امریکہ کے حالیہ دورے سے قبل میں نے وہاں عوامی خطاب میں چار برس قبل کہاتھا- اس دوران میں دنیا بھر میں گھومتا پھرتا رہا اور تقریباً بیس ممالک کے لوگوں کو اپنا پیغام پہنچایا- میں جہاں کہیں بھی گیا ، میں نے فلسطینی لوگوں کے لئے انصاف ،نیز عالمی نسل پرستی اور جنگ کے متبادل تلاش کرنے کی بات کی اور میری تجاویز کو توجہ سے سناگیا تاہم میں نے امریکہ میں جہاں جہاں گفتگو کی اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ 11ستمبر 2001ء کے بعد سے دانشور طبقہ جس ذہنی افلاس سے دوچار ہوگیاتھا وہ اب بھی ختم نہیں ہوا- اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ فکر و نظر کی آزادی کے لئے امریکہ کو اہم مقام کی حیثیت حاصل رہی ہے جہاں انتہائی اہم حقائق نے جنم بھی لیا ہے اور دنیا بھر میں نشوودنمابھی پائی ہے- اگرچہ اس تاریخی حقیقت کو بدلنے کی بارہا کوشش کی گئی ہے پھر بھی بہت سے امریکی اپنے ملک کے اساسی اصولوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں- اس رویے سے ان لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے جو حقائق کو توڑنے موڑنے اور نصف سچائی پیش کرنے کے چکر میں رہتے ہیں-
جب میں اپنی کتاب سیکنڈ پیلسٹین انتفاضہ تحریر کررہاتھا تو ورجینا کا مقام نارفولک میں میرا اولین قیام تھا- یہاں چودہ فوجی مرکز قائم ہیں جبکہ ارد گرد کی آبادی انتہائی درجے کی جنگ مخالف ہے – ان لوگوں سے گفتگو کرنا نیز امن و انصاف کے حق میں دلائل دینا میرے لئے خوشگوار تجربہ تھا-
ورجینا کی ویزلین یونیورسٹی میں میں نے کئی موضوعات پر تقاریر کیں ، ان میں فلسطین ، عراق ، وینز ویلا اور نکارا گوا شامل تھے- میں کوشش کرتاہوں کہ کثیر تعداد میں پس منظر میں بات کروں تاکہ میرے سامعین سیاسی حد بندی قومی — اور نسلی و لسانی تعصبات کو ایک طرف رکھ کر معاملات کو سمجھیں – مسئلہ فلسطین پر گفتگو کرتے ہوئے میں نے پر امن بقائے باہمی کی بات کی اس کے لئے میں نے کوئی نیا حل تجویز کرنے کی بجائے میں نے بنیادی ضروریات پر زور دیا – بقائے باہمی کی منزل حاصل کرنے کے لئے انصاف بے انتہا ضروری ہے اور انصاف حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اسرائیل ان جرائم کا اعتراف کرے جو اس نے فلسطینی عوام کے خلاف کئے ہیں اور اس کا وعدہ بھی کرے کہ ان کا اعادہ نہ ہوگا – فلسطین میں تن تنہا اس اسرائیل کے ساتھ امن کشید نہیں کرسکتا جو اس کو نقصان پہنچانے اور اس کے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہے-
میں نے خود کش حملوں کے بارے میں اس نقطہ نظر سے بات کی جسے عموماً فراموش کردیاجاتاہے میں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ یہ طرز عمل ان کی روز مرہ زندگی کا حصہ ہے – انسان کو اس قدر جرات مند ہوناچاہیے کہ وہ تشدد کے اسباب کو سمجھ کر اس کے خاتمے کی کوشش کرے- اگر فلسطینیوں کی جانب سے تشدد کے اقدامات ختم کرنا چاہتے ہیں تو ضروری ہے کہ اسرائیل کی جانب سے حکومتی سرپرستی میں چلنے والے منظم اور انتہائی مہنگے تشدد کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے- یہ جادوئی کام نہیں ہوسکتا کہ اسرائیل کی حفاظت بھی ممکن ہو اور فلسطینیوں کے مسائل بھی ختم نہ ہوں – ایک قوم کو تحفظ فراہم کرنا اور دوسری قوم کو اس سے بالکل محروم کردینا غیر قانونی بھی ہے ، غیر انسانی بھی اور غیر عقلی بھی –
میں نے اپنے لیکچروں میں فلسطینیوں کی اس بات پر تعریف کی کہ وہ جمہوری اصولوں پر عمل در آمد کررہے ہیں اور ان لوگوں پر تنقید کی جنہوں نے فلسطینیوں کے جمہوری تجربے کو ناکام بنانے کی کوشش کی ، کیونکہ فلسطینیوں کا جمہوری طرز عمل پورے علاقے کے لئے مثال بن کرسامنے آسکتاتھا-
