قانونی دستاویزات سے انکشاف ہوا ہے کہ امریکی سائبر سیکیورٹی فرم پروف پوائنٹ جو کہ امریکی صحافیوں اور برطانوی یونیورسٹیوں کی ای میلز کو ترتیب دینے اور ان کی درجہ بندی کرنے کا کام کرتی ہے اسرائیلی انٹیلی جنس سروس "موساد” کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ ویب سائٹ ’عربز ان برٹین‘ نے مُنگل کو شائع ہونے والی پریس تحقیقات میں کہا ہے کہ کمپنی (پروف پوائنٹ) جو 2015 سے "واشنگٹن پوسٹ” اورسنہ 2017سے "سی این این” کے لیے ای میل خدمات کی چھانٹی پر کام کر رہی ہے کے 200 ملازمین "تل ابیب” میں واقع اس کے ہیڈ کوارٹر میں اسرائیلی وزارت دفاع کے بالکل ساتھ کام کرتے ہیں۔ پریس تحقیقات نے اشارہ کیا کہ پروف پوائنٹ اس عرصے کے دوران اپنے کام میں Firelayers نامی ایک اسرائیلی سٹارٹ اپ پر انحصار کرتا تھا، جسے (YL Ventures) کی طرف سے مکمل طور پر مالی اعانت فراہم کی گئی تھی۔
یہ سروس خاص طور پر ان افسروں کی طرف سے قائم کردہ تنظیموں کی مدد کرنے کی کوشش کرتی ہے جنہوں نے قابض فوج میں خدمات انجام دیں۔ خاص طور پر کمپیوٹر اور الیکٹرانک آپریشنز یونٹ میں کام کرتی ہے۔ تحقیقات سے پتا چلتا ہے کہ امریکی انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کی دعوت پر ان کمپنیوں کے سینیر ملازمین نے واشنگٹن میں ہونے والی انٹیلی جنس کانفرنس میں شرکت کی جس میں "اسرائیلی۔ امریکی اور عالمی اداروں کے درمیان تعاون پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تحقیقات نے اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ کانفرنس میں مختلف مہارتوں اور سرکاری عہدوں سے تعلق رکھنے والے 70 شرکاء پر مشتمل ایک اسرائیلی وفد نے شرکت کی۔ کانفرنس کے مقررین میں قابض فوج میں کمپیوٹر اور الیکٹرانک آپریشنز یونٹ کے سابق سربراہ عوزی موسکو فیچی بھی شامل تھے۔ اسرائیلی ملٹری انٹیلی جنس کے سابق سربراہ آموس یدلین اور اسرائیل ملٹری انڈسٹریز کے ’سی ای او‘ اُدی جانانی کے علاوہ کئی دوسرے عہدیدار بھی شامل رہے ہیں۔
تین سال تک اسرائیلی انٹیلی جنس میں کام کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کمپنیوں اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے درمیان گھومنے والی دروازے کی پالیسی تشویشناک ہے۔
تحقیقات نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ "سائبر سیکیورٹی کمپنی (پروپوائنٹ) کے ہاتھ میں لائنوں کا ایک بہت بڑا مجموعہ ہے جو لامحالہ اسے اسرائیلی انٹیلی جنس سے قابل اعتراض کنکشن بناتا ہے۔اور ساتھ ہی ساتھ وہ امریکی صحافیوں کی ای میلز کو ترتیب دینے اور ان کی درجہ بندی کرنے پر بھی کام کر رہا ہے۔ یہ بڑی برطانوی یونیورسٹیوں کے لیے کام کرتی ہے۔
قابل ذکر ہے کہ انسانی حقوق کی بڑی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ساتھ ساتھ رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز نے گذشتہ فروری میں یورپی ممالک اور یورپی پارلیمنٹ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ اسرائیلی کمپنیوں کے خلاف تحقیقات شروع کریں۔ انہیں سزا دیں اور انہیں بلیک لسٹ میں شامل کریں۔ یہ کمپنیاں دنیا بھر میں ہزاروں کارکنوں اور عہدیداروں کی جاسوسی اور ڈیٹا کی چوری میں ملوث بتائی جاتی ہیں۔