چهارشنبه 30/آوریل/2025

ڈیوڈ ہارووٹز: نازی ذہن یہودی چہرہ

اتوار 21-اکتوبر-2007

دنیا میں بہت سے لوگ یہ بھلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہولوکاسٹ ، آش وزربرکی نائویا آزائیکلون بی کے استعمال یا نومبر 1938ء میں کرس ٹالن اخت سے شروع ہواتھا – حقیقت یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران وسیع پیمانے پر عوامی قتل عام نہ ہوتا اگر نازیوں نے 1920 ء اور 1930ء کے عشروں میں نفرت کا ٹھوس انفراسٹرکچر ترتیب نہ دیا ہوتا-
ہٹلر نے اپنی کتاب ’’مین کمف ‘‘(میری جدوجہد) میں ’’یہودی خطرے ‘‘ کا ذکرکیاہے جس سے مراد دنیا پر کنٹرول کرنے کی یہودی سازش ہے یہی وہ چیز ہے جو نازی ذہن کے کئی صہیونی آج کل کررہے ہیں- ان کا واضح ترین ہدف یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو بدنام کیا جائے ، ان کی کردارکشی کی جائے ، ان کو ڈرائونا بنا کرپیش کیا جائے اور انہیں انسان دشمن بنا کر پیش کیا جائے – مسلمانوں پر الزام کشی کی جو مہم ہے اس کی قیادت بھی صہیونی کررہے ہیں اور اس کو سرمایہ بھی یہودی فراہم کررہے ہیں –  آج جس شخص کی بھی انٹرنیٹ تک رسائی ہے اسے ورلڈ وائیڈویب پر مسلم دشمن لٹریچر کے ہزاروں صفحات بآسانی مل سکتے ہیں –
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ نفرت پر مبنی موجودہ لٹریچر اس لٹریچر کے مشابہہ ہے جو ہٹلر اور اس کے شریک پالیسی سازوں نے یہودیوں کے خلاف تیار کیاتھا- اس وقت جو اصلاحات یہودیوں کے خلاف استعمال کی گئی تھیں اب وہی مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں مثلاً ’’بد ‘‘،’’فاشسٹ‘‘،’’نسل پرست‘‘،’’سامیت دشمن ‘‘،’’مغربی تہذیب کی تباہی پر تلے ہوئے ‘‘
اس سلسلے میں یہودی اسلامی خوف کے ایک بدنام پراپیگنڈہ بردار ڈیوڈ ہارووٹز کا ذکر ضروری ہے جس کی کوشش ہے کہ امریکہ میں کالج کے ہر نوجوان طالب علم میں ہر اس چیز سے نفرت پیدا کردی جائے جس کا نام مسلم ہے یا جس کا اسلام سے کوئی بھی تعلق ہے – اسلام کو مورد الزام ٹھہرانے اور مسلم ممالک کے خلاف امریکی فوجی جارحیت کے لئے مزید حمایت پیدا کرنے کے لئے ، ہارووٹز نے 22اکتوبر سے درجنوں امریکی کالجوں میں ’’اسلامی فاش ازم ہفتہ بیداری ‘‘ منانے کے پروگرام کا اعلان کیا ہے – اسلامی فاش ازم کی اصطلاح بذات خود مشتعل کرنے والی اور ہر لحاظ سے غلط ہے –
حقیقت یہ ہے کہ اسلام ، فاشزم کی ضد اور رد ہے کہ کیونکہ فاشزم ایک مغربی اصطلاح ہے جس کا مطلب فوجی جاہ پسندی ، خودپسندی ، اقتدار پسندی ، ہوس پرستی اور لاقانونیت کی حکمرانی ہے-
قرآن کا اعلان ہے ’’اے بنی نوع انسان ، ہم نے تمہیں مرد اور عورت کے واحد جوڑے سے پیدا کیا ہے ، پھر تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو جان سکو ، تم میں سے بہترین وہ ہے کہ خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو ، اللہ اس سے خوب اچھی طرح واقف ہے –