فلسطینیوں کو بھوک سے مرنے نہیں دینا چاہیے اور فلسطینیوں کو جمہوری حکومت منتخب کرنے کی سزا دینے کے لئے داخلی انتشار کو پروان نہیں چڑھانا چاہیے کیونکہ یہ حکومت اپنے لوگوں کے جمہوری حقوق کا احترام کرتی رہی ہے – میں نے اس چیز پر بھی بحث کی کہ حماس کے اسلامی خیالات وہ اصل وجہ نہیں ہیں جس کی وجہ سے امریکہ اور اسرائیل ان سے تشدد آمیز سلوک کررہاہے- نیز یہ کہ انتہا پسندی اور ماڈریشن کو لادینی خیالات کی روشنی میں پرکھا نہیں جاسکتا بلکہ ان کے ذریعے ہمیں یہ پرکھنا چاہیے کہ کون کون سی حکومتیں آلہ کار ہیں اور کون آلہ کار نہیں –
میں نے ایک ایسے مستقبل کی پیشین گوئی کی کہ جب فلسطینی اور اسرائیلی مل جل کر رہ سکیں، نیز امریکی واسرائیلی حکومتوں نے انہیں جس تاریکی میں دھکیل دیا ہے اس سے باہر آسکیں – میں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مذکورہ منزل کے حصول کے لئے امن ، کے خالی خولی نعرے کافی نہیں ہیں کیونکہ ان کے لئے انصاف اور برابری درکار ہے-
ظاہری طور پر میرے خیالات پر ربی اسرائیل زوبرمین اور ان کے ساتھیوں نے کوئی اعتراض نہ کیاتھا- انہوں نے اخبار میں یہ خبر پڑھ کر میرے لیکچر میں شرکت کی تھی کہ فلسطین نواز، صحافی ورجینا ویزلیان میں خطاب کریں گے- وہ تیاری کرکے آئے تھے اور اس سے پہلے کہ میں ایک لفظ بھی کہہ سکوں وہ میری ذات پر حملے کے لئے تیار ہوگئے – ایک کے بعد ایک ،انہوں نے سوالات کی بوچھاڑ کردی – ان میں سے ایک نے دعوی کیا کہ فلسطین میں 1880ء میں یہودیوں کی تعداد عیسائیوں اور مسلمانوں سے زیادہ تھی – اس غلط بیانی پر ردعمل کس طرح ظاہر کیا جاتاہے ایک اور شخص نے دعوی کیا کہ اسرائیل نے نسلی ا متیاز کی بناپر ایک شخص کو بھی ہلاک یا جلاوطن نہیں کیا- ایک اور شخص نے دعوی کیا کہ خودکش حملہ آوروں کے بارے میں کلمہ خیر کہہ کر میں نے 11/9 حملوں کو درست قرار دینے کی کوشش کی ہے چاہے اس بارے میں میری نیت اچھی ہی کیوں نہ ہو ، یہ الزام بہرحال سب سے سنگین تھا-
زوبرمین نے بذات خود مجھ پر الزام عائد کیا کہ میں حماس کا ہمدرد ہوں اور چونکہ امریکہ کی وزارت خارجہ نے حماس کو ’’دہشت گرد‘‘تنظیموں کی فہرست میں شامل کررکھاہے اس لئے مجھے اس موضوع پر حماس کی حمایت میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے – میں نے فوری طور پر اعتراضات کو درست تسلیم کرنے سے انکار کردیا – اس پر زوبرمین نے میرے خلاف خطوط لکھوانے کی مہم شروع کردی علاوہ ازیں اس نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی فون ایک مقامی اخبار کے دفتر میں کیاکہ میرا لیکچر زہر آلود ہے – اس نے یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی ہدف ملامت بنایا جنہوں نے مجھے تقریر کے لئے بلایاتھا- زوبرمین نے یونیورسٹی انتظامیہ پر زور دیا کہ ایسے لوگوں کو دوبارہ نہ بلایا جائے ،میرے خلاف الزام تراشی کی مہم تاحال جاری ہے –
میرے خلاف الزام تراشی کی مہم کوئی پہلا موقعہ نہیں ہے لیکن میں نے محسوس کیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں صہیونی انتہا پسندوں نے کی ہے کہ امریکہ میں آزادی اظہار کی آزادی مشرق وسطی کے بارے میں لازماً محدود کردی جائے –
امریکی صہیونی لابی کی کوشش ہے کہ جمی کارٹر ،ڈسیمنڈ ٹوٹو ،نارمن فنکل سٹاین ، جان مے ارشی مر اور سٹیفن والٹ جیسی قابل احترام شخصیات بھی فلسطینیوں کے بارے میں کلمہ حق نہ کہہ سکیں- مختصراً یہ کہا جاسکتاہے کہ اگر کوئی شخص مشرق وسطی کے بارے میں امریکی پالیسی کو ہدف تنقید بناتاہے یا فلسطینیوں کے لئے بھی حقوق تسلیم کرنے کا اعلان کرتاہے تو اس پر الزامات کی بوچھاڑ کردی جاتی ہے اور یہ سمجھاجاتاہے کہ وہ یہوددشمنی کا مرتکب ہوا ہے – امریکہ میں موجود سرگرم صہیونی یہ حقیقت سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ فلسطینیوں کے حقوق کے لئے سب سے زیادہ آواز بلند کرنے والوں میں یہودی بھی شامل ہیں- کیونکہ انصاف اور امن کا سوال ، لسانی یا مذہبی حدود تک محدود نہیں ہے – بالکل ممکن ہے کہ جو لوگ کمزورہوں ان کی قوت ارادی ٹوٹ جائے تاہم انسانی روح اس قدر مضبوط ہے کہ کردار کشی اور بازو مروڑے جانے کے باوجود حق کی بات کرسکیں- حق میں یہ قوت ہے کہ وہ خود بخود لوگوں کے پاس پہنچنے کی صلاحیت رکھتاہے اور عموماً اپنے کام میں کامیاب رہاہے-
