چهارشنبه 30/آوریل/2025

تل ابیب کے نازی حکمران

بدھ 31-اکتوبر-2007

اسرائیل نے غزہ کی پٹی کے چودہ لاکھ انسانوں کو ’’یکہ و تنہا‘‘ کرڈالا ہے اور ساری دنیا اسے لاتعلقی سے دیکھ رہی ہے- 28 اکتوبر کو اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں توانائی کی فراہمی کو 20 فیصد کم کردیا- اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق امکان ہے کہ آئندہ ہفتوں میں مزید کمی کردی جائے گی- گزشتہ ہفتے اسرائیلی وزیر دفاع ایہود باراک نے حکم دیا کہ غزہ کی پٹی میں توانائی اور برقی رو کی فراہمی کو بتدریج کم کردیا جائے تاکہ مقبوضہ ساحلی علاقے میں بہت بڑی کارروائی کی جاسکے- ماضی کے تجربات کی روشنی میں امکان ہے کہ آئندہ کارروائی میں سینکڑوں فلسطینی جاں بحق اور معذور ہو جائیں گے-
ایہود باراک جنگی مجرم ہیں- بطور وزیر اعظم ہزاروں فلسطینی شہریوں اور بچوں کے قتل میں سال 2000ء اور سال 2001ء میں اس کا کردار رہا ہے- تباہ حال غزہ میں دہشت اور موت کی کارروائیاں کرنے کے لیے اس کے پاس سب سے بڑا بہانہ یہ ہے کہ غزہ کی پٹی سے قریبی یہودی آبادیوں میں گھریلو ساختہ میزائل پھینکے جاتے ہیں- باراک چاہتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں خون خرابے کا ایک اور دور چلایا جائے تاکہ اس کی اپنی شہرت اور اسرائیل میں آئندہ انتخابات سے قبل ہی عوام الناس میں اس کی مقبولیت میں اضافہ ہو جائے- یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ فلسطینیوں پر تشدد کرنا اور ان کو بے حد و حساب تشدد کا نشانہ بنانا اسرائیل میں انتخابات جیتنے کے لیے انتہائی مؤثر حربہ رہا ہے جہاں عوام الناس کا رجحان کئی برسوں سے دائیں بازو کی انتہاء پسندی کی طرف ہو رہا ہے- اسرائیل غزہ کے لوگوں کے خلاف خاص طور پر اور فلسطینی عوام کے خلاف عموماً کارروائی کے لیے قسام بریگیڈ کی موجودگی کو سب سے بڑا جواز بناتا ہے لیکن اس کی دلیل مضبوط نہیں ہے- کہا جاسکتا ہے کہ فلسطینی مجاہدین کو سزا دینے کا سلسلہ جو اسرائیل نے شروع کررکھا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ مجاہدین نے جواباً پے درپے کارروائیاں کی ہیں- اسرائیل عالمی برادری کے سامنے دروغ گوئی کرتا ہے کہ اس کا غزہ کی پٹی پر قبضہ نہیں ہے حالانکہ حقیقت میں اس نے گنجان آبادی والے اس علاقے کو ایک بہت بڑے نظر بندی کیمپ میں تبدیل کردیا ہے- جس طرح کے انسانی باڑے (Ghetto) وارسا میں بنائے گئے تھے – کھلی چھت والی اس وسیع جیل میں چودہ لاکھ فلسطینی تین سو مربع کلیو میٹر رقبے میں محصور ہیں- پانی، خوراک کی بے انتہاء کمی ہے- بیروزگاری بے حد و حساب عروج پر ہے ہر طرف غربت مایوسی اور ناامیدی نے ڈیرہ ڈال رکھے ہیں- ان سب سے بڑھ کر اسرائیلی فوج ہے جس کے پاس لوگوں کو ہلاک کرنے کے سرکاری طریقے موجود ہیں- وہ فلسطینیوں کو قتل کررہی ہے یا معذور بنارہی ہے اور یہ کام ہر روز ہوتا ہے-
اسرائیل نے غزہ کے شہریوں کو اس کی بھی اجازت نہیں دی ہے کہ وہ ملازمت یا علاج کے لیے باہر جاسکیں- اس وجہ سے کئی فلسطینی علاقے دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے کئی فلسطینی علاج دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہو چکے ہیں-