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کسی عرب کو کسی عجم اور کسی عجم کو کسی عرب پر فوقیت حاصل نہیں ، نہ ہی سفید رنگ والے شخص کوسیاہ رنگ والے شخص پر ، نہ ہی سیاہ رنگ والے شخص کو سفیدرنگ والے شخص پر کوئی برتری حاصل ہے لیکن تقوی میں اس طرح کے تصورات میں یقین رکھنے والا مذہب  آخر کس طرح فاشسٹ قرار دیا جاسکتاہے ، اسلام کو فاش ازم قرار دینا اور اسلامو فاشزم جیسی انتہائی لغو اور احمقانہ اصطلاحیں استعمال کرنا ، لسانی عصمت دری نہیں تو اور کیا ہے –
بلا شک وشبہہ ایسے انتہا پسند جنونی اور دہشت گرد موجود ہیں جو اسلام کے نام پر ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن کا اسلام کی بنیادی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے ، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد اسلام کے تمام پیروکاروں کی نسبت سے انتہائی کم ہے ، یہ عموماً ایسے لوگ ہیں جو مسلمانوں اور مسلمانوں کے علاقوں پر اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں خصوصاً امریکہ کی جانب سے مجرمانہ کارروائیوں کے ردعمل میں ،جوابی کاروائیاں کررہے ہیں اور انہیں دہشت گردی کرنے پر مجبور کردیا گیاہے – علاوہ ازیں اگر ان انتہاپسند عسکریت پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے اسلام کو ’’فاشسٹ ‘‘قرار دیا جا رہاہے تو پھر عراق اور افغانستان کے خلاف اور دیگر مسلم قوموں کے خلاف نسل کشی کی عسکری جارحیت کو کیا کہا جائے گا ، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جاری کررکھی ہے – اسی طرح اگر چند سو یا چند ہزار فلسطینی مزاحمت کاروں کا وجود جو اپنے وطن کے دفاع کے لئے لڑ رہے ہیں اور جوہری اسلحے کے مالک اسرائیل کے نازی طرز کے ظلم وستم سے نبرد آزما ہیں ، اگر ان کو ’’فاشسٹ ‘‘قرار دینا درست ہے تب  آزادی اور انصاف کے لئے  آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام سے لے کر وارسا کے باڑوں کے یہودی محافظوں تک کے تمام لوگوں کو نازی ، شیطانی اور بدی پر مبنی’’قرار دینا ہوگا-‘‘
اس سے بھی بڑھ کر اگر مسلمانوں کو فاشسٹ اس لئے قرار دیا جا رہے کہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے یا انہیں خدا ماننے سے انکار کردیا ہے جیسا کہ مسیحی صہیونی  آج کل کھلم کھلا دعوی کررہے ہیں تو پھر بقیہ تمام غیر مسیحی دنیا میں ایک کروڑ تیس لاکھ یہودی بھی شامل ہیں ، ان کو بھی ’’ فاشسٹ ‘‘قرار دینا چاہیے اور ان کو نیست و نابود کردینا چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ یسوع مسیح کے نام پر ہو رہاہے-
