میں تقسیم کر دیتے ہیں –

 اسرائیلی جوہری پرگرام سے صرف انسانی زندگی ہی متاثر نہیں ہور ہی بلکہ حیوانی اور نباتاتی زندگی بھی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے-’’ یدیعوت احرونوت ‘‘کی رپورٹ کے مطابق ’’حیفا‘‘ کا شہر جو سب سے زیادہ متاثر ہوا ، وہاں موجود عرب شہریوں کی پولٹری انڈسٹری کا کار وبار ستر فیصد ختم ہو کر رہ گیا ہے- کھیتوں میں کاشت کی جانے والی فصلیں پکنے سے قبل ہی جل کر تباہ ہو جاتی ہیں- کھیتوں کی ذرخیزی بھی اب بنجر پن میں تبدیل ہو رہی ہے، بیشتر کھیتوں میں اب سبزی اگ ہی نہیں سکتی- درختوں خصوصا زیتوں کے پودے گل سڑ جاتے ہیں- یہ سب کچھ ان تابکار شعاعوں کی بدولت ہو رہا ہے، جو اسرائیلی اٹیمی کارخانوں اور زہریلے فاضل مادے سے پیدا ہوتی ہیں-

 یہی حال’’ صحرائے نقب‘‘ کا ہے- یدیعوت ہی کی رپورٹ کے مطابق صحرائے نقب جسے ایک طرف عرب ﺁبادی کا مرکز قراردیا جاتا ہے تو دوسری جانب اسے اسرائیلی ایٹمی مراکز کا گڑھ بھی کہا جاتا ہے- اگرچہ ایٹمی تنصیبات ﺁبادی سے کچھ فاصلے پر ہیں ، لیکن ایٹمی تابکاری سے شہریوں کی جان و مال محفوظ نہیں- جس طرح حیفا میں کارخانوں سے نکالا جانے والا فاضل زہریلا مادہ کھلے عام پھینک دیا جاتا ہے، اسی طرح صحرائے نقب میں بھی کیا جاتا ہے جس سے ﺁبادی میں بھی اسی نوع کی موذی امراض جنم لے رہی ہیں- یدیعوت احرونوت کے جاری کردہ اعدادو شما رکے مطابق صحرائے نقب میں پچیس فیصد شہریوں میں تابکاری کے مہلک اثرات پیدا ہو رہے ہیں- حیاتیاتی زندگی کے متاثر ہونے کے ساتھ ساتھ نباتاتی زندگی پر اس سے بھی زیادہ تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں-

 ایک اسرائیلی مصنف ایرک جیوس جو کہ کیمسٹری کے پروفیسر ہیں نے حال ہی میں اپنے ایک مضمون میں انکشاف کیاکہ’’ اسرائیل ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت عرب علاقوں میں ایٹمی تنصیبات کے قیام کو فروغ دے رہا ہے ‘‘- وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’یہ سب کچھ اس لیے کیا جارہا ہے تاکہ فلسطینی عرب شہریوں کو مزید علاقے خالی کرنے اور اسرائیل سے نقل مکانی پر مجبور کیا جا سکے‘‘- دوسری جانب’’ معاریف‘‘ کے جاری کرہ اعدادو شمار کے مطابق صحرائے نقب میں عرب شہریوں کی نقل مکانی میں پہلے سے کہیں زیادہ تیزی ﺁئی ہے- شروع شروع میں یہ نقل مکانی قریبی علاقوں تک محدود تھی لیکن تابکاری کے مضر اثرات کے پھیلاؤ کی وجہ سے شہری دور دراز علاقوں میں نقل مکانی پر مجبور ہیں- کئی خاندان 1948 ء کے مقبوضہ فلسطین ہی کو چھوڑ کر دوسرے ممالک میں زندگی گزارنے کو ترجیح دے رہے ہیں-

عجیب بات ہے کہ تابکاری پیدا کرنے والی کچھ مصنوعات مقامی طور پر اسرائیل کے اندر تیار کرنے پر پابندی ہے، مثلا الکحل، گاڑیوں میں استعمال ہونے والی بیٹریاں ﺁتش گیر مادے اور ایسی مصنوعات جن میں مختلف زہریلی گیسیں شامل ہوتی ہیں، ان کے علاوہ الومینیم دہات کی تیاری، چمڑے، زینک، نیکل، اور پلاسٹک کی مصنوعات شامل ہیں- مذکورہ مواد سے مصنوعات کی تیاری کے لیے1948 ء کے مقبوضہ فلسطین سے باہر اور خصوصا غرب اردن اور اس کے نواح میں کارخانے لگائے گئے ہیں- ان کارخانوں اور صنعتوں سے نکلنے والا فاضل مسموم مواد بھی قریبی علاقوں میں پھینک دیا جاتا ہے- غرب اردن کے علاوہ فلسطین کے پچاس سے زائد مقامات کو فاضل مواد کو دفن کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے- ان میں سے بیشتر فلسطینی ﺁبادیوں کے اندر یا قریب ہیں-

فاضل زہریلا مواد ٹرکوں پر رات کے وقت لایا جاتا ہے اور کھلے عام پھینک دیا جاتا ہے-1987 میں پہلی بار اسرائیلی تابکاری سے قلقیلیہ کا شہر متاثر ہوا جہاں راتوں رات اسرائیلی حکام نے کئی ٹن فاضل مواد زمین میں دفن کر دیا تھا- 1999 میں اسرائیلی حکام نے 250 بیریل زہریلا پانی غرب اردن کے شہرجنین میں پھینک دیا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تابکاری پھیلی-