گزشتہ ہفتے غزہ کا رہنے والا ایک فرد ایریز سرحد کے ٹرمینل پر اس وقت انتقال کرگیا جب وہ انتظار کررہا تھا کہ قابض اسرائیلی فوج اسے اسرائیل میں داخل ہونے کی اجازت دے یا مغربی کنارے واپس جانے کی اجازت دے-
اسی طرح کئی ایک فلسطینی ہیں جو پیچیدہ امراض کا شکار ہیں وہ اپنا علاج نہ کرا سکے- اسرائیل نے جو ظالمانہ اور مجرمانہ کردار اختیار کررکھا ہے اس کی ایک عملی مثال فلسطینی مجاہدین ہیں جنہیں اپنے وطن واپس آنے کی اجازت نہیں دی جاتی- نازی طرز کی اسرائیلی حکومت نے گزشتہ چالیس برس میں جو کارروائیاں معصوم فلسطینیوں کے خلاف کی ہیں- اس کی کوئی بھی دلیل نہیں پیش کی جاسکتی-
اسرائیلی لیڈر اور سیاستدان تشدد کے مسئلے کو بار بار اٹھاتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام برسوں میں پوری قوم کو دہشت اور تشدد کے سائے میں رکھنے سے بڑا جرم کیا ہوسکتا ہے- ان بدترین حالات کا سامنا کرتے ہوئے کسی قوم کے سامنے کیا راستہ کھلا رہ جائے گا- کیا فلسطینیوں سے امید کی جاتی ہے کہ وہ خوراک، اشیائے ضرورت او ملازمتوں سے محروم ہونے کے بعد جاں بحق ہونے، معذور ہونے اور محصور ہونے کے بعد بھی خاموش رہیں گے-
غزہ میں موجودہ فلسطینی انتظامیہ نے کئی بار یہ تجویز پیش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مکمل جنگ بندی کرلی جائے اور دونوں اطراف ایک دوسرے پر حملہ آور نہ ہوں لیکن بے حد و حساب طمع رکھنے والا اسرائیل ہمیشہ ’’نہ‘‘ کہہ دیتا ہے کیونکہ اسرائیل کا خیال ہے کہ وہ ’’دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ برابری کی سطح پر نہیں بیٹھ سکتا- اسرائیل نے جو حیثیت اختیار کررکھی ہے وہ کسی سے خفیہ نہیں ہے- کسی بھی دوسری فاشسٹ ذہن رکھنے والی ریاست کی طرح فلسطینیوں کے ساتھ امن کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی نہ ہی وہ فلسطینیوں کے وجود کو باقی دیکھنا چاہتی ہے- اسرائیل صرف یہ چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کو مارتا رہے- انہیں تشدد کا نشانہ بناتا رہے یہاں تک کہ وہ صہیونیوں کے نسلی صفائی اور علاقائی بالادستی کے عزائم کے آگے مزید زیراست بن کر رہیں، لیکن فلسطینی اس حل کو کبھی قبول نہ کریں گے چاہے تمام فلسطینی آبادی مٹ جائے-
فلسطینیوں کی بقاء کا سوال انسانی ضمیر کے لیے بنیادی سوال کی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ جھوٹ، فریب، دروغ گوئی اور سرمایہ داری کے ذریعے فلسطینیوں کو ناکام رہنے دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دنیا اخلاقی زوال کے معاملے میں اپنی انتہاء کو پہنچ چکی ہے- اسرائیل اور اس کا سرپرست امریکہ انسانیت کی راہنمائی کا دعوی کرتا ہے لیکن ظلم و ذیادتی اور بالادستی کے خلاف ردعمل بھی اسی قدر شدید ہوگا-
اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ناانصافی جہاں کہیں بھی ہو وہ انصاف کے راستے میں رکاوٹ بنی رہے گی- زمین پر جو لوگ ایمانداری پر یقین رکھتے ہیں- جو تشدد کے آگے جھکنا نہیں جانتے- جو صاف صاف بات کہنے کی جرأت رکھتے ہیں- ان سے گزارش ہے- اپیل ہے کہ سڑکوں پر نکلیں اور تل ابیب میں بیٹھے ہوئے ہمارے دور کے نازیوں کو بتادیں کہ وہ غزہ میں سست رفتار نسل کشی کرکے ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کررہے ہیں-

مختصر لنک:

کاپی