ہورووز کی امریکی سرزمین پر جاری مہم کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا گرم ہوجائے – اس کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ ایسی نفسیاتی فضا پیدا کردی جائے جس سے امریکہ مسلانوں کے خلاف مزید جنگوں کا  آغاز کرسکے ،نیز اسرائیل اور مغربی کنارے سے فلسطینی مسلمانوں اور مسیحیوں کا صفایا کیا جاسکے – نفرت کو ہوا دینے والے انتہا پسند یہودی ریڈیکل لو ،مثلاً ہورووز ، ڈینیل چائسیس اور صہیونی بالاد ستی رکھنے والے ’’نیوکون ‘‘ امریکی جو امریکی سیاست اور پالیسیوں کو کنٹرول کرتے ہیں ان میں سینکڑوں امریکی سیاستدان ،ماہرین تعلیم اور یہودیوں کے زیر اثر ارباب فکر ودانش شامل ہیں-
سیاستدان ، صدارتی امید وار ، کانگرس نمائندے اور کانگرس خواتین نمائندگان کو طاقتور یہودی لابی ، اس قدر ہراساں رکھتی ہے کہ فلسطینیوں پر اسرائیلی جبرو تشدد کی مذمت میں ایک لفظ کہنے سے بھی پہلے وہ ایک ہزا ر بار سوچتے ہیں- یہ امید کرنا کہ نازی ذہن رکھنے والے یہودی کہ جو یہودی مذہب کے اخلاقی شعور اور روحانی تصورات کے لئے سرطان کی شکل اختیار کرچکے ہیں کوشش کررہے ہیں کہ امریکہ کے وسیع و عریض وسائل کو اسرائیل کی ایما پر مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ لا محدود جنگ میں استعمال کریں –
گزشتہ روز عراق کا نمبر تھا اب وہ چاہتے ہیں کہ واشنگٹن حکومت ایران میں دراندازی کرے اور حملہ کردے ، اس کے بعد شام اور اسکے بعد کس کا نمبر آتاہے ، اللہ ہی بہتر جانتاہے ؟نفسیاتی مرض ہذیان (ہسٹریاں )کی یہ کیفیت ، خدا نہ کرے کہ ایسا ایک جوہری ہولوکاسٹ کی صورت میں اختتام پذیر ہوگی جس میں لاکھوں نہیں بلا مبالغہ ایک کروڑ لوگ جنگ کی  آگ کا لقمہ بن جائیں گے- امکان ہے تب ہورووز اور ڈینیل پائسیس قسم کے لوگ اطمینان محسوس کریں گے اور ضمیر پر کوئی بوجھ بھی نہ محسوس کریں گے-
اس سلسلے میں یہودیوں خصوصاً ضمیر اور اخلاقیات میں یقین رکھنے والے یہودیوں سے بھی ایک بات کہنا ضروری ہے – وہ نفرت کی  آگ برسانے اور پھیلانے والے ان لوگوں کے خلاف  آواز کیوں بلند نہیں کرتے کہ جو ان کے درمیان موجود ہیں –  آخر نازی طرز کے طرز فکر کے خلاف وہ  آواز بلند کیوں نہیں کرتے ؟ کیا نازی طرز کا رویہ اس وقت حلال(کوشر)بن جاتا ہے کہ جب یہودی اسے کرتے ہیں –
یہ منافقت اور دہرے اخلاقی معیار کی علامت ہے کہ سام دشمن کے خلا ف شدید احتجاج کیا جائے لیکن اگر ایسا ہی رویہ اسلام کے خلاف روا رکھا جائے تو اس پر گونگا ،بہرا رہا جائے کیونکہ اس کے کرنے والے یہودی ہیں اور اجتماعی طور پر وہ یہ سب کچھ یہودی مذہب اور پوری یہودی قوم کے نام پر ہی کررہے ہیں –
تمام کے تمام یہودیوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مذہبی یا نسلی گروہ کے خلاف نفرت پھیلانے سے ’’مقامی  آبادی کے خلاف کام کا آغاز ‘‘ہوتاہے ( جیساکہ اوگدورلیبر مین ‘‘ اسرائیل میں اور ڈیوڈ ہارووٹز امریکہ میں کررہاہے)بلکہ اس کمیونٹی کو بھی غیر قانونی گروہ کی شناخت مل جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ راستہ اجتماعی قتل عام کی طرف جاتاہے-
یہودیوں کو امریکہ میں اپنی طاقت پر غرور نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے ، کیونکہ نفرت اندھی بھی ہوتی ہے اور عقل سے محروم بھی –
دنیا میں بہت سے لوگ یہ بھلانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہولوکاسٹ ، آش وزربرکی نائویا آزائیکلون بی کے استعمال یا نومبر 1938ء میں کرس ٹالن اخت سے شروع ہواتھا – حقیقت یہ ہے کہ جنگ عظیم دوم کے دوران وسیع پیمانے پر عوامی قتل عام نہ ہوتا اگر نازیوں نے 1920 ء اور 1930ء کے عشروں میں نفرت کا ٹھوس انفراسٹرکچر ترتیب نہ دیا ہوتا-
ہٹلر نے اپنی کتاب ’’مین کمف ‘‘(میری جدوجہد) میں ’’یہودی خطرے ‘‘ کا ذکرکیاہے جس سے مراد دنیا پر کنٹرول کرنے کی یہودی سازش ہے یہی وہ چیز ہے جو نازی ذہن کے کئی صہیونی آج کل کررہے ہیں- ان کا واضح ترین ہدف یہ ہے کہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو بدنام کیا جائے ، ان کی کردارکشی کی جائے ، ان کو ڈرائونا بنا کرپیش کیا جائے اور انہیں انسان دشمن بنا کر پیش کیا جائے – مسلمانوں پر الزام کشی کی جو مہم ہے اس کی قیادت بھی صہیونی کررہے ہیں اور اس کو سرمایہ بھی یہودی فراہم کررہے ہیں –  آج جس شخص کی بھی انٹرنیٹ تک رسائی ہے اسے ورلڈ وائیڈویب پر مسلم دشمن لٹریچر کے ہزاروں صفحات بآسانی مل سکتے ہیں –
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ نفرت پر مبنی موجودہ لٹریچر اس لٹریچر کے مشابہہ ہے جو ہٹلر اور اس کے شریک پالیسی سازوں نے یہودیوں کے خلاف تیار کیاتھا- اس وقت جو اصلاحات یہودیوں کے خلاف استعمال کی گئی تھیں اب وہی مسلمانوں کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں مثلاً ’’بد ‘‘،’’فاشسٹ‘‘،’’نسل پرست‘‘،’’سامیت دشمن ‘‘،’’مغربی تہذیب کی تباہی پر تلے ہوئے ‘‘
اس سلسلے میں یہودی اسلامی خوف کے ایک بدنام پراپیگنڈہ بردار ڈیوڈ ہارووٹز کا ذکر ضروری ہے جس کی کوشش ہے کہ امریکہ میں کالج کے ہر نوجوان طالب علم میں ہر اس چیز سے نفرت پیدا کردی جائے جس کا نام مسلم ہے یا جس کا اسلام سے کوئی بھی تعلق ہے – اسلام کو مورد الزام ٹھہرانے اور مسلم ممالک کے خلاف امریکی فوجی جارحیت کے لئے مزید حمایت پیدا کرنے کے لئے ، ہارووٹز نے 22اکتوبر سے درجنوں امریکی کالجوں میں ’’اسلامی فاش ازم ہفتہ بیداری ‘‘ منانے کے پروگرام کا اعلان کیا ہے – اسلامی فاش ازم کی اصطلاح بذات خود مشتعل کرنے والی اور ہر لحاظ سے غلط ہے –
حقیقت یہ ہے کہ اسلام ، فاشزم کی ضد اور رد ہے کہ کیونکہ فاشزم ایک مغربی اصطلاح ہے جس کا مطلب فوجی جاہ پسندی ، خودپسندی ، اقتدار پسندی ، ہوس پرستی اور لاقانونیت کی حکمرانی ہے-
قرآن کا اعلان ہے ’’اے بنی نوع انسان ، ہم نے تمہیں مرد اور عورت کے واحد جوڑے سے پیدا کیا ہے ، پھر تمہاری قومیں اور قبیلے بنائے تاکہ تم ایک دوسرے کو جان سکو ، تم میں سے بہترین وہ ہے کہ خدا سے زیادہ ڈرنے والا ہے اور تم جو کچھ کرتے ہو ، اللہ اس سے خوب اچھی طرح واقف ہے –
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کسی عرب کو کسی عجم اور کسی عجم کو کسی عرب پر فوقیت حاصل نہیں ، نہ ہی سفید رنگ والے شخص کوسیاہ رنگ والے شخص پر ، نہ ہی سیاہ رنگ والے شخص کو سفیدرنگ والے شخص پر کوئی برتری حاصل ہے لیکن تقوی میں اس طرح کے تصورات میں یقین رکھنے والا مذہب  آخر کس طرح فاشسٹ قرار دیا جاسکتاہے ، اسلام کو فاش ازم قرار دینا اور اسلامو فاشزم جیسی انتہائی لغو اور احمقانہ اصطلاحیں استعمال کرنا ، لسانی عصمت دری نہیں تو اور کیا ہے –
بلا شک وشبہہ ایسے انتہا پسند جنونی اور دہشت گرد موجود ہیں جو اسلام کے نام پر ایسی کارروائیاں کرتے ہیں جن کا اسلام کی بنیادی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے ، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد اسلام کے تمام پیروکاروں کی نسبت سے انتہائی کم ہے ، یہ عموماً ایسے لوگ ہیں جو مسلمانوں اور مسلمانوں کے علاقوں پر اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں خصوصاً امریکہ کی جانب سے مجرمانہ کارروائیوں کے ردعمل میں ،جوابی کاروائیاں کررہے ہیں اور انہیں دہشت گردی کرنے پر مجبور کردیا گیاہے – علاوہ ازیں اگر ان انتہاپسند عسکریت پسندوں کی موجودگی کی وجہ سے اسلام کو ’’فاشسٹ ‘‘قرار دیا جا رہاہے تو پھر عراق اور افغانستان کے خلاف اور دیگر مسلم قوموں کے خلاف نسل کشی کی عسکری جارحیت کو کیا کہا جائے گا ، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جاری کررکھی ہے – اسی طرح اگر چند سو یا چند ہزار فلسطینی مزاحمت کاروں کا وجود جو اپنے وطن کے دفاع کے لئے لڑ رہے ہیں اور جوہری اسلحے کے مالک اسرائیل کے نازی طرز کے ظلم وستم سے نبرد آزما ہیں ، اگر ان کو ’’فاشسٹ ‘‘قرار دینا درست ہے تب  آزادی اور انصاف کے لئے  آدم علیہ السلام اور حوا علیہ السلام سے لے کر وارسا کے باڑوں کے یہودی محافظوں تک کے تمام لوگوں کو نازی ، شیطانی اور بدی پر مبنی’’قرار دینا ہوگا-‘‘
اس سے بھی بڑھ کر اگر مسلمانوں کو فاشسٹ اس لئے قرار دیا جا رہے کہ انہوں نے عیسی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے یا انہیں خدا ماننے سے انکار کردیا ہے جیسا کہ مسیحی صہیونی  آج کل کھلم کھلا دعوی کررہے ہیں تو پھر بقیہ تمام غیر مسیحی دنیا میں ایک کروڑ تیس لاکھ یہودی بھی شامل ہیں ، ان کو بھی ’’ فاشسٹ ‘‘قرار دینا چاہیے اور ان کو نیست و نابود کردینا چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ یسوع مسیح کے نام پر ہو رہاہے-
ہورووز کی امریکی سرزمین پر جاری مہم کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی فضا گرم ہوجائے – اس کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ ایسی نفسیاتی فضا پیدا کردی جائے جس سے امریکہ مسلانوں کے خلاف مزید جنگوں کا  آغاز کرسکے ،نیز اسرائیل اور مغربی کنارے سے فلسطینی مسلمانوں اور مسیحیوں کا صفایا کیا جاسکے – نفرت کو ہوا دینے والے انتہا پسند یہودی ریڈیکل لو ،مثلاً ہورووز ، ڈینیل چائسیس اور صہیونی بالاد ستی رکھنے والے ’’نیوکون ‘‘ امریکی جو امریکی سیاست اور پالیسیوں کو کنٹرول کرتے ہیں ان میں سینکڑوں امریکی سیاستدان ،ماہرین تعلیم اور یہودیوں کے زیر اثر ارباب فکر ودانش شامل ہیں-