اسرائیل فلسطین میں جوہری پروگرام کو عرب شہریوں کے مخصوص علاقوں تک پھیلا کر فلسطینیو ں کے خلاف ایک غیر محسوس انداز میں نسل کشی اور خفیہ جنگ جاری رکھے ہوئے ہے- حقوق انسانی کے عالمی ادارے اور خود اسرائیلی ذرائع ابلاغ صہیونی جوہری پروگرام کے فلسطینیوں پر پڑنے والے منفی اثرات کو اسرائیل کا طے شدہ منصوبہ قرار دے رہے ہیں-

اسرائیل سے شائع ہونے والے ایک انگریزی ہفت روزے ’’جیوش انٹیلی جنس ریویو‘‘ نے حال ہی میں اسرائیلی ایٹمی پروگرام کی ا یک تازہ ترین رپورٹ شائع کی ہے- رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے پاس ایسے بیسیوں میزائیل موجود ہیں‘ جو ایٹم بم اور دیگر بھاری ہتھیاروں   اور ایٹمی ہیڈوار کو با ﺁسانی1500 سے 2000 کلومیٹر تک لے جا سکتے ہیں- اس کے علاوہ اسرائیل کے پاس 200ایٹم بم ہیں‘ جو ہمہ وقت کسی بھی بڑے خطرے کی صورت میں حملے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں- اسرائیل نے زیرزمین ﺁٹھ ایٹمی پلانٹ تیارکر رکھے ہیں‘ جن کا سراغ روسی اور فرانسیسی سٹیلائٹ کے ذریعے لگایا گیا ہے- جریدے میں اسرائیل کے پورے ایٹمی پلانٹ کا نقشہ دکھایا گیا ہے- مشہور ایٹمی مراکز میں سے ’’صحرائے نقب دیمونا سنٹر‘ سوریق‘‘ کے مقام پر ’’پلوٹوینیم سازی‘‘ کی لیبارٹری اور تل ابیب میں ’’اوربہ‘‘ میزائل لانچنگ پیڈ جو کہ ایک تجرباتی میزائل لانچنگ پیڈ ہے ، اس کے علاوہ تل ابیب کے قریب امریکی طرز کا ایٹمی پلانٹ نصب ہے-

اسی طرح ’’حیفا‘‘ شہر میں بھی ایٹمی پلانٹ کے دو مراکز ہیں‘ جن کے نام ’’بابوناپلانٹ‘‘ اور ’’باڈیگارڈ‘‘رکھے گئے ہیں- اسرائیل کے مذکورہ ایٹمی مراکز جزوی ہیں جبکہ اصل مرکز ساحلی پٹی کے بالائی ٹیلوں میں واقع ہے- یہاں کے میزائلوں کا رخ القدس اور مسجداقصی کی جانب ہے- فرانسیسی سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر کے مطابق ’’کفرزخاری‘‘ کے مقام پر اسرائیل کا سب سے بڑا میزائل لانچنگ پیڈ ہے ‘ یہ 20مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے‘ اس علاقے میں50 سے زائد ایٹمی اسٹور زیر زمین موجود ہیں- یہاں بھی ’’جریکو2‘‘ میزائلوں کا رخ القدس اور مسجد اقصی کی طرف رکھا گیا ہے- اسرائیل کی اس انداز میں میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری، نیز ان کی تابکاری کے تباہ کن اثرات فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی مہم جوئی کی واضح علامت ہیں-

یہودی تعلیمی اداروں میں تعلیم بھی اس طرح کی دی جا رہی ہے جو مستقبل میں اسرائیل کے پڑوسی ممالک خصوصاً مسلم ممالک کے لیے ایک پیشگی خطرے کی گھنٹی ہے- تل ابیب کی یہودی یونیورسٹی ’’ابارلان‘‘کے پروفیسر ’’اسرائیل ایلڈاڈ‘‘ بار بار اپنے لیکچرز میں یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ ہم اپنی نئی نسل کو اس انداز میں تیار کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنے دشمنوں کو مزہ چکھا سکے اور اس کام کے لیے ہم نے مادی وسائل بھی کافی اکٹھے کر لیے ہیں- ایک امریکی مصنف اور معروف تجزیہ نگار ’’زیئف‘‘ اپنی ایک کتاب ’’Aims of Israel‘‘(اسرائیل کے مقاصد) میں رقم طراز ہیں کہ ’’ضرورت پڑنے پر اسرائیل اپنے دشمنوں کے خلاف ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی توقف نہیں کرے گا- اس نے یہ ایٹم بم بنائے ہی اسی لیے ہیں‘‘-

 ویسے توم تمام مسلم ممالک اسرائیل کے دشمنوں کی فہرست میں شامل ہیں تاہم شام، ایران اور پاکستان اس کی ہٹ لسٹ پر ہیں- ایران کے خلاف حالیہ امریکی پروپیگنڈے میں اسرائیل بھی کسی سے کم نہیں- ایران کے خلاف امریکی جنگی منصوبہ سازوں میں بنیادی کردار یہودی ماہرین جنگ کا رہا ہے-

کچھ عرصہ قبل ایک امریکی ہفت روزے’’اٹلانٹک‘‘ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں ایران کے مکمل نقشے کو تبدیل کرنے کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا- رپورٹ کے مطابق 5اطراف سے ایران پر حملہ اور پھر تین مرحلوں میں ایک ماہ کے اندر پورے ایران پر کنٹرول کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا- بعد ازاں لندن کے ایک اخبار نے اسی طرح کی ایک رپورٹ شائع کی جس میں ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے بارے میں ممکنہ حملوں کا ایک خاکہ شائع کیا گیا تھا- ایک درجن منصوبہ سازوں میں سے سات یہودی تھے، ان میں سے دو اسرائیلی شہری ہیں- 

بشکریہ ایکسپریس میگزین

9/09/07

لینک کوتاه:

کپی شد