جمعه 15/نوامبر/2024

فلسطینی امن وامان کی تاراجی اور امریکی صہیونی سازش

پیر 10-ستمبر-2007

فلسطین میں امن وامان کو خراب کرنیوالے وہ عوامل جن کا آغاز سال 2006ء میں ہوا تھا15 مئی 2007ء کو اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے، اس دوران امریکی صہیونی گٹھ جوڑ نے اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کی تشکیل کردہ منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے فتح کے شر پسند انقلابی ٹولے کو ہر ممکن مددبہم پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی- ’’دہشت گردی کے خلاف ‘‘ نام نہادجنگ کے بہانے صدر عباس کے زیر کمانڈسکیورٹی اہلکاروں کی عسکری تربیت، اسلحہ اور فوجی ساز وسامان سے لیس کرنے جیسے اقدامات سے نہ صرف خطے میں کشیدگی اور بد امنی کو ہواد ی گئی بلکہ مسلح اہلکاروں کے لیے اسرائیل سے ہر قسم کی سہولیات کی فراہمی کا پروانہ حاصل کرکے خطے میں امن و امان کے حوالے سے کئی طرح کے سوالات پیداگئے-

 اعتدال پسندی کا زعم باطل:

صدر محمود عباس کے زیرکمان سکیورٹی اہلکاروں کولاجسٹک سپورٹ مہیا کرنا، 17 فورسز ، دفاعی فورسز اور فتح کے دیگر انقلابی گروپوں کو اسلحے سے لیس کرنے کا مقصد غزہ پر فتح کا کنٹرول قائم کرنا تھا – امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے صدر محمودعباس کی حمایت اور اسے’’اعتدال پسند راہنما‘‘ جیسے القابات سے نوازنے کا مقصدبھی یہ یہی تھا کہ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے والی حماس کا اثرو رسوخ کلی طور پر ختم کیاجائے- اس حمایت اور مدد کا ایک مقصد اوسلو جیسے بدنام زمانہ اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق پر پانی پھیرنے والے معاہدے پر محمود عباس سے عمل در مد کرا کے اسرائیل کی حفاظت کرنا شامل ہے تاکہ اسرائیل کے خلاف جاری مسلح جدو جہد کا بالکل خاتمہ کر دیا جائے –

 بیرونی دنیا سے ملنے والی امداد چاہے وہ سیاسی ہو یا عسکری وہ فلسطین کے انقلابی گروپ(محمد دحلان گروپ) کو فراہم کی گئی- اس انقلابی گروپ نے بیرونی امداد کے بل بوتے پر حماس کی دو،منتخب ئینی حکومتوں، وزراء حکومتی عہدیداروں اور اراکین پارلیمان پر حملوں میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور فلسطین کے گلی کوچوں میں ہر سوبد امنی اور انارکی پھیلا ئی-

داخلی شورش میں بیرونی سازشیں

 جمہوریت پسندی کا ثبوت دینے والی فلسطینی قوم کے خلاف اقتصادی اور سفارتی ناکہ بندی کی امریکی اور اسرائیلی سازشیں کھل کر سامنے چکی ہیں- امریکی اور اسرائیلی حکام کی جانب دارانہ بیان بازی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکہ اور اسرائیل مل کراپنے مقاصد کے حصول کے لیے فلسطین میں بد امنی اور انارکی کو ہوا دے رہے ہیں- بات یہاں تک محدود نہیں بلکہ محمود عباس کے عسکری دھڑے کی ہر قسم کی مدد کر کے بزور قوت غزہ سے حماس اور اسرائیل مخالف لوگوں کا صفایا کرنے پر اکسایا جا رہا ہے-

 حماس کی جانب سے غزہ میں بیرونی ہاتھوں کے بد امنی پھیلانے سے متعلق عرب لیگ کو فراہم کردہ تفصیلی رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان شون ماکور ماک نے 12دسمبر2006ء کو اعلان کیاتھا کہ’’ امریکہ فلسطین میں حماس کی حکومت کے خاتمے کیلئے فتح کی جدید بھاری اسلحہ سے مدد کریگا،امریکی حکومت یہ کوشش کرے گی کہ کانگرس دسیوں ملین ڈالرز کی رقم عباس حکومت کو عسکری کارروائیاں تیز کرنے کیلئے دینے پر رضا مندہو جائے ‘‘-

اسرائیلی وزیر اعظم نے اکتوبر 2006ء میں ایک بیان میں اعتراف کیاکہ’’ ا سرائیلی حکومت انتخابات کے بعد پیدا ہونیوالی صورتحال سے نمٹنے

 کیلئے ابو مازن (محمود عباس)کو اسلحہ کی نئی کھیپ اور ہر قسم کا اگولہ بارود دے گی-یعنی( نقصان )سے پہلے تدارک کی حکمت عملی اپنائی جائے گی-

 حماس کی جانب سے موصول ہونے والی رپورٹ میں رواں سال غرب اردن کے لیے پیش کردہ امریکی امن منصوبے ’’ڈائٹون پلان‘‘ کو سب سے زیادہ خطرناک قرار دیا گیا – اس منصوبے میں صدر عباس کے زیر کمانڈ فورسز کو عسکری تربیت فراہم کر کے فلسطینی مزاحمت کاروں کے ساتھ برسر پیکارکرنا ہے-دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع افراہیم سنیہ نے کہا کہ’’ ڈائٹون پلان‘‘ کے مطابق فلسطینی سکیورٹی کے جدید اسلحے سے لیس کرنے سے اسرائیل کو کوئی خطرہ نہیں ہو گا،کیونکہ اس منصوبے کا مقصد حماس کو کمزور کرنا اور اس کی جگہ ایک معتدل من مانا طبقہ سامنے لاناہے-

’’ڈائٹون پلان‘‘

 حماس کی تحقیقاتی رپورٹ میں 2007ء کی امریکی دستاویز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ’’ امریکی جنرل کیتھ ڈائٹون کے دفاعی منصوبے میں صدر محمودعباس کو بڑے پیمانے پر عسکری تعاون فراہم کیے جانے کی ضمانت فراہم کی گئی ہے‘‘-پلان میں8500 اہلکاروں کو خصوصی عسکرتی تربیت دینا بھی شامل ہے-علاوہ ازیں فتح تنظیم اپنے دو ہمسائیہ ممالک (مصر اوراردن)کے تعاون سے ایک ہزار جنگجو تیار کرے گی- اس طرح مجموعی طورپر 13500 سکیورٹی اہلکاروں کو عسکری تربیت دے کر میدان میں اتارا جائے گا- منصوبے کی کل لاگت 86.4 ملین ڈالر مقرر کی گئی،جو امریکہ کی جانب سے صدر عباس کو فراہم کی جائے گی-

 امریکی ایجنڈے میں یہ بھی شامل ہے کہ نیشنل سیکورٹی پر مشتمل سپیشل یونٹ کے 8500 افراد کو ٹریننگ دینے کیلئے 35.8 ملین ڈالر رقم خرچ کی جائے گی جبکہ668افراد پر مشتمل سپیشل سکوارڈ بنانے کیلئے پندرہ ملین ڈالر کی خطیر رقم صرف کی جائے گی-تربیتی امور اردن میں انجام دیے جائیں گے اور ٹریننگ کی مدت 6 ماہ ہو گی-اسی طرح محمود عباس حکومت کے پروٹوکول سکوارڈ کی تر بیت کیلئے5.62 ملین ڈالررقم خرچ کی جائے گی،اور انکی تعداد بڑھا کر4700 کر دی جائے گی-ضرورت پڑنے پر یہ تعداد دس ہزار تک بڑھ سکتی ہے-تحریک فتح کے بدر بریگیڈ کے اردن میں مقیم جوانوں کے سازوسامان کیلئے 8ملین ڈالر رقم خرچ کی جائے گی تاکہ وہ غزہ میں پھیل کر اپنے مذموم ارادے پورے کرسکے-علاوہ ازیں1500افراد پر مشتمل صدر عباس کے لیے ایک خصوصی دستہ قاہرہ سے تربیت حاصل کرے گا –

اسلحہ کی کھیپ

 نئے انقلاب کیلئے امریکی کاوشیں ’’فتح‘‘ کے انقلابیوں اور صدر عباس ملیشیا کی مالی مدد اور عسکری تربیت تک ہی محدود نہیں بلکہ اسلحہ کی وافر مقدار میں فراہمی کیلئے بھی خصوصی انتظامات کئے گئے ہیں – اس سلسلے میں اسلحے سے بھرے کئی ٹرک بھی اسرائیلی تعاون سے فلسطین پہنچائے گئے-

اسرائیل کے راستے ’’کرم ابو سالم اور ’’رفح ‘‘راہداریوں سے بھی فلسطین میں اسلحہ ،راکٹ لانچر،میزائل،اور دیگر سامان حرب وضرب پہنچایا گیا- رپورٹ کے مطابق جون 2006 سے جولائی 2007 کے د وران 9 ٹرکوں پر مشتمل اسلحے کی کھیپ فلسطین داخل کی گئی، جس میں انقلابیوں کے لیے راکٹ لانچر، میزائل اورکلاشنکوفوں کے علاوہ بھای مقدار میں ایمونیشن بھی شامل تھا-اسلحے کی دوسری کھیپ رواں سال11جولائی کو غزہ پہنچائی گئی جس میں کئی ٹرکوں پر امریکی ساختہ M6 کلاشنکوفوں کے علاوہ بھاری مقدار میں ایمونیشن شامل تھا-

مشکوک امداد کی بھاری قیمت

 غرب اردن میں قائم سلام فیاض کی غیر ئینی حکومت اور صدر عباس کو اب بھی امریکی امداد کی فراہمی جاری ہے- اسلحہ کی یہ بھاری بھرکم پیش کش غرب اردن کے علاقے میں قائم دو فریقی حکومت (عباس،فیاض)کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے لیکن سہ فریقی تعاون کرنے والوں کو ایک بار پلٹ کر غزہ سے فرار کی کیفیت کو ذہن نشین کر لینا چاہیے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ سرمایہ اور اسلحہ یونہی رہ جائے اور کوئی دوسری طاقت اس پر قبضہ کر لے-

مبصر ین بار بارصدر عباس پر زور دے رہے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے فراہم کردہ یہ مشروط امدادفلسطین میں امن وامان بگاڑنے اور اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے اثرو رسوخ کے خاتمے کے لیے دی جارہی ہے، نیزامریکہ اپنے مقاصد میں کامیابی کے تناسب کو دیکھ کر امداد جاری رکھے گا- سوال یہ ہے کہ کیا صدر عباس امریکی امداد کی اتنی بھاری قیمت اٹھانے کی سکت رکھتے ہیں، کیا امریکی امداد کے عوض فلسطین میں خانہ جنگی کے بھڑکتی ہوئے گ وخون کے کھیل کو برداشت کریں گے اوراپنے ہاتھوں سے اپنا خرمن جلانے کی سعی کریں گے- اگر ایسا ہو گیا تو یہ صدر عباس کے لیے رسوا ترین اقدام ہو گا ، جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی-

مختصر لنک:

کاپی