سیاستدان ، صدارتی امید وار ، کانگرس نمائندے اور کانگرس خواتین نمائندگان کو طاقتور یہودی لابی ، اس قدر ہراساں رکھتی ہے کہ فلسطینیوں پر اسرائیلی جبرو تشدد کی مذمت میں ایک لفظ کہنے سے بھی پہلے وہ ایک ہزا ر بار سوچتے ہیں- یہ امید کرنا کہ نازی ذہن رکھنے والے یہودی کہ جو یہودی مذہب کے اخلاقی شعور اور روحانی تصورات کے لئے سرطان کی شکل اختیار کرچکے ہیں کوشش کررہے ہیں کہ امریکہ کے وسیع و عریض وسائل کو اسرائیل کی ایما پر مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ لا محدود جنگ میں استعمال کریں –
گزشتہ روز عراق کا نمبر تھا اب وہ چاہتے ہیں کہ واشنگٹن حکومت ایران میں دراندازی کرے اور حملہ کردے ، اس کے بعد شام اور اسکے بعد کس کا نمبر آتاہے ، اللہ ہی بہتر جانتاہے ؟نفسیاتی مرض ہذیان (ہسٹریاں )کی یہ کیفیت ، خدا نہ کرے کہ ایسا ایک جوہری ہولوکاسٹ کی صورت میں اختتام پذیر ہوگی جس میں لاکھوں نہیں بلا مبالغہ ایک کروڑ لوگ جنگ کی  آگ کا لقمہ بن جائیں گے- امکان ہے تب ہورووز اور ڈینیل پائسیس قسم کے لوگ اطمینان محسوس کریں گے اور ضمیر پر کوئی بوجھ بھی نہ محسوس کریں گے-
اس سلسلے میں یہودیوں خصوصاً ضمیر اور اخلاقیات میں یقین رکھنے والے یہودیوں سے بھی ایک بات کہنا ضروری ہے – وہ نفرت کی  آگ برسانے اور پھیلانے والے ان لوگوں کے خلاف  آواز کیوں بلند نہیں کرتے کہ جو ان کے درمیان موجود ہیں –  آخر نازی طرز کے طرز فکر کے خلاف وہ  آواز بلند کیوں نہیں کرتے ؟ کیا نازی طرز کا رویہ اس وقت حلال(کوشر)بن جاتا ہے کہ جب یہودی اسے کرتے ہیں –
یہ منافقت اور دہرے اخلاقی معیار کی علامت ہے کہ سام دشمن کے خلا ف شدید احتجاج کیا جائے لیکن اگر ایسا ہی رویہ اسلام کے خلاف روا رکھا جائے تو اس پر گونگا ،بہرا رہا جائے کیونکہ اس کے کرنے والے یہودی ہیں اور اجتماعی طور پر وہ یہ سب کچھ یہودی مذہب اور پوری یہودی قوم کے نام پر ہی کررہے ہیں –
تمام کے تمام یہودیوں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ کسی مذہبی یا نسلی گروہ کے خلاف نفرت پھیلانے سے ’’مقامی  آبادی کے خلاف کام کا آغاز ‘‘ہوتاہے ( جیساکہ اوگدورلیبر مین ‘‘ اسرائیل میں اور ڈیوڈ ہارووٹز امریکہ میں کررہاہے)بلکہ اس کمیونٹی کو بھی غیر قانونی گروہ کی شناخت مل جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ راستہ اجتماعی قتل عام کی طرف جاتاہے-
یہودیوں کو امریکہ میں اپنی طاقت پر غرور نہیں کرنا چاہیے ، کیونکہ اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے ، کیونکہ نفرت اندھی بھی ہوتی ہے اور عقل سے محروم بھی –

مختصر لنک:

کاپی