نیم فوجی دستوں اور قاتل گروہوں سے جان بچا کر سینکڑوں فلسطینی امریکی زیر تسلط عراق سے راہ فراد اختیار کررہے ہیں اور دور دراز کے ممالک بشمول بھارت میں پناہ کی تلاش میں ہیں- پانچ صد سے زائد اجڑے ہوئے فلسطینی جن میں عورتوں اور بچوں کے علاوہ بیس معذور افراد بھی ہیں، جنوبی دہلی کے غریب علاقوں میں کسمپرسی کی زندگی بسر کررہے ہیں- وہ مایوس ہیں اور انہیں روشنی کی کوئی کرن بھی نظر نہیں آتی-
ہر روزوہ اس امید پر بیدار ہوتے ہیں کہ اقوام متحدہ کے مہاجرین کے کمشنر کی طرف سے انہیں ایک خط موصول ہوگا کہ کسی ایک ملک نے انہیں مہاجرین کے طور پر تسلیم کرنے پر اتفاق کرلیا ہے، مغربی ممالک جن میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ بھی شامل ہیں وہ بھارت سے مثلاً عراقی مہاجرین قبول کرتے رہے ہیں لیکن کسی بھی ملک نے آج تک کسی فلسطینی کو اپنے ہاں جگہ نہیں دی ہے –
فلسطینیوں نے عراق سے اس وقت فرار ہونا شروع کیا جب مہاجرین کے کہنے کے مطابق شیعہ ملیشیا نے انہیں صرف اس وجہ سے جان سے مارنا شروع کیا کہ وہ فلسطینی سنی تھے اور ان کو قتل ان کے شناختی کارڈ کو دیکھ کرکیا جاتاتھا- اس کامطلب یہ نکلا کہ فلسطینیوں کو صرف اس وجہ سے قتل کیا جاتاتھا کہ وہ فلسطینی تھے-
دہلی میں آنے والے فلسطینیوں کا تعلق بغداد کے علاقے بلدیات سے ہے جسے صدر احمد حسن البکر نے 1973ء میں فلسطینی مہاجرین کے لئے تیار کیاتھا ، امریکی حملے کے وقت یہاں کی آبادی 20ہزار تھی اب صرف 5ہزار فلسطینی ہیں- ایک فلسطینی مہاجر کا کہناہے کہ ایک جعلی عراقی پاسپورٹ پر بیرون ملک سفر کے لئے دو ہزار امریکی ڈالر درکار ہوتے ہیں-
فلسطینی اب بھی بلدیات علاقے میں موجود ہیں اور ان کو ہر وقت قتل اور تشدد کا خوف رہتاہے- یہ وہی لوگ ہیں کہ جو یہاں سے راہ فرار اختیار نہیں کرسکے ہیں،اس کے باوجود ساڑھے تین ہزار فلسطینی ہر روز کسی نہ کسی طرف مہاجرت اختیار کررہے ہوتے ہیں-
میری ملاقات دہلی کے وسنت گجن علاقے میں احمد محمد یونس سے ہوئی- اس کی 1952ء میں بغداد میں پیدائش ہوئی لیکن اب وہ اپنی عمر سے زیادہ کا دکھائی دیتاہے – اس کے والد نے فلسطین سے 1948ء میں عراق ہجرت کی تھی اور اسے امید تھی کہ وہ چند ہفتوں کے دوران وطن واپس چلا جائے گا لیکن اس کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی یہاں تک کہ وہ یہ خواہش دل میں لئے اس دنیا سے رخصت ہوگیا-
یونس عراق کے محکمہ پبلک ورکس میں کام کرتاتھا، تیس سال تک سروس کرنے کے بعد وہ پانی پائپوں کی نگرانی کے شعبہ کا سربراہ بن گیا یہاں تک کہ اسے سال 2006ء میں بغداد سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی -یونس کہتاہے کہ عراق پر امریکی حملے کے ایک سال بعد مسائل پیدا ہونا شروع ہوئے کہ جب شیعہ لیڈر مقتدی الصدر کی مہدی آرمی نے قوت پکڑلی، اس نے فلسطینیوں کو دھمکی دینا شروع کردی کہ اگر وہ موت سے بچنا چاہتے ہیں تو عراق فوری طور پر چھوڑ دیں- سال 2006ء کی ایک خوبصورت صبح ،انہیں کمپیوٹر سے نکالا گیا خط اپنے دروازوں پر ملا، ہر خط کے ساتھ ایک حقیقی گولی بھی تھی خط میں کہاگیاتھا کہ اگر انہوں نے عراق نہ چھوڑا تو انہیں قتل کردیا جائے گا-
یونس نے فیصلہ کیا کہ اپنے سب سے بڑے بیٹے 27 سالہ اعلی کو کسی دوردراز کے مقام پر بھیج دے – کردش نسل سے تعلق رکھنے والے ایک عراقی انسانی سمگلر سے ان کا معاملہ طے پاگیا کہ وہ سات ہزار امریکی ڈالر کے عوض اس کے بیٹے کو نیوزی لینڈ بھجوا دے گا- اس سمگلر نے ایک جعلی عراقی پاسپورٹ اور دیگر ضروری کاغذات فراہم کردیئے اور ایک طویل راستے کے ذریعے پورے گروپ کو نیوزی لینڈ روانہ کردیا گیا، ان میں یونس کا بیٹا اعلی بھی شامل تھا-جب یہ گروپ منزل پر پہنچا تو انہیں معلوم ہوا کہ وہ بھارت کے دارالحکومت دہلی پہنچ چکے ہیں، یہاں اس سمگلر نے ان سے ان کے جعلی پاسپورٹ اور بقیہ رقم لی اور یہ کہہ کر رفو چکر ہوگیا کہ وہ ان کے لیے ویز ا کا بندوبست کرنے جا رہاہے- ان لوگوں نے اس شخص کو دوبارہ نہیں دیکھا- سارا گروپ اجنبی علاقے میں ’’جے خانما ں پڑا ہواتھا-
یہ مارچ 2006ء کی بات ہے ، انہوں نے اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین سے رابطہ کیا، جس نے انہیں بطور مہاجر تسلیم کرلیا اور انہیں کاغذات فراہم کردیئے تاکہ بھارتی انتظامیہ و پولیس کے لوگ نہیں تنگ نہ کریں- پیچھے عراق میں صورتحال اس قدر خراب ہوئی کہ یونس نے دسمبر 2006ء میں فیصلہ کرلیا کہ اپنی بیوی، بیٹی اور دو لڑکوں کے ہمراہ بھارت کا سفر اختیار کریں اور اپنے بیٹے سے جاملیں، انہوں نے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین سے رابطہ کیا اور بر وقت انہیں مہاجرین تسلیم کرلیا گیا اور انہیں بھی اقوام متحدہ سے معمولی سی رقم کا وظیفہ ملنا شروع ہوگیا جن سے ان کی انتہائی بنیادی ضرورتیں پوری نہ ہوتی تھیں- مہاجرخاندان کے تسلیم شدہ سربراہ کو ہر ماہ 2245 روپے (56امریکی ڈالر) اور ہر ملحق فرد کو 750روپے (18.75امریکی ڈالر ) دیئے جاتے ہیں- یہ معمولی سی رقم بھی صرف چھ ماہ ملتی ہے اس کے بعد گھر کے سربراہ کا الاؤنس 1400روپے کردیا جاتاہے جبکہ ملحقہ افراد کو 600 روپے ماہانہ ملنا شروع ہوجاتے ہیں-
اس معمولی سے معاوضے کے لئے ہر درخواست گزار کو چھ سے آٹھ ماہ کا انتظار کرنا پڑتاہے تاکہ اس کی درخواست ضروری مراحل سے گزرسکے- اس کا انٹرویو کیا جاتاہے اور اعلی افسران اس کے مقدر کا فیصلہ کرتے ہیں- سب سے پہلے ہر درخواست گزار ایک درخواست فارم پر کرتاہے اور اس کے بعد دو صفحات پر مشتمل بیان پر دستخط کرتاہے کہ وہ اقوام متحدہ اور بھارتی قوانین کی لازماً پاسداری کرے گا-
چند ماہ کے بعد اسے اقوام متحدہ کے افسران طلب کرتے ہیں تاکہ اس کا تفصیلی انٹرویو لیا جاسکے- اگر ان کا اطمینان ہوجائے کہ درخواست دہندہ حقیقت میں مہاجر ہے تو اسے ایک عارضی رہائشی سرٹیفکیٹ دے دیا جاتاہے جس میں ایک سفید کاغذ پر اس کانام اور اس کی تصویر چسپاں کردی جاتی ہے- چند ماہ کے بعد اسے ایک مستقل سرٹیفکیٹ دے دیا جاتاہے جس میں اس کے کوائف درج ہوتے ہیں اور نیلے رنگ کے کاغذ پر اس کی تصویر لگی ہوتی ہے،اب وہ اقوام متحدہ کی طرف سے تسلیم شدہ مہاجربن جاتاہے – اس کے بعد اقوام متحدہ کا مہاجرین کاادارہ معمولی سی رقم کی منظوری دیتاہے جبکہ چھ ماہ کے بعد اس میں بھی کمی کردی جاتی ہے اور ایک سال کے بعد اس پر بھی نظرثانی ہوتی ہے-
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے ایک اہلکار نے بتایا کہ 31 جولائی تک اس ادارے نے 153افراد کو بطور مہاجر تسلیم کیاتھا- دہلی جیسے مہنگے شہر میں گزارہ الاؤنس کے طور پر ملنے والی رقم بشمکل چھ سات روز کے لئے کافی ہوتی ہے-
یونس کو ہر ماہ پانچ ہزار آٹھ سو روپے (145امریکی ڈالر) ملتے ہیں جس میں سے وہ پانچ ہزار روپے جنوبی دہلی کے ایک غریب مضافات میں واقع کرائے کے چھوٹے سے مکان کے لئے کرائے کے لئے اد ا کردیتاہے، بجلی اور موبائل فون کے سوا اسے کوئی سہولت حتی کہ فرنیچر کی سہولت بھی حاصل نہیں ہے- یونس کے بیٹے اعلی کا کہناہے کہ ہم صاف پیک شدہ پانی حاصل نہیں کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ گھر کا ہرفرد نلکے کا پانی پیتاہے اور اس کے نتیجے میں ہر شخص کا معدہ خراب ہے –
یہ مہاجرین نہ صرف تنہائی اور غربت کا شکارہیں، بلکہ بھارتی زبانوں اور ثقافت سے نا آشنائی کی وجہ سے بھی مقامی لوگ ان سے حقارت سے پیش تے ہیں- ان کا کہناہے کہ محسوس یہ ہوتاہے کہ بھارتی معاشرے نے انہیں قبول نہیں کیا ہے- اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہندو علاقے میں رہتے ہیں جہاں گوشت کھانا حتی کہ پیاز کھانا بھی اچھا نہیں سمجھاجاتا